Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایک مذہبی روایت میں کیوں مداخلت کر رہا ہے چین

Updated: July 11, 2025, 10:47 AM IST | Mumbai

بدھ مذہب کے مذہبی رہنما دلائی لامہ ۹۰؍ سال کے ہوچکے ہیں۔ ان کے جانشین کا مسئلہ ہے۔ اس معاملے میں بھارت اور چین دونوں دلچسپی لے رہے ہیں۔

The Dalai Lama, the greatest religious leader of Buddhism, would have celebrated his 90th birthday on July 6, 2025, meaning he is very old, so the issue of his successor has arisen.
بدھ مذہب کے سب سے بڑے مذہبی رہنما دلائی لامہ کی ۶؍ جولائی ۲۰۲۵ء کو ۹۰؍ واں سالگرہ تھی یعنی وہ بہت بوڑھے ہوچکے ہیں اس لئے ان کے جانشین کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے

بدھ مذہب کے سب سے بڑے مذہبی رہنما دلائی لامہ کی ۶؍ جولائی ۲۰۲۵ء کو ۹۰؍ واں سالگرہ تھی یعنی وہ بہت بوڑھے ہوچکے ہیں اس لئے ان کے جانشین کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے۔ بودھ روایت کے مطابق دلائی لامہ کا جانشین منتخب کیا جاتا ہے نہ نامزد، بلکہ پیدا ہوتا ہے۔ دلائی لامہ نے بھی واضح کر دیا ہے کہ دلائی لامہ تلاش کئے جانے کی پرانی روایت قائم رہے گی۔ یہ تلاش کون کرے گا؟ دلائی لامہ نے اس کا جواب بھی دیدیا ہے کہ گاڈن پھاڈرینگ ٹرسٹ یہ ذمہ داری نبھائے گا لیکن چونکہ چین نے ایسے قوانین بنائے ہیں جن کے مطابق سبھی لاما اسی کی خواہش کے مطابق منتخب کئے جائیں گے اور یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ نئے دلائی لامہ کے لئے اس کی منظوری ضروری ہے، اس لئے اندیشے پیدا ہوگئے ہیں۔ یہ اندیشے اس لئے بھی بڑھ رہے ہیں کہ موجودہ دلائی لامہ اپنی کتاب ’وائس فار دی وائس لیس‘ میں لکھ چکے ہیں کہ ان کا جانشین یا دوسرا دلائی لامہ چین سے باہر آزاد دنیا کا ہوگا۔ ایسا نہیں لگتا کہ چین دلائی لامہ کی روایت کو ختم کرنے کی راہ اپنائے گا مگر یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ دلائی لامہ کے انتقال کے بعد وہ ایسے من پسند اور چین کی قیادت کے لئے مشکلیں نہ کھڑی کرنے والوں کو اس دعوے کے ساتھ کھڑا کرے گا کہ وہ ’’دلائی لامہ‘‘ ہیں۔ ۲۰۱۶ء میں اس کے لئے اس نے ایک آن لائن سسٹم بھی تیار کر لیا تھا۔ ۲۰۰۳ء میں بھارت نے تبت پر چینی تسلط کو تسلیم کیا تھا، چین نے اس خطے میں اپنا اختیار اور عمل دخل بھی بڑھایا ہے، اس کا نام بدل کر Xizang رکھا ہے اور مذہبی امور میں بھی مداخلت کر رہا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ چودھویں دلائی لامہ سیاسی طور پر جلا وطن ہیں اور دھرم کے لبادہ میں چین مخالف سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔ ممکن ہے آئندہ دو دلائی لامہ منتخب کئے جائیں۔ ایک دلائی لامہ وہ ٹرسٹ منتخب کرے جس کی نشاندہی دلائی لامہ نے کی ہے اور دوسرا چین۔ بھارت نے واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی مذہب کے ماننے والوں کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔ یہ صحیح بھی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں نکالا جانا چاہئے کہ بھارت چین کو کھلی چھوٹ دینے اور اس کے ذریعہ بنائے گئے دلائی لامہ کو تسلیم کئے جانے کے حق میں ہے۔
 بھارت کی اپنی پالیسی اور سفارتی طریقۂ کار ہے۔ بھارت نے ہی دلائی لامہ اور ان کے لاکھوں ماننے والوں کو پناہ دی ہے۔ دھرم شالہ میں دلائی لامہ کی جلا وطن حکومت قائم ہے یہاں دلائی لامہ بلا روک ٹوک غیر ملکی سربراہوں، سفارتکاروں اور اپنے عقیدتمندوں سے ملتے، بات چیت کرتے اور مذہبی اجتماعات منعقد کرتے ہیں۔ یہاں وہ اور ان کے عقیدتمند ۱۹۵۹ء سے ہی پناہ لئے ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں دلائی لامہ اور ان کے ماننے والوں کا پناہ لینا انسانی بنیادوں پر ہے۔ بھارت تبت کو چین کا خود مختار علاقہ (Tibet Autonomous Region)  ۱۹۵۴ء سے ہی تسلیم کرتا ہے۔ اب جبکہ یہ اعلان ہوچکا ہے کہ دلائی لامہ کی روایت جاری رہے گی اور چین کا اس اعلان پر ردعمل بھی سامنے آچکا ہے تو دلائی لامہ کے ماننے والوں کا امید بھری نگاہوں سے بھارت کی طرف دیکھنا برحق ہے۔ تیبتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کا چین کے ساتھ سرحد کا تنازع سلجھانا اور تبت کی خود مختاری کی تائید کرنا اس کے حق میں ہے لیکن یہ کہنا کہ بھارت اس مشورے کو تسلیم کر لے گا بہت مشکل ہے کیونکہ بھارت چین سے اپنے تعلقات سدھارنے میں لگا ہوا ہے۔ ۶؍ سال بعد کیلاش یاترا شروع ہوئی ہے اور ڈائریکٹ یعنی براہ راست فلائٹ اور ریور ڈیٹا پر دونوں ملکوں میں بات ہو رہی ہے۔ بھارت نے واضح بھی کر دیا ہے کہ وہ کسی مذہبی روایت میں مداخلت نہیں کرے گا یعنی دلائی لامہ کے مرنے اور دوبارہ پیدا ہونے کی شکل میں ان کی ہی نشاندہی پر عمل ہوگا چاہے چین جو کرے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ۱۹۵۹ء میں چین کی حکومت نے دلائی لامہ کے خلاف سخت اقدامات کئے تھے جس کے بعد انہوں نے بھارت میں پناہ لی۔ چین اس دوران طاقتور بھی ہوا اس کے باوجود تبت کا مسئلہ زندہ ہے تو اس لئے کہ دلائی لامہ نے خود سپردگی نہیں کی ہے بلکہ وہ اپنے موقف پر اٹل ہیں۔ اب تو مرکزی وزیر کرن رجیجو نے بھی واضح کر دیا ہے کہ وہ اور ان کی حکومت دلائی لامہ کے ساتھ ہیں۔ ماضی کو دیکھیں تو تبت کی پہچان کو مٹانے کی چین نے ہر ممکن کوشش کی ہے اور اب وہ اسی مقصد سے ایسے شخص کو دلائی لامہ بنانا چاہتا ہے جو اس کی خواہشات کو پورا کرسکے۔ اسی مقصد سے وہ ایک طویل عرصے سے بھارت سے مطالبہ بھی کرتا رہا ہے کہ وہ دلائی لامہ کو اس کو سونپ دے لیکن بھارت اس کے دباؤ میں نہیں آیا تو اس لئے کہ وہ سمجھتا ہے کہ دلائی لامہ کی حیثیت صرف تبت کے لوگوں یا بودھوں کے لئے نہیں ان تمام خطوں کے لئے اہم ہے جہاں بودھ رہتے ہیں۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ دلائی لامہ نے اعلان کر دیا ہے کہ دلائی لامہ کی پیدائش تبت کے باہر بھی ہوسکتی ہے۔ چین سے باہر ہونے کی بات وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں۔
 بھارت کی سر زمین پر تبت اور چین کی لڑائی نصف صدی پرانی ہے اور دلائی لامہ کے تلاش کئے جانے کی روایت کم از کم آٹھ سو سال پرانی ہے۔ چین اور تبت کی لڑائی کے سبب آٹھ سو سالہ مذہبی روایت میں مداخلت کرنا مناسب نہیں ہے۔ یوں بھی مذہب اور حکومت نے جب آپس میں تلواریں کھینچی ہیں تو انسانیت اور بنی نوع انسان کا ہی نقصان ہوا ہے۔ چین نے دلائی لامہ منتخب کئے جانے میں روڑا اٹکا کر یا یہ شرط لگا کر کہ ہونے والا دلائی لامہ اس کا من پسند ہوگا کچھ اچھا نہیں کیا ہے لیکن چین کی اس برائی میں بھارت کے لئے اچھا موقع بھی ہے وہ عالمی برادری اور بودھ سماج سے پوچھ سکتا ہے کہ ایک مذہبی روایت میں مداخلت کرکے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے چین، جبکہ وہ خود کو کسی مذہب کا پابند بھی نہیں کہتا۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK