Inquilab Logo

اسلام نے حالات اور تقاضے کے مطابق کام کرنے کی ہدایت دی ہے

Updated: January 28, 2023, 11:18 AM IST | Mudassir Ahmad qasmi | MUMBAI

شریعت ِ مطہرہ نے حالات اور تقاضے کے مطابق کام کرنے کی جو ہدایات دی ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں حکمت، مصلحت اورسہولت کا جو نظریہ پیش کیا ہے، اس کو سامنے رکھ کر ہی ہم امور زندگی طے کریں اور انجام دیں۔اس طرح ہماری مثالی زندگی سے کامیابی و فتوحات کی راہیں کھلیں گی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

کام کوحالات، وقت اور تقاضا کے مطابق پسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور اس کے بہتر نتائج اور فائدے بھی سامنے آتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ موقع کی مناسبت اور نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے انجام دیئے گئے کاموں سے عوام الناس نہ صرف بڑے پیمانے پر مستفید ہوتے ہیں بلکہ اُن کی زندگیوں میں کافی آسانیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس کی وجہ سے دینِ فطرت اسلام میں انسانی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حالت، وقت اور تقاضا کے مطابق احکامات جاری کئے گئےے ہیں۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اصولی طور پر رمضان کے روزے ہر عاقل بالغ پر فر ض ہیں لیکن اسی کے ساتھ حالت اور ضرورت کے مطابق بیمار وں اور مسافروں کے لئے اس میں رخصت ہے کہ جو روزے اِن علتوں کی بنیاد پر چھوٹ جائیں ان کو بعد میں رکھ لیں۔غور کریں کہ اگر بہر صورت رمضان کے روزوں کو لازم قرار دیا جاتا تو بیمار اور مسافر مشکل میں پڑ جاتے لیکن یہ اسلام کی خوبصورتی اور امتیاز ہے جس میں  حالات کے مطابق احکامات کا ایک وسیع تر نظام ہے۔
 مذکورہ تمہید کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں یہ تجزیہ کرنا ہے کہ کیا ہم اپنی زندگی میں تمام امور وقت اور تقاضے کے مطابق انجام دے رہے ہیں؟ حقیقت حال یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ اپنے کاموں ، واجبات  اور پیش آمدہ تقاضوں کو کل پر ٹالتے رہتے ہیں۔ عام زندگی میں اس طرز عمل کا پہلا اور بڑا نقصان تو یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کے لوگ زندگی کی مثبت دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور ہمیشہ حالات کو کوستے رہتے ہیں۔ جہاں تک دینی امور کی بات ہے تو اس میں ٹال مٹول کرنے والے اور تقاضے سے صرف نظر کرنے والے اس حقیقت کو ذہن سے محو کر دیتے ہیں کہ موت کبھی بھی آسکتی ہے اور جس وقت کا وہ انتظار کر رہے ہیں وہ وقت آئے ہی نہیں۔
 وقت اور تقاضے کے مطابق کام کرنے کی اہمیت کا علم ہمیں اسلام کے ایک بنیادی رکن کے احکامات پر غور کرنے سے بخوبی ہو جاتا ہے۔  چنانچہ اگر ہم صرف نماز کے باب کا ہی مطالعہ کریں تو نماز کو حالات اور تقاضے کے مطابق مختصر اور طویل کرنے کے تعلق سے بے شمار روایتیں ہمیں احادیث کے ذخیرہ میں ملتی ہیں۔ سیدنا ابو ہريرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : ”اگر تم ميں سے کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے چاہئے کہ وہ اسے مختصر کرے کيونکہ ان ميں کوئی بيمار، ناتواں اور ضعیف بھی ہے، اور جب اکيلا اپنے لئے نماز ادا کرے تو جتنا چاہے اسے لمبا کرے۔“ (صحیح بخاری) اسی طرح ایک اور روایت میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کريم صلی اللہ عليہ و سلم نے ارشادفرمايا: ”ميں جب نماز ميں کھڑا ہوتا ہوں تو ميں اسے لمبا کرنا چاہتا ہوں ۔ پھر (کسی) بچے کا رونا سنتا ہوں تو ميں اس کی ماں پر مشقت کو نا پسند کرتے ہوئے اپنی نماز کو مختصر کر ديتا ہوں ۔“ (متفق علیہ)
 مذکورہ دونوں احادیث میں تقاضے کے مطابق نماز کو مختصر کرنے کی تعلیم ہے اور اس تعلیم پر ہر اس وقت عمل کیا جائے گا جب جب ضرورت پیش آئے گی۔اسی کے ساتھ ہمیں یہ یاد بھی رکھنا چاہئے کہ جب حالات ساز گار ہوں ،اُس وقت سنت کے مطابق نمازمیں قرأت ہونی چاہئے،بلا ضرورت امام صاحب کو مختصر نماز پڑھانے کے لئے آمادہ کرنا اور اُن پر دباؤ ڈالنا بھی با لکل مناسب نہیں ہے ۔ہمارے ذہن میں یہ بات ضرور رہے کہ جس طرح ہم دنیاوی کاموں کے لئے معقول وقت نکالتے ہیں اور اُس وقت تک اُس میں لگے رہتے ہیں جب تک کہ وہ صحیح ڈھنگ سے مکمل نہ ہوجائے ؛اسی طرح  ہمیں دینی کاموں کی انجام دہی کے لئے بھی معقول وقت نکالنا چاہئے اور خانہ پُری والے طرزِ عمل سے باہر آنا چاہئے ۔
 موضوع کی مناسبت سے یہاں ایک عوامی رجحان کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ کچھ لوگ حالات اور تقاضوں کو سمجھے بغیر امام حضرات اور مسجد کے منتظمین پر تنقید کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور بِلا ضرورت بھی کچھ نہ کچھ بول کر مسجد کے ماحول کو غیر سنجیدہ بنادیتے ہیں ؛اس سے صرف امام صاحب یا منتظمین کو ہی تکلیف نہیں ہوتی بلکہ مسجد میں عبادت میں مشغول افراد بھی ذہنی خلجان کے شکار ہوجاتے ہیں ۔اس تعلق سے معقول طرزِ عمل یہ ہوناچاہئے کہ اگر آپ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ مسجد میں انجام پانے والے کسی عمل یا کام میں تبدیلی کی ضرورت ہے تو ماحول کو ہنگامہ خیز بنانے کے بجائے ذمہ داروں سے بات کریں ۔ 
 خلاصہ یہ ہے کہ شریعتِ مطہرہ نے حالات اور تقاضے کے مطابق کام کرنے کی جو ہدایات دی ہیں اور زندگی کے ہر شعبے میں حکمت، مصلحت اورسہولت کا جو نظریہ پیش کیا ہے، اس کو سامنے رکھ کر ہی ہم امور زندگی طے کریں اور انجام دیں۔اس طرح ہماری مثالی زندگی سے کامیابی و فتوحات کی راہیں کھلیں گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK