Inquilab Logo

کیا ہمارا ملک اِن دنوں گاندھی فراموشی کے دور سے گزر رہا ہے؟

Updated: February 07, 2023, 3:45 PM IST | jamal rizvi | Mumbai

گزشتہ کچھ برسوں سے فسطائی عناصر کے ذریعہ مسلسل اس طرح کی کوششیں ہو رہی ہیں کہ ملک میں رائج تاریخ سے متعلق نصابی کتابوں میں جو ابواب اور صفحات گاندھی جی سے مخصوص ہیں انھیں اس قدر مسخ کر دیا جائے کہ ان صفحات کو دیکھنے والا یہ انداز ہ ہی نہ لگا سکے کہ ملک کی جد و جہد آزادی میں گاندھی جی کی شراکت کی اہمیت کیا تھی ؟

photo;INN
تصویر :آئی این این

ملک کے ۷۴؍ ویں یوم جمہوریہ کے تین دن بعد مہاتما گاندھی کی ۷۵؍ ویں برسی کا دن جس خاموشی کے ساتھ گزر گیا، اس سے سیکولر افکار کے حامل اذہان میں یہ سوال فطری طور پر پیدا ہوتا ہے کہ کیا آزادی کے حصول میں گاندھی جی کی خدمات کو فراموش کرنے کی مہم اب اپنا رنگ دکھا رہی ہے؟ اگر چہ۳۰؍ جنوری کے دن بعض قد آور سیاسی شخصیات نے ان کی یادگار پر ماتھا ٹیکا اور ان کے مجسمے کی گل پوشی بھی کی لیکن گاندھی جی کے افکار و نظریات سے بے اعتنائی کا رویہ تقریباً ہر سطح پر صاف دکھائی دیا۔یہ معاملہ اب صرف بے اعتنائی تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ گاندھی جی کی شخصیت کو جس رنگ میں رنگنے کی کوشش ہو رہی ہے، اس کا مقصد یہ تاثر پیدا کرنا ہے کہ جیسے انھوں نے اس ملک کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ نہیں کیا ۔ ان کے پاس ملک کی عظمت اور وقار کی بحالی کیلئے کوئی ایسا ویژن بھی نہیں تھا جو طویل مدت کیلئے ملک کی ترقی اور خوشحالی کی راہ ہموار کر سکے۔اس کے ساتھ ہی کچھ اس طرح کا تاثر بھی پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ انھوں نے ہمیشہ اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی جا و بے جا دل جوئی کی جو بالآخر ملک کی تقسیم جیسے ناخوشگوار واقعے کی صورت میں ظاہر ہوئی۔تاریخ و سیاسیات کے بعض خود ساختہ ماہرین تو یہ تک کہنے سے گریز نہیں کرتے کہ ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے جو آزادی حاصل ہوئی ہے وہ دراصل اس وقت کے حالات کا فطری نتیجہ ہے ورنہ گاندھی جی کے پاس ایسی کوئی موثر حکمت عملی نہیں تھی جو اس مقصد کے حصول میں بہت زیادہ کارآمد ثابت ہوتی۔
 مہاتما گاندھی کے سیاسی نظریات سے اختلاف کی گنجائش کو یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اوراس تاریخی صداقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ملک کی آزادی میں جتنا فعال اور موثر کردار گاندھی جی نے ادا کیا اتنا ہی فعال اور موثر کردار ان دیگر مجاہدین آزادی اور سیاست دانوں نے بھی ادا کیا جن کی جد و جہد کی بدولت ہندوستانی آج آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ یہ بھی مد نظر رہے کہ اس وقت عالمی سطح پر ایک بڑی جمہوریت کے طور پر ملک کی جو شناخت ہے اور زندگی کے متعدد شعبوں میں ہندوستانیوں کی جو قدر و منزلت ہے، اس میں بھی ان شخصیات کی خدمات شامل ہیں جنھوں نے اس ملک کو ایک آزاد اور سیکولر جمہوری ملک بنانے میں دن رات محنت کی۔ان شخصیات کے درمیان جن چند ایک کو ممتاز حیثیت حاصل ہے ان میں گاندھی جی کا نام سب سے نمایاں ہے ۔لیکن ادھر گزشتہ کچھ برسوں سے فسطائی عناصر کے ذریعہ مسلسل یہ کوشش ہو رہی ہے کہ ملک کی کتاب تاریخ میں جو ابواب اور صفحات گاندھی جی سے مخصوص ہیں انھیں اس قدر مسخ کر دیا جائے کہ ان صفحات کو دیکھنے والا یہ انداز ہ ہی نہ لگا سکے کہ ملک کی جد و جہد آزادی میں گاندھی جی کی شراکت کی اہمیت کیا تھی ؟
 یہ کوشش ان ذرائع کے توسط سے خاص طور سے کی جارہی ہے جن ذرائع کے بارے میں عام تصور یہ ہے کہ ان کا بنیادی کام عوام کو اپنے اور اپنے ملک و معاشرہ کے حالات و معاملات سے وہ آگہی عطا کرنا ہے جو ماضی اور حال کے اس ربط کو اجاگر کر سکے جو ربط ملک و معاشرہ کی تاریخ و تہذیب کے نقش ہائے رنگ رنگ سے عبارت ہےلیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ عوام کو بیدار اور حساس بنانے والے یہ ذرائع اقتدار پرستی کی انتہائی مثال بن گئے ہیں، اسی لئے تاریخ و تہذیب کے جن خود ساختہ حقائق کی تشہیر ان کے ذریعہ ہو رہی ہے، اس تشہیر نے عوام کے درمیان میں بڑی غلط فہمیاں پیدا کر دہی ہیں۔ ان غلط فہمیوں میں ایک بڑی غلط فہمی گاندھی جی کی شخصیت کے متعلق ان خیالات پر مبنی ہے جن کا ملک کی حقیقی سیاسی تاریخ سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔اس غلط فہمی کو خاص طور سے نوجوان نسل کے درمیان پھیلایا جا رہا ہے اورالمیہ یہ ہے کہ مطالعہ کو تضیع اوقات سمجھنے والی یہ نسل بہت آسانی سے اس غلط فہمی کا شکار بن رہی ہے۔اس نسل نے گاندھی جی کو اتنے سوالوں کی زد پر لا دیا ہے کہ اکثر یہ گمان گزرتا ہے کہ یہ نسل اپنی ذہانت اور توانائی کی خاصی مقدار اس کام پر صرف کر رہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک سچائی یہ ہے کہ گاندھی جی کے بارے میں یہ سوالات بیشتر ایسے غیر منطقی اور لایعنی ہوتے ہیں جن کا اس ملک کی تاریخ اور تہذیب و معاشرت سے کوئی ربط ہی نہیں قائم ہوتا۔
 مہاتما گاندھی کی مسخ شدہ امیج کو عام کرنے کیلئے جس نسل کو ٹارگیٹ کیا گیا ہے، وہ نسل اپنا بیشتر وقت ان کاموں میں خرچ کرتی ہے جس سے ذہانت اور صلاحیت میں تنوع اور کشادگی پیدا ہونے کے بجائے یک رُخہ پن اور محدودیت پیدا ہوتی ہے۔ الیکٹرانک آلات سے اس نسل کی فریفتگی آج کے عہد کی ایسی سچائی ہے جس کے ساتھ کئی حیران کن ، افسوس ناک اور مسرت بخش حقائق وابستہ ہیں۔
  ان حقائق نے ذہنی سطح پر انسانی معاشرہ میں ایسا خلفشار برپا کر دیا ہے کہ انسان کی نجی اور اجتماعی زندگی کے بیشتر معاملات میں انتشار کی کیفیت کا مشاہدہ بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔ اس انتشار آمیز کیفیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فسطائی عناصر نے ملک کی تاریخ کو ایسے سانچے میں ڈھالنے کی مہم چلا رکھی ہے جو اس ملک کو ایک مخصوص مذہبی شناخت عطا کرنے کی ان کی خواہش کو جائز ثابت کر سکے۔اس مہم کی زد میں جو لوگ بھی آتے ہیں وہ بیشتر اپنی تاریخ کو اسی زاویئے سے دیکھنے لگتے ہیں جو زاویئے فسطائی عناصر کی خود ساختہ تعبیرات کو صحیح ثابت کرتے ہیں۔ ایسے ماحول میں بہ آسانی کسی قدآور شخصیت کو اس سطح پر لایا جا سکتا ہے جو تمام امتیازات اور عظمتوں کو بہ آسانی زائل کر دے۔
 اس وقت ملک میں فسطائی عناصر کے ذریعہ گاندھی جی کے سلسلے میں جو مہم چلائی جارہی ہے اس کا خاص مقصد یہی ہے کہ ان کی شخصیت کے ان تمام حوالوں کو منہا کردیا جائے جو انھیں ہندوستان کی تاریخ کا عظیم  لیڈر بناتے ہیں۔اس مہم کا اثر بھی کسی حد تک معاشرےپر ظاہر ہونے لگا ہے۔ اس کا بہت نمایاں ثبوت یہ ہے کہ گاندھی جی کی برسی کے دن میڈیا اور سوشل میڈیا نے ایک تو گاندھی جی کے متعلق انتہائی سرد مہری والا رویہ ظاہر کیا اور اس پر مستزاد یہ کہ بعض میڈیا اداروں نے گاندھی جی کو گولی مارنے والے گوڈسے کی قصیدہ خوانی سے بھی گریز نہیں کیا۔ ملک کا سیاسی منظرنامہ تبدیل ہونے کے بعدسیاسی تاریخ سے وابستہ معاملات میں جن غلط فہمیوں کو پیدا کرنے کی کوشش مسلسل جاری ہے اس میں گاندھی جی کو خاص طور پر ٹارگیٹ کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ اس وقت ملک کی جن پالیسیوں سے گاندھی جی کو منسوب کیا گیا ہے یا جن سماجی اور معاشی منصوبوں سے ان کے فکری ربط کو ظاہر کرنے کی کوشش ہورہی ہے وہ بھی دراصل ان کی شخصیت کے ان نقوش کو اذہان سے محو کرنے کی ایک حکمت عملی ہے جن نقوش نے ہندوستانی سماج کو موقر اور خوشحال بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
 نوجوان نسل کی اپنی تاریخ اور تہذیب سے بیگانگی بلکہ ناواقفیت معاصر سماج کا ایک نازک اور پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے۔اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر فسطائی افکار کے حامل عناصر عمومی سطح پر ایسا ماحول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں گاندھی کے مد مقابل ان شخصیات کو بہ آسانی ایستادہ کیا جا سکے جنھوں نے اپنی پوری زندگی اس ملک کو مخصوص مذہبی شناخت عطا کرنے کی تدابیر میں گزار دی۔ ملک کی نوجوان نسل کسی حد تک اس کوشش کے دام میں الجھ بھی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ دیگر شخصیات کے یوم پیدائش اور یوم وفات پر تواتر کے ساتھ پیغامات کی ترسیل اور تشہیر کرنے والی یہ مشینی نسل ۳۰؍ جنوری کے دن بڑی حد تک ساکت و جامد ہی رہی ۔
 گاندھی جی نے جن حالات میں ملک کیلئے اپنے ایثار کا مظاہرہ کیا اور سخت کوشی کے جن مراحل سے گزرتے ہوئے آزادی کے حصول کی راہ ہموار کی وہ کچھ آسان نہ تھا۔ یہ ضرور ہے کہ انھوں نے اس ملک کی صدیوں پرانی مشترکہ تہذیب و معاشرت کی روایت کو ہر قدم پر ملحوظ رکھا اور ہر سطح پر یہ کوشش کی کہ اس روایت کو برقرار رکھاجائے۔ا س کوشش کے بعض مراحل پر ان سے کچھ کوتاہیاں بھی ہوئیں لیکن اس کا یہ مطلب تو قطعی نہیں کہ ملک کی آزادی کے حصول میں ان کی خدمات کو یکسر فراموش کر دیا جائے ۔ اور نہ صرف یہ کہ فراموش کردیا جائے بلکہ انھیں گولی مارنے والے کے حق میں ماحول سازی کی جائے اور اس قاتل کے مذموم عمل کو حق بہ جانب ثابت کیا جائے۔اس طرز کی کوششیں بہر صورت ملک کے وقار کیلئے نقصان دہ ثابت ہوں گی ، بھلے ہی یہ نقصان ابھی نظر نہ آرہا ہو لیکن مستقبل میں یہ ملک اور معاشرہ کیلئے کئی سطح پر مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK