Inquilab Logo

اسلام عصری علوم کا مخالف نہیں بلکہ علم کی تقسیم علم ِنافع اورعلم ِغیر نافع سے کی ہے

Updated: May 26, 2023, 10:37 AM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

جو علم انسان کو دینی یادنیوی اعتبار سے نفع پہنچائے اور اس کے مسائل کو حل کرے وہ علم نافع ہے اور جو علم انسانیت کیلئے ہلاکت اور مضرت کا سامان ہو وہ علم غیر نافع ہے۔ آپؐ علم نافع کیلئے دُعا فرماتے اور جو علم نافع نہ ہو اس سے پناہ چاہتے تھے

Islam has never been hostile to knowledge and research; On the contrary, people have been invited to consider and consider the hidden realities of the universe
اسلام نے کبھی علم و تحقیق سے عداوت نہیں رکھی ؛ بلکہ لوگوں کو کائنات کی مخفی حقیقتوں میں غور و فکر اور تدبر کی دعوت دی ہے

رسول اللہ ﷺ جب دنیا میں تشریف لائے تب یہ دنیا ہر طرح کی برائیوں کی آماجگاہ تھی، کوئی برائی ایسی نہ تھی جو عرب کے سماج میں نہ پائی جاتی ہو،  لوگوں کی جان محفوظ تھی نہ مال اور نہ عزت و آبرو، ظلم و جور کی کوئی حد نہ تھی اور سماج کے تمام فیصلے ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ کے اُصول پر ہوا کرتے تھے ، مذہبی پہلو سے دیکھئے تو بد ترین شرک عام تھا، جس میں عرب گرفتار تھے اور عرب سے لے کر چین تک پوری مشرقی دُنیا علانیہ شرک میں مبتلا تھی، سلطنت ِروم کا مذہب گو عیسائیت تھا ؛ لیکن یہاں بھی توحید کے پردہ میں شرک ہی کی حکمرانی تھی اور ایک خدا کے بجائے تین افراد پر مشتمل خدا کا کنبہ تشکیل پا چکا تھا۔ ان سب کی پرستش کی جاتی تھی۔  
ان حالات میں آپ ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ جب عمر مبارک چالیس سال ہوئی تو نبوت کا تاج گہربار سر مبارک پر رکھا گیا۔  بظاہر یہ خیال ہوتا ہے کہ ان حالات میں جو پہلی وحی نازل ہوتی، وہ اصلاحِ عقیدہ کے پہلو سے توحید کے اثبات اور شرک کے رد میں ہوتی،  یا انسانی نقطۂ نظر سے ایسی آیت ہوتی جس میں ظلم و جور سے منع کیا گیا ہو اور انسانی اُخوت وہمدردی اور محبت و مروت کی طرف دعوت دی گئی ہو، یا سماجی اصلاح سے متعلق کوئی آیت ہوتی، جس میں بے شرمی اور بے حیائی سے روکا گیا ہو ۔ 
لیکن، آپ ﷺ پر سب سے پہلے جو آیت نازل ہوئی، اس میں ان میں سے کسی بات کا تذکرہ نہیں؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا  : 
``اپنے رب کے نام سے پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا، اس نے انسان کو جمے ہوئے لہو سے پیدا کیا، پڑھئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا، جس نے انسان کو وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ جس نے آدمی کو وہ سارا علم عطا فرما دیا جو وہ پہلے نہ جانتا تھا۔‘‘ (العلق:۱؍تا۵)
یعنی سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے تعلیم اور پڑھنے کی طرف متوجہ فرمایا؛ اس لئے کہ علم کی مثال روشنی کی سی ہے۔ اگر کسی تاریک کمرہ میں سانپ بھی ہو، بچھو بھی اور دوسرے تکلیف دہ کیڑے مکوڑے بھی، آپ ان سب کو مارنے اور بھگانے کے لئے الگ الگ محنت کریں، تووقت بھی زیادہ لگے گا اور شاید کامیابی بھی نہ ہو؛ لیکن اگر آپ ایک چراغ جلا کر رکھ دیں، توخود بخود یہ کیڑے مکوڑے اپنا بسیرا اُٹھالیں گے کیوں کہ تاریکی ہی ان کی پناہ گاہ ہے۔ یہی کیفیت انسانی سماج میں علم کی ہے،  عقیدہ و عمل اور معاشرت و اخلاق کی تمام برائیاں جہالت کا نتیجہ ہیں، جہالت کی تاریکی ہی میں یہ تمام مفاسد پرورش پاتے ہیں، تعلیم کی روشنی جتنی پھیلے گی، یہ بگاڑ بھی خود بہ خود دُور ہوتا جائے گا، تعلیم کے بغیر سماج کی برائیو ںکو دُور کرنے کی مثال جڑوں کے بجائے ٹہنیوں اور پتوں پر پانی دینے کی ہے کہ اس سے وقتی فائدہ تو ہوسکتا ہے؛ لیکن کسی دیر پا تبدیلی کی اُمید نہیں رکھی جاسکتی ۔ 
اسی لئے تعلیم کی بڑی اہمیت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اسلام نے صرف مذہبی تعلیم ہی کو اہمیت دی ہو؛ بلکہ اسلام نے علم کی تقسیم علم نافع اور علم غیر نافع سے کی ہے۔ جو علم انسان کو دینی یا دُنیوی اعتبار سے نفع پہنچائے اور ان کے مسائل کو حل کرے وہ علم نافع ہے اور جو علم انسانیت کے لئے ہلاکت اور مضرت کا سامان ہو وہ علم غیر نافع ہے۔ رسول اللہ ﷺ علم نافع کے لئے دُعا فرمایا کرتے تھے اور جو علم نافع نہ ہو، اس سے پناہ چاہتے تھے۔ اس اُصول پر غور فرمایئے تو اکثر عصری علوم و فنون علم نافع کی فہرست میں آتے ہیں۔ طب انسانی جسم کیلئے نفع بخش ہے۔ انجینئرنگ انسانی ضروریات کی تکمیل میں مفید ہے، علم قانون میں انسان کی عزت و آبرو کی حفاظت ہے، ادب و صحافت کے ذریعہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام انجام دیا جاتا ہے جس پر سماج کی اخلاقی اور روحانی اقدار کا تحفظ موقوف ہے، تجارت اور معاشیات سے متعلق علوم کا مقصد فرد اور سماج کی معاشی ضروریات کو پورا کرنا اور اس کے صرف کے جائز اور مناسب مواقع کی رہنمائی کرنا ہے، جس کے مفید اور نافع ہونے سے کس کو انکار ہو سکتا ہے؟ اس لئے یہ تمام علوم اسلام میں مطلوب ہیں اور ان کی حیثیت فرض کفایہ کی ہے۔ اسلام نے کبھی علم و تحقیق سے عداوت نہیں رکھی؛ بلکہ لوگوں کو کائنات کی مخفی حقیقتوں میں غور و فکر اور تدبر کی دعوت دی اور حکمت و دانائی کی ہر بات کو مؤمن کی متاعِ گم گشتہ قرار دیا۔ علم کے اعتراف میں اپنے اوربیگانے کا فرق نہیں کیا۔ حضورﷺنے اُمیہ بن صلت کے اشعار کی تعریف فرمائی  جو زمانۂ جاہلیت کا شاعر تھا اور تحصیل ِ علم میں بھی آپ ﷺ نے کبھی دوست اوردشمن کا فرق نہیں کیا۔ غزوۂ بدر میں جو لوگ قید ہو کر آئے، ان کے بارے میں آپ ﷺ نے یوں فرمایا کہ ان میں جو لوگ پڑھے لکھے ہوں، وہ دس مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں، یہی ان کا فدیۂ رہائی ہوگا۔ ظاہر ہے کہ وہ دشمن تھے نہ کہ دوست اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ مشرک تھے، علم دین تو ان سے حاصل ہو نہیں سکتا تھا، اگر آپ ؐان سے تعلیمی فدیہ وصول کرنے کے بجائے مالی فدیہ ہی وصول کرنے پر اصرار کرتے تو معاشی نقطۂ نظر سے اہل مدینہ کیلئے یہ مناسب ہوتا؛ کیونکہ اس وقت مسلمان سخت غرت و افلاس کی حالت میں تھے  اور فاقہ کشی کے ساتھ گزر بسر عام تھی؛ لیکن آپؐ نے ان حالات میں بھی تعلیم کو ترجیح دی۔ یہ گویا اس بات کا سبق ہے کہ تعلیم کا حاصل کرنا بہر حال ضروری ہے، چاہے اس کے لئے پیٹ کاٹنا پڑے  یافاقے برداشت کرنے پڑیں؛ لیکن بچوں کی تعلیم کو کسی قیمت پر نظر انداز نہ کیا جائے ۔ 
آج مسلمانوں کو یہی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ معمولی کھائیں، معمولی کپڑے پہنیں،  عیش و عشرت کے دوسرے اسباب سے اپنے آپ کو بچائیں، معاشی تنگی کو گوارا کریں؛ لیکن ہر قیمت پر اپنے بچوں کو تعلیم دلائیں ۔ ہمارے سماج کا کوئی بچہ ایسا نہ ہو جو تعلیم سے محروم رہے۔ عام طور پر غریبو ںکی مدد اور تعاون کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ وقتی طور پر کچھ پیسے دے دیئے جائیں، کچھ کھانے پینے کی چیز مہیا کر دی جائے اور عید کا موقع ہو تو کپڑے بنوا دیئے جائیں۔ ہمارے نزدیک یہی  بڑی خدمت ہے؛ حالاں کہ خدمت کا زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ کسی شخص کے ساتھ ایسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ اس کے لئے روزگار اور معاشی سطح کو مستقل طور پر اونچا اُٹھانے کی تدبیر ہو ، جیسے کوئی دکان لگادی جائے، کہیں ملازمت دلا دی جائے، اس کی فضیلت زیادہ ہے اور رسول اللہ ﷺ سے ایسی تدابیر کا اختیار کرنا ثابت ہے۔
 ایسی ہی تدابیر میں ایک یہ ہے کہ کوئی شخص اگر خود اپنے بچے کو پڑھانے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو  تو اس کے بچوں کو تعلیم دلا دی جائے، یہ صدقۂ جاریہ ہوگا اور اس بچہ کے ذریعہ خود اس کی، اس کے والدین کی اور خاندان و سماج کی جو کچھ خدمت ہوگی، یہ اس کے اجر میں شریک ہوگا، یہ انسانی خدمت کا سب سے اہم اور مفید طریقہ ہے۔ اگر کسی شخص کے دو بچے ہوں تو اس کو خیال کرنا چاہئے کہ گویا اس کے تین بچے ہیں اور وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ اپنی قوم کے ایک اور بچہ کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری قبول کر لے، یقیناً یہ بہت بڑی خدمت ہوگی اور اس طرح سماج کی بہت سی مشکلات حل ہوسکیں گی۔ جب تک پورا سماج نہ پڑھے اور پوری قوم ترقی نہ کرے ، تب تک  ہماری ترقی یقیناً اَدھوری اور ناتمام ہوگی ۔ 
عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ مسلمان بچوں کی ایک اچھی خاصی تعداد پرائمری کے بعد تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیتی ہے، بہت سے طلبہ ہائی اسکول کی سطح پر تعلیم ترک کر دیتے ہیں اوراعلیٰ فنی تعلیم میں تو ہمارے بہت ہی کم بچے پہنچ پاتے ہیں  یہ نہایت افسوس ناک بات ہے۔ ترکِ تعلیم کی وجہ کبھی معاشی ہوتی ہے، کبھی طالب علم کی پست ہمتی اور بہت سے گھروں میں والدین کی جہالت اور سرپرستوں کی ناواقفیت۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان رہنما اوراہل دانش نئے تعلیمی سال کے آغاز پر گاؤں گاؤں اور شہر کے مختلف محلوں میں چند پڑھے لکھے رضاکاروں کی ایک کمیٹی بنائیں،  جو سلسلۂ تعلیم منقطع کرنے والے بچوں اور ان کے سرپرستوں کے حالات کا جائزہ لے، اگر طالب علم پست ہمتی کا شکار ہو رہا ہے تو اس کے لئے سمجھانے بجھانے یعنی کاؤنسلنگ کا نظم کریں اور اس کی ہمت بڑھائیں۔ اگر سرپرستوں کی غفلت اور ناسمجھی ہو تو ان کا شعور بیدار کریں اور جو مواقع گورنمنٹ کی طرف سے حاصل ہیں ، ان کواس سے استفادہ کی راہیں بتائیں اور جو بچے معاشی پسماندگی کی وجہ سے تعلیم سے محروم ہو رہے ہوں، ان کی تعلیمی وسائل میں مدد کریں اور اہل خیر کو اس جانب متوجہ کریں، کسی کو کتابوں کی ضرورت ہو تو کتاب دلادیں ، کسی کو اسکولوں کی داخلہ فیس کا مسئلہ ہو تو اس میں تعاون کردیں۔ اس طرح ایک مختصر مگر  مخلصانہ کوشش اور فکر مندی کے ذریعہ بہت سے طلبہ کا سلسلۂ تعلیم جاری رکھوایا جاسکتا ہے۔ 
ایک اہم مسئلہ زبان کا بھی ہے۔ اسلام کسی زبان کا مخالف نہیں؛ بلکہ آپ ﷺنے فرمایا کہ تمام زبانیں اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی ہیں، خود آپ ﷺ کے حکم سے حضرت زید بن ثابتؓ نے کئی زبانیں سیکھیں اور ان میں مہارت حاصل کی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی مضمون کی تعلیم کے لئے سب سے بہتر ذریعہ ’’ مادری زبان ‘‘ ہے۔ اجنبی زبان میں طالب علم کو دُہری مصیبت پیش آتی ہے ، ایک زبان کو سمجھنے کی اور دوسرے اس مضمون کو اپنی گرفت میں لانے کی، مادری زبان ایک دشواری کو آسان کر دیتی ہے اور طالب علم کو اپنا ذہن اس مضمون کے سمجھنے پر مرکوز رکھنے کا موقع ملتا ہے، اس لئے ہر سال اچھے رینک لانے والے اور مقابلہ جاتی امتحان میں بہتر پوزیشن حاصل کرنے والے بچے وہ ہوتے ہیں  جو مادری زبان کو ذریعہ تعلیم بناتے ہیں۔ اس حقیقت کو تمام ماہرین تعلیم تسلیم کرتے ہیں  بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ مادری زبان کی اہمیت کی طرف خود قرآن مجید میں بھی اشارہ ملتا ہے ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ : ہم نے ہرقوم میں اس قوم کی زبان میں پیغمبر بھیجا ہے ۔(ابراہیم: ۴)
بدقسمتی سے مسلمان اُردو زبان کے بارے میں احساس کمتری کا شکار ہیں ، جو لوگ اُردو زبان کے تحفظ کی تحریک چلاتے ہیں ؛ بلکہ اُردو ہی کی روٹی کھاتے ہیں ، وہ خود بھی اپنے بچوں کے لئے اُردو ذریعہ تعلیم کو پسند نہیں کرتے،  اس کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومت اُردو اقامتی اسکول قائم کرتی ہے؛ لیکن بچے دستیاب نہیں ہوتے، یونیورسٹیوں میں اُردو کے شعبے ہیں لیکن طلبہ کی کمی یا اُن  کے نہ ہونے کی وجہ سے اندیشہ ہے کہ وہ بند ہو جائیں ، یہ نہایت تکلیف دہ صورتِ حال ہے اور اس سلسلہ میں قومی سطح پر شعور کو بیدار کرنا  ضروری ہے، ورنہ آہستہ آہستہ ہم سے ہماری زبان بھی چھن جائے گی ۔ 
 قوم سے صحیح محبت یہی ہے کہ ہم اپنی نسلوں کو تعلیم میں آگے بڑھائیں اور جس شرمناک تعلیمی پسماندگی سے ہم دوچار ہیں، پوری قوم کو اس سے باہر نکالنے کی کوشش کریں ، مسلم جماعتیں ایک لائحۂ عمل مرتب کریں اور ایک محدود مدت کا پروگرام بنائیں کہ ہم اس مدت میں  ناخواندگی کو مکمل طور پر ختم کردیں گے اور ہمارے سماج کا کوئی لڑکا یا لڑکی ایسا نہ ہوگا جو تعلیم سے محروم ہو


متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK