Inquilab Logo

کیا اپنا جمہوری ملک جمہوریت سے دور ہورہا ہے؟

Updated: March 30, 2024, 11:10 AM IST | Andy Mukherjee | Mumbai

پہلے ہیمنت سورین گرفتار کئے گئے اور اب اروند کیجریوال قید و بند میں ہیں۔ عام انتخابات سے کچھ پہلے رونما ہونے والے ان واقعات کو گہری سیاسی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس پر ہر ہندوستانی شہری کو غوروخوض کرنا چاہئے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

تقریباً ہر انتخابی تجزیہ کار نے آئندہ انتخابات کو وزیر اعظم مودی کے حق میں ہی قراردیا ہے لیکن ایک سوال یہ بھی ہےکہ اگرمودی اوران کی حکومت مضبوط ہے اور تیسری میعاد کیلئے ان کا انتخاب یقینی ہےتو وہ اتنےبدحواس کیوں ہیں ؟ جمعرات کو دہلی میں ۲۰۲۱ء کے ایکسائز پالیسی گھوٹالہ کیس یعنی شراب کے کاروبار کا لائسنس دینے میں مبینہ رشوت خوری کے الزام میں ای ڈی نے اروند کیجریوال کوگرفتار کرلیا۔ عین انتخابات کے موقع پر کی گئی اس گرفتاری پر ملک بھر میں سوالات ا ٹھائے جارہے ہیں۔ ممتا بنرجی نے اس گرفتاری کو جمہوریت پر صریح حملہ قرار دیا ہے۔ کیجریوال کی عام آدمی پارٹی ’انڈیا اتحاد‘ کی اہم رکن ہے۔ بدعنوانی کے الزام میں فی الوقت اس پارٹی کےکئی سرکردہ لیڈرجیل میں ہیں۔ ۲۰۱۲ء میں قائم شدہ اس پارٹی کے بانیوں میں اروند کیجریوال کا نام اہم تھا جو کرپشن مخالف مہم کےافق پر نمودار ہوئے تھے لیکن اب کرپشن کے نام پر ہی ان کی گرفتاری ہوئی ہے جو ان کی پارٹی کیلئے یقیناً بڑا دھچکا ہے۔ 
 عام آدمی پارٹی (آپ) پنجاب میں بھی اقتدار میں ہے جہاں کسان فصلوں کی ایم ایس پی کی قانونی ضمانت کے معاملے پر حکومت سے جمہوری لڑائی لڑ رہے ہیں۔ دوسری جانب انڈیا اتحاد ہے جس کی کوئی واضح قیادت نہیں ہے اوراس کا کوئی مشترکہ پروگرام بھی سامنے نہیں آیا ہے۔ اس کے باوجود اس اتحاد کی پارٹیوں کو دھمکانے اور ان پر معاشی دباؤ ڈالنے کا راستہ اختیار کیاجارہا ہے۔ کانگریس کے بینک کھاتوں کو منجمد کرنا اسی کی ایک مثال ہے۔ مرکزی حکومت تفتیشی ایجنسیوں کے سیاسی استعمال کی تردید کررہی ہے اور کانگریس کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہےکہ وہ ان مالی بے ضابطگیوں سے خود کو علاحدہ رکھنے کی کوشش کررہی ہے۔ ادھر انکم ٹیکس کے تعلق سے حکومت کے اقدامات سے بھی کانگریس کے ان الزامات کو تقویت ملتی ہےکہ اسے منصفانہ مقابلہ کرنے سے روکا جارہا ہے۔ 
 وزیر اعظم مودی اور اُن پارٹی کے بظاہر گھبراہٹ میں مبتلا ہونے کی ۲؍ واضح وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ اقتدار پر بی جےپی کی گرفت اب اتنی مضبوط نہیں ہے جتنی کہ وہ ظاہر کرتی ہے۔ میں نے پہلے دلیل دی تھی کہ اکثریتی طبقے کو پولرائز کرنے کی اس کی مہم بہت پہلے عروج پر آچکی ہےاوراب اس کا وہ زور نہیں ہے۔ اگریہ مہم اس وقت عروج پر ہوتی تواس کا فائدہ بی جے پی کو مل سکتا تھا۔ دوسری وجہ سیاسی فنڈنگ (الیکٹورل بونڈ) کی حالیہ قانونی شکست ہے اور جسے سپریم کورٹ نے غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔ 
 ادھر چند برسوں میں صحافیوں، سماجی کارکنوں اور حکومت کے سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈال کرحکومت نے عدالتی نظام کو نظر اندازکیا ہے۔ حکومت کے مخالفین اور ناقدین مہینوں اور سالوں سے جیل میں ہیں۔ ان میں سے ا کثر وہ بھی ہیں جنہیں بغیر کسی مقدمہ کے جیل میں رکھا گیا ہے۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کے نائب منیش سیسودیا کو اسی شراب گھوٹالہ کیس میں گرفتار کیاگیا تھا جس میں کیجریوال کی گرفتاری ہوئی ہے۔ معدنیات سے مالا مال ریاست جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے۳۱؍ جنوری کو گرفتار ہونے سے عین قبل استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ زمین کے سودے کے سلسلے میں منی لانڈرنگ کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ چونکہ مقدمے کی کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے، اس لیے جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے اس لیڈر کو جو اپنی ریاست کی پسماندہ قبائلی برادریوں میں مقبول ہیں، گویا انتخابی مہم سے باہر کر دیا گیا ہے۔ 
 بہرحال یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کیا کیجریوال کو راحت مل سکتی ہے جنہیں ایسے وقت میں گرفت میں لیا گیا ہے جب پارٹیاں اپنے امیدواروں کی فہرست کو حتمی شکل دے رہی ہیں۔ 
 یہ پہلو باعث تشویش ہےکہ ہندوستان میں عدالتی عمل کبھی بھی انتظامی مداخلت سے بالاتر نہیں رہا۔ ۱۹۷۵ء میں جب وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ایمرجنسی نافذ کی تھی تب بھی سیاسی مخالفین کی نظربندی ایک بڑا مسئلہ بنی تھی۔ عملی طور پر پوری اعلیٰ عدلیہ نے ان کا ساتھ دیا تھا اور فیصلہ سنایا تھا کہ کسی بھی نظر بندی کے حکم کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا اور جب تک ایمرجنسی نافذ ہے، شہریوں کا زندگی اور آزادی کا حق معطل رہے گا۔ اس فیصلے سے اختلاف کرنے والے واحد جج کو چیف جسٹس کے عہدے پر فائزنہیں کیاگیا جبکہ وہ اس کے حقدار تھے۔ ایسا تب (۱۹۷۵ء میں ) تھا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ہر سرکاری ایجنسی کو اپوزیشن کے خلاف ہتھیار بنادیاگیا ہے۔ اپوزیشن لیڈروں کو ڈرایا دھمکایاجاتا ہے اورالیکٹورل بونڈ کے معاملے میں مختلف کارپوریٹ کمپنیوں کے ذریعے دئیے گئے عطیہ کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہےکہ چھاپے اورگرفتاریوں سے بھی بازی اپنے حق میں پلٹی جاسکتی ہے۔ راہل گاندھی نے الیکٹورل بونڈ کو دنیا کا سب سے بڑا ’وصولی ریکٹ ‘ قراردیا جبکہ بی جےپی کا دعویٰ ہے کہ اس کا مقصد شفاف فنڈنگ کے طریقے کو فروغ دینا ہے۔ 
 ۲۰۲۱ء میں سویڈن کے تحقیقی ادارہ وی ڈیم نامی انسٹی ٹیوٹ نے جمہوریت کے حوالے سے ہندوستان کی درجہ بندی میں کمی کی تھی۔ اس کا ازالہ کرنے کیلئے حکومت نے ایک مقامی تھنک ٹینک کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ خوداپنی جمہوری درجہ بندی جاری کرے، لیکن، اب کیجریوال کی گرفتاری نے ملک کی جمہوری ساکھ کو مسلسل پہنچنے والے نقصان کی رہی سہی کسر بھی پوری کردی جبکہ وزیر اعظم مودی اپنے کئی عوامی خطابات میں ہندوستان کو ’جمہوریت کی ماں ‘قرار دے چکے ہیں۔ مودی۱۲؍ سال تک گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے۔ فسادات میں ان کے رول کی تحقیقات کی گئی اور ۲؍ دہائی بعد انہیں بری کیا گیا۔ اس دوران امریکہ نے بھی کم وبیش۱۰؍ سال تک انہیں ملک میں داخلے کیلئے ویزا نہیں دیا تھالیکن یہاں ملک میں ایک ا لیکشن بھی ایسا نہیں رہاجس میں وہ مقابلے کیلئے نہیں اترے۔ کیجریوال کے ساتھ جو کیاگیا اور ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کےساتھ جو ہو رہا ہے، اس کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہیں کہ معیارِ سیاست جانچنے کیلئے انتخابی پیمانہ بھی کوئی پیمانہ نہیں رہ گیا ہے۔ الیکٹورل بونڈ کے تعلق سے عدالتی فیصلہ تھوڑا مزاحم ثابت ہوا ہے مگر یہ افسوسناک ہے کہ ملک جمہوریت سے کٹ جانےکے بہت قریب آ چکا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK