• Fri, 05 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا شیخ حسینہ کا بنگلہ دیش بھیجا جانا آسان ہے؟

Updated: December 04, 2025, 10:51 PM IST | Mumbai

یہ صحیح ہے کہ حسینہ کے خلاف بنگلہ دیش کے عوام نے جو کیا وہ ان کی انتقامی سیاست اور مسلسل بدعنوانی سے تنگ آکر کیا مگر کیا وہ تمام تفصیلات عدالت کے سامنے بھی لائی گئیں؟

Sheikh Hasina
شیخ حسینہ

یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ اگر شیخ حسینہ نے بنگلہ دیش چھوڑ کر بھارت میں پناہ نہ لے رکھی ہوتی تو انہیں قتل کیا جا چکا ہوتا۔ بنگلہ دیش اس کوشش میں اب بھی ہے۔ بھارت میں وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے تصدیق کی ہے کہ بنگلہ دیش حکومت سے ایک درخواست موصول ہوئی ہے کہ شیخ حسینہ کو اس کے حوالے کیا جائے اور اس درخواست پر آئندہ مناسب موقع پر فیصلہ کیا جائے گا۔ اس سے پہلے خبر آئی تھی کہ ڈھاکہ میں وکلاء کی پوری فوج اس تیاری میں ہے کہ اس کو موقع ملے اور وہ شیخ حسینہ یعنی بنگلہ بندھو کی بیٹی کی عدالت میں پیروی کریں۔ وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش حکومت اور اس کی طرف سے مقدمہ چلانے والوں کا موقف یہ ہے کہ ۲۰۲۴ء میں طلباء نے جو تحریک شروع کی تھی اس کو دبانے یا ختم کرنے کیلئے حسینہ کی سربراہی والی حکومت نے ہی آمرانہ حکام صادر کئے تھے جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی فوج، پولیس اور محافظ دستوں نے بے تحاشا طاقت کا استعمال کرکے غیر مسلح طلباء کو نشانہ بنایا تھا۔ ان کے ملک چھوڑ کر بھارت میں پناہ گزیں ہوجانے کے بعد پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اس سزا کے بعد یہ سوال پوچھا جانے لگا کہ پھانسی کی سزا ثبوتوں کی بنیاد پر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے سنائی گئی ہے یا اس سزا کی اسکرپٹ ایک سازش کے تحت کہیں اور لکھی گئی ہے۔
 شیخ حسینہ میرے لئے کوئی مثالی شخصیت کبھی نہیں رہیں مگر ان کی سنائی جانے والی سزا سن کر کئی سوالات ضرور ذہن میں پیدا ہوئے۔ پہلا یہ کہ کیا یونس حکومت یعنی غیر منتخبہ حکومت ایک منتخبہ حکومت (حسینہ حکومت) کی سابق وزیراعظم کو پھانسی کی سزا سنانے کا اخلاقی حق رکھتی ہے؟ کیا ان لوگوں کے معاملات کو بھی سامنے رکھا گیا جن کے قتل حسینہ کے مستعفی ہونے یا ملک چھوڑنے کے بعد ہوئے تھے؟ اسی طرح کیا بنگلہ دیش رائفلز کی بغاوت میں حسینہ کا ہاتھ ہونے کے تحقیقاتی کمیشن کے انکشاف کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے اور پھر یہ سوال بھی ہے کہ حسینہ کے دور حکومت میں فوجی اختیارات پر اجارہ رکھنے والے افسر پر کیا کوئی مقدمہ چلایا گیا؟ یہ سوالات اس لئے پیدا ہوئے کہ شیخ حسینہ کے ملک چھوڑنے یا مستعفی ہونے کے بعد کے تشدد پر غور نہیں کیا گیا۔ ان کو پھانسی کی سزا دے دی گئی اور وہ بھی صرف ۲۰؍ افراد کی شہادت لے کر۔ حسینہ یعنی سابق وزیراعظم کو بھی اپنی صفائی دینے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ شیخ حسینہ اور ان کی عوامی لیگ کو ختم کرنے کی ایک سازش رچی گئی اور عدالت نے وہی فیصلہ سنایا جو اس کو سنانے کے لئے کہا گیا یا جو پہلے ہی سے لکھا ہوا رکھا تھا۔
 شیخ حسینہ نے فیصلہ سنائے جانے کے پہلے ہی کہہ بھی دیا تھا کہ ’’یہ ایک کنگارو عدالت کا فیصلہ ہوگا جس کو ہمارے سیاسی مخالفین کنٹرول کر رہے ہیں۔‘‘ یہاں یہ یاددہانی ضروری ہے کہ ۱۴؍ اگست ۲۰۲۵ء کو ان کیخلاف مقدمہ شروع ہوا اور ۱۷؍ نومبر ۲۰۲۵ء کو پھانسی دینے کا فیصلہ سنا دیا گیا۔ شہادت دینے والوں میں ۸۴؍ نام تھے مگر شہادت صرف ۵۴؍ لوگوں نے دی۔ شیخ حسینہ کا بیان لیا گیا نہ لیا جاسکتا تھا کیونکہ وہ تو بھارت میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ایک مہینے تک چیف جج بھی غائب رہے۔ غائبانہ مقدمہ چلایا تو جاتا ہے مگر ’نیچرل جسٹس‘ کا مقصد اس سے پورا نہیں ہوتا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب جماعت اسلامی کے قائدین کو پھانسی دی جا رہی تھی تو ان کا بھی نہیں سنا گیا تھا مگر زیادہ تر لوگوں کی سوچ یہی ہے کہ جب حسینہ فرار یا مستعفی ہوگئیں تو تحریک ختم ہوجانا چاہئے تھی جو نہیں ہوئی۔ صرف ۲۰؍ دن میں پھانسی کی سزا سنایا جانا معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پردے کے پیچھے ضرور کچھ ایسا چل رہا تھا جس سے دنیا لاعلم تھی۔ شیخ حسینہ کا یہ کہنا درست ہے کہ ان کو اپنا موقف بیان کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ یہ صحیح ہے مگر یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ اگر موقع دیا جاتا تو وہ کیا کرتیں؟ کیونکہ بھارت میں رہ کر وہ بیانِ صفائی تو دے نہیں سکتی تھیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ شیخ حسینہ کو پھانسی کی سزا سنائی تو گئی ہے مگر اس سزا اور سزا سنانے والی عدالت کے طریقہ کار کے بارے میں کئی سوالات ہیں۔
 ان سوالات کے علاوہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا بنگلہ دیش کی حکومت کی یہ خواہش پوری ہوگی کہ حسینہ اس کی تحویل میں دی جائیں؟ ۲۰۱۳ء میں بھارت اور بنگلہ دیش حکومت میں ایک معاہدہ ہوا تھا جس کی رو سے وہ شیخ حسینہ کو اپنی تحویل میں لینے کا مطالبہ کرسکتا ہے مگر اس مطالبے کیلئے صرف یک سطری خط لکھ دینا کافی نہیں بلکہ تمام قانونی دستاویزات کا منسلک کیا جانا ضروری ہے۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ شیخ حسینہ کے خلاف کس قسم کا مقدمہ چلایا گیا ہے؟ اور بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائیگی۔ یہ بھی ذہن میں رکھا جائیگا کہ ۱۷؍ اور ۱۸؍ نومبر ۲۰۲۵ء کے بنگلہ دیش کے کسی اخبار کے اداریے یا مضمون میں اس فیصلے کو انتقامی کارروائی یا غلط نہیں کہا گیا ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں ہونا ضروری ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان ہوئے معاہدے میں دفعہ ۳۱؍ بھی ہے جو سیاسی معاملات میں کسی کو سپرد یا حوالے کئے جانے سے روکتی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ حسینہ کے خلاف بنگلہ دیش کے عوام نے جو کیا وہ ان کی انتقامی سیاست اور مسلسل بدعنوانی سے تنگ آکر کیا مگر کیا وہ تمام تفصیلات عدالت کے سامنے بھی لائی گئیں؟ اگر یہ صحیح ہے کہ شیخ حسینہ اور ان کے ساتھیوں کو بدعنوانی کے معاملے میں بھی سزا سنائی گئی ہے تو کیا یہ سزا منصفانہ عدالتی کارروائی کے بعد سنائی گئی ہے۔ ان سوالوں کے جواب میں ایسا نہیں لگتا کہ شیخ حسینہ کا بنگلہ دیش بھیجا جانا آسان ہے۔
 سنا جا رہا ہے کہ فروری ۲۰۲۷ء میں بنگلہ دیش میں عام انتخابات ہیں۔ ظاہر ہے اس میں طلبہ کی وہ جماعت بھی حصہ لے گی جو جماعت اسلامی کے زیر اثر ہے اور جس نے حسینہ کو فرار ہونے پر مجبور کیا تھا مگر اس کی حیثیت نئی جماعت کی ہے۔ حسینہ بھارت میں ہیں اور بی این پی کی قاعد خالدہ ضیاء جو ۱۹۹۱ء تا ۱۹۹۴ء اور ۲۰۰۱ء تا ۲۰۰۶ء برسراقتدار رہ چکی ہیں سخت علیل ہیں ایسے میں کیا نتائج برآمد ہوں گے یا خالدہ ضیاء کی پارٹی کے برسر اقتدار آنے کی صورت میں اقتدار کا چہرہ کس کو بنایا جائے گا یہ کہنا مشکل ہے۔ ان حالات میں یہ سوال ہی ضمنی ہوجاتا ہے کہ بنگلہ دیش شیخ حسینہ کو اپنے ملک میں لے جا کر کیا کرے گا؟ اصل سوال یہ ہے کہ بنگلہ دیش کو امن و ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی کیا صورتیں ہیں اور بھارت جو بنگلہ دیش کا خالق بھی ہے بنگلہ دیش کو ترقی یافتہ ملک بنانے میں کیا کرسکتا ہے۔ خالدہ ضیاء کو بھارت سے مل کر کام کرنے کا تجربہ تھا مگر اب وہ شاید علالت کے سبب اس قابل نہ رہیں کہ بنگلہ دیش کی حکومت سنبھالیں۔ جماعت سے متاثر لوگوں کی پارٹی شاید ہی اقتدار کے زینے تک پہنچ سکے۔ کسی کے خلاف ہنگامہ کرنا ایک بات ہے اور کسی کو ووٹ دے کر اقتدار سونپنا دوسری بات۔ بنگلہ دیش کے عوام نے جو کیا ہے اس کا انجام اس ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK