Inquilab Logo

کیاامریکہ میں خانہ جنگی کا خطرہ ہے؟

Updated: January 19, 2022, 4:26 PM IST | Pravez Hafeez | Mumbai

باربرا والٹر کو اس بات پر حیرت ہے کہ لوگوں کو کیپٹل ہل پر ہوئے حملوں پر حیرت ہوئی۔ والٹر کا دعویٰ ہے کہ ۲۰۱۶ء میں ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے وقت سے جمہوریت تیزی سے زوال پذیر ہے اور ملک میں طوائف الملوکی کا خطرہ بڑھا ہے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر ڈونالڈ ٹرمپ کے حامیوں کے ذریعہ پر تشدد حملوں کا ایک سال مکمل ہوا۔اس موقع پرسیاسی قائدین، ماہرین سیاسیات اور تجزیہ نگاروں نے برملا اس خدشے کا اظہار کیا کہ ملک تباہ کن خانہ جنگی اور بغاوت کی جانب گامزن ہے۔  ۲۰۲۰ء میں بائیڈن سے شکست کھانے کے بعد ٹرمپ نے الیکشن کی چوری کا الزام لگاکر نتیجے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ ان کے اڑیل رویے سے آئینی بحران پیدا ہوگیااور ان کے رجعت پسند، الٹرا دائیں بازو کے سفید فام نسل پرست حامیوں نے ان کا راج سنگھاسن بچانے کے لئے ریاست سے بغاوت کردی۔پچھلے سال ۶؍جنوری کے دن جس وقت سینیٹ اور ایوان نمائندگان کے مشترکہ اجلاس میں جو بائیڈن کی صدارت کی رسمی توثیق کی جارہی تھی، ٹرمپ کے اشارے پر ان کے ہزاروں مسلح حامیوں نے امریکی پارلیمنٹ پر چڑھائی کردی اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیا۔اس دن امریکہ میں خود رخصت پذیر صدر کے ساتھیوں کے ہاتھوں آئین اور جمہوریت کا خون کیا گیا۔ دانشوروں کا خیال ہے کہ امریکہ جمہوری ملک نہیں رہا۔ اس سیاہ دن کی پہلی برسی پرتمام اہم اخبارات مثلاً نیو یارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، دی نیو یارکر اوردی اٹلانٹک میں امریکہ میں ممکنہ خانہ جنگی اور بغاوت پر تجزیے شائع ہوئے ہیں جن کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ میں قومی سلامتی کو خود اپنے شہریوں سے خطرہ ہے۔ صرف میڈیا نے ہی خانہ جنگی کی وارننگ نہیں دی ہے۔ اس موضوع پر کئی عالمانہ تصنیفات بھی منظر عام پر آئی ہیں جن میں اسٹیفین مارش کی      The Next Civil Warاور باربرا ایف والٹر کی How Civil Wars Start اہمیت کی حامل ہیں۔مارش کا دعویٰ ہے کہ امریکہ میں اس وقت وہ تمام عناصر موجود ہیں جو اس ملک میں نظر آتے ہیں جو خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہاہے۔ ایک سروے سے پتہ چلا ہے کہ صرف ۲۰؍فیصد امریکی شہری انتخابی نظام میں یقین رکھتے ہیں اور ۳۳؍ فیصد کا ماننا ہے کہ حکومت کے خلاف تشدد جائز ہے۔مارش ان اعدادو شمار کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ جس معاشرہ میں تشدد اس قدرعام ہوجائے وہاں جمہوریت کے زوال میں کوئی شبہ نہیں رہ جاتا ہے۔ باربرا والٹر کو اس بات پر حیرت ہے کہ لوگوں کو کیپٹل ہل پر ہوئے حملوں پر حیرت ہوئی۔ والٹر کا دعویٰ ہے کہ ۲۰۱۶ء میں ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے وقت سے جمہوریت تیزی سے زوال پذیر ہے اور ملک میں طوائف الملوکی کا خطرہ بڑھا ہے۔ مصنفہ کے مطابق امریکہ اب قدیم ترین جمہوریت کا منصب کھو چکا ہے اور اس کی حالت صومالیہ جیسی ہے۔سیاسی رقابت اور رسہ کشی نے امریکی سیاست میں نفرت اور برہمی کا اتنا زہر گھول دیاہے کہ وہاں ہر وقت تشدد اور تخریب کا خطرہ لگا رہتا ہے۔ڈیموکریٹ پارٹی کے حامی بنیادی طور پر جمہوریت پسند، لبرل، سماجی اور نسلی مساوات کے طرفدار اور اقلیتوں اور تارکین وطن کے ہمدرد سمجھے جاتے ہیں۔ ریپبلیکن پارٹی کے حامی قدامت پرست، تنگ نظر، نسل پرست اور اقلیتوں اور تارکین وطن کے مخالف سمجھے جاتے ہیں جنہیں آئین اور جمہوریت کی زیادہ قدر نہیں ہے۔ ریپبلیکن پارٹی جسے گریٹ اولڈ پارٹی (GOP) کہاجاتا ہے اقتدار کی حصولیابی کیلئےانتہاپسندوں اور تخریب کاروں کی مدد لینے سے بھی گریز نہیں کرتی ہے۔ مارش کے مطابق حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومت کے ذریعہ کسی شہر کے پل کو بند کرنے کے معمولی فیصلے پر بھی بغاوت کی آگ بھڑک سکتی ہے اور شہر کا شریف اور ملک کا آرمی جنرل ایک دوسرے پر بندوقیں تان سکتے ہیں۔ کسی صدر کا قتل، نیو یارک سٹی میں قدرتی آفت کی آمد یا کیپٹل ہل پر ڈرون کا حملہ، ان میں سے کوئی بھی واقعہ ممکنہ خانہ جنگی بھڑکا سکتا ہے۔ باربرا والٹر کو تو خدشہ ہے کہ ۲۰۲۸ء کے صدارتی انتخابات کے بعد کیپٹل ہل پر اور مختلف ریاستوں میں بمباریاں کی جائیں گی، دہشت گردانہ حملے ہوں گے اور بات نسل کشی تک جا پہنچے گی۔ ڈیوڈ فرنچ نے اپنی کتاب Divided We Fall میں پیشن گوئی کی ہے کہ امریکہ کے اندرونی تضادات اور اختلافات اس قدر قیامت خیز ثابت ہوسکتے ہیں کہ ایک دن کیلی فورنیا گن کنٹرول یا  ٹیکساس اسقاط حمل کے قوانین کے تنازعوں پر امریکہ سے الگ ہو سکتا ہے۔  امریکہ ۱۸۶۰ء میں ہولناک خانہ جنگی اورپر تشدد بغاوت کا عذاب جھیل چکا ہے۔چار برسوں تک چلے اس خونیں سلسلے میں چھ لاکھ لوگ مارے گئے تھے۔ اکیسویں صدی میں یہ بات ناقابل یقین لگتی ہے کہ سپر پاور میں خانہ جنگی ہوسکتی ہے۔ تاہم ۶؍ جنوری کو مسلح ہجوم نے جس آسانی سے امریکی جمہوریت کی علامت پر قبضہ کرلیا تھا اس سے یہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ خانہ جنگی یا بغاوت کا خطرہ تصوراتی نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق جن اسباب سے خانہ جنگی بھڑک سکتی ہیں ان میں نسلی عدم مساوات، انتخابات،گن کنٹرول،اسقاط حمل، موسمیاتی تبدیلی،عالمی وبا، ویکسین اور ماسک پر اختلافات بھی شامل ہیں۔اجتماعی تشدد کے خطرے کا ایک سبب امریکہ میں پرائیوٹ ملیشیا(فوجی گروہوں) اور آتشیں اسلحوں کی غیر معمولی تعداد بھی ہے۔ امریکہ کی آبادی ۳۳۵؍ ملین ہے اور اسلحوں کی تعداد ۴۳۴؍ ملین۔ یعنی اوسطاً ہر امریکی کے پاس ایک سے زیادہ اسلحہ موجود ہے۔امریکہ میں سیاسی تشدد، نسلی فساداور انتہا پسند انہ جرائم ماضی میں بھی ہوئے ہیں لیکن ۲۰۱۶ء میں ٹرمپ کے وہائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے کے بعد انہیں سیاسی اور سرکاری سرپرستی حاصل ہوگئی۔ ٹرمپ نے سفید فام نسل پرستوں کو یہ باور کراکے کہ وہ اقلیت میں رہ جائیں گے انہیں مہاجرین، مسلمانوں، دیگر اقلیتوں اور سیاسی حریفوں کے خلاف تشددکیلئے بھڑکایا۔ ٹرمپ نے آئینی اداروں اور جمہوری اقدار کو پامال کیا اور ریپبلیکن پارٹی نے ان قومی اقدار کی دفاع کرنے کے بجائے خاموشی سے ایک جابر تانا شاہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے۔
 پچھلے چند ماہ میں ہوئے متعدد قومی سروے اور اوپینین پول نے بھی ملک میں خانہ جنگی، بغاوت،بٹوارے اور انارکی کے خطروں کی پیشن گوئی کی ہے۔ایک سروے میں ۴۶؍فیصد امریکیوں کو خانہ جنگی کا خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ دوسرے سروے میں ۵۲؍ فیصد ٹرمپ ووٹرز اور ۴۱؍ فیصد بائیڈن ووٹرز نے ملک کے بٹوارے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ اور یونیورسٹی آف میری لینڈ کے ایک مشترکہ سروے میں ایک تہائی امریکیوں نے حکومت کے خلاف تشدد کو جائز قرار دیا ہے۔ اسی سروے میں ۶۰؍فیصد لوگوں نے ۶؍ جنوری کی ناکام بغاوت کیلئے ٹرمپ کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ ایوان نمائندگان نے ہجوم کوتشدد کیلئے اکسانے پر ٹرمپ کا مواخذہ بھی کیا تھا لیکن سینیٹ نے ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ تشویش کی بات یہ ہے ایسی کالی کرتوتوں کے باوجود ریپبلیکن پارٹی میں ٹرمپ کے اثر و رسوخ میں کمی نہیں آئی ہے اوریہ قیاس آرائیاں بھی ہورہی ہیں کہ ۲۰۲۴ء میں پارٹی پھر ایک بار انہیں صدارتی امیدوار نامزد کرسکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK