Inquilab Logo

اسلام محض ایک مذہبی عقیدہ نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے

Updated: November 13, 2020, 12:24 PM IST | Raheel Gohar MA

حضور ﷺ کی حیات طیبہ جامع الصّفات ہونے کے ناطے ہر شعبہ میں ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ قرآن حکیم میں اسلام کیلئے مذہب کے بجائے دین کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔ اور اصل دین وہی ہوتا ہے، جس میں زندگی کے تمام شعبوں کے حوالے سے جامع رہنمائی موجود ہواور ان ہی صفات کا حامل دین تمام عالم کے ادیان پر غالب رہتا ہے

Quran
قرآن

عصر حاضرمیں امت مسلمہ کعبہ و کلیسا کی کشمکش میں، مشرق ومغرب کے مابین معلق ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کے فکر وعمل میں معرکۂ ایمان و مادیت برپا ہے۔اسلامی معاشرے کی غالب اکثریت تو ابھی تک پرانی روایات اور قدیم نظام اقدار سے وابستہ ہے جبکہ معاشرے کا بااثر، صاحب ثروت اور مغربی تہذیب کا دلدادہ طبقہ، بدقسمتی سے جس کے ہاتھوں میں معاشرے کی باگ ڈور بھی ہے، وہ مغربی تہذیب کو ہی معراج کمال سمجھتا ہے۔ اس فکر و نظر کی کجروی کے باعث وہ اپنے مرکز سے دور ہوتے ہوئے مکمل طور پر ملّی اقدار اور اصل تشخیص کی نفی کرتے ہوئے اپنے سودوزیاں کا احساس بھی کھوبیٹھتا ہے۔ پھر ایک بااثر طبقہ ہمارے چند ادیبوں، دانشوروں، عالموں اور تعلیم وتعلم سے وابستہ افراد کا بھی ہے جس کی لغت میں اپنی روایات واقدار، بنیادی تصورات، اپنے دین سے بے توجہی اور بے نیازی کا نام آفاقیت، وسیع المشربی، رواداری اور روشن خیالی ہے۔ یہ طبقات آج بھی مغرب کے ان مستشرقین کے تزویراتی خیالات کو سند کا درجہ دیتے ہیں جو آئے دن ان جدید افکار و نظریات کو قرآن وحدیث کے حوالے سے عین اسلام ثابت کر کے دکھانے کی سعی لاحاصل کرتے رہتے ہیں۔
 اس حقیقت سے ہربا شعور شخص اچھی طرح واقف ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ہی علم کامل ہےاور اس کی ان گنت صفات عالیہ میں سے ایک صفت علیمٌ بذات الصدور کی ہے۔ یعنی جوہم اپنے دل میں چھپائے ہوئے ، وہ تو اس کو بھی بخوبی جانتا ہے۔ اس کےبرعکس مخلوق کا علم اللہ تعالیٰ کا عطا کیا ہوا ہے جو انتہائی محدود ہے۔ارشاد ربانی ہے:
 ’’جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اُس کی معلومات میں سے کوئی چیز اُن کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی سوائے اس کے کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی اُن کو دینا چاہے۔‘‘ 
(سورۃ البقرۃ : ۲۵۵)
 پھر انسان کے اس وہبی علم میں کمی بیشی بھی ہوتی رہتی ہے۔
 انسان علم دوذرائع سے حاصل کرتا ہے،ایک علم وحی ہے اور دوسرا علم کسبی(acquired knowledge)۔ انسان کی دلآویز شخصیت کے لئے ان دونوں علوم کے ارتقاء میں ایک توازن قائم رہنا ضروری ہے۔بسا اوقات انسان کاکسبی علم، محدود عقل وفہم کی بنا پر ناقص ثابت ہوتا ہے اور پھر یہی نقص انسان کی خود ساختہ توجیہات اور تاویلات سے اس کےلئے فکروعمل کی گمراہی کا باعث بن جاتا ہے۔ 
 بقول علامہ یوسف القرضاوی  ’’انسان کا ناقص فہم دین اس کے لئے وبال جان بن جاتا ہے۔اس کی بے بصیرتی اور بے بضاعتی سے مراد وہ کم علم لوگ ہیں جو اپنےناقص علم کے باوجود اس خوش فہمی میںمبتلا رہتے ہیں کہ وہ علماء کے زمرے میں شامل ہو گئے ہیں۔حالانکہ دین کی بہت سی باتوں کو وہ جانتے ہی نہیں اور جو کچھ وہ جانتے ہیں وہ یہاں وہاں کی کچھ سطحی اور غیر مربوط باتیں ہوتی ہیں۔ ان کے علم میں کوئی گہرائی نہیں ہوتی۔ وہ نہ جزئیات کو کلّیات سے مربوط کرپاتے ہیں اور تعارض اور ترجیح کے فن سے آگاہ ہوتے ہیں اور نہ متشابہات و ظنیّات کو محکمات کی روشنی میں سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘
 روسی  ادیب اور پروفیسر پیٹر ڈی اوسپینسکی لکھتا ہے:
 ’’ جب کوئی کسی تہذیبی اثرات سے زیادہ اثر قبول کر لیتا ہے تو اس کی شخصیت میں ایک مرکز پیدا ہو جاتا ہے۔یہ مرکز ایک مقناطیس کی طرح ہوتا ہے، جو بکھرے ہوئے اثرات کو اپنی طرف کھینچ کر ایک جگہ جمع کر لیتا ہے۔ یہ مرکز جتنا زیادہ مضبوط ہوتا جاتا ہے، شخصیت میں اتنی ہی قوت آتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض لوگوں میں یہ مرکز اتنا قوی ہو جاتا ہے کہ ان کی شخصیت کے تمام اجزاء اس کے تابع ہوجاتے ہیں۔ اب یہ مرکز مختلف قسم کے اثرات کی وجہ سے مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے بھی انسانوں کی دو قسموں کاذکر کیا ہے۔ جن میں ایک قسم کے لوگ باطنی طور پر ہم آہنگ ہوتے ہیں اور دوسری قسم کے لوگ اندر سے کشمکش میں مبتلا رہتے ہیں۔ شاہ صاحب ؒپہلی قسم کے لوگوں کو ’’اہل اصلاح‘‘ اور دوسری قسم کے افراد کو’’اہل تجاذب‘‘کہتے ہیں۔
 آج ایسےہی بہت سے’’اہل تجاذب‘‘  ہیں جنہیں جدیدیت کے ماحول میں سیکولر دانشور کہا جاتاہے۔ سیکولر سے مراد وہ معاشی، معاشرتی وتعلیمی نظام لیتے ہیں، جس کی اساس سائنس پراستوار ہو اور جس میں ریاستی امور کی حد تک مذہب کی مداخلت کی گنجائش نہ ہو۔  انسانی تاریخ گواہ ہے کہ وہ بنیادی غلطی تھی جو دین کے دائرے میں کی گئی،کیونکہ انسانیت کو حیات انسانی کے ان اجتماعی گوشوں میں اللہ کی رہنمائی کی شدید ضرورت تھی اور اس عالم کی بساط لپیٹے جانے تک رہے گی۔ان اہم ترین گوشوں میں اللہ کی عطا کی ہوئی رہنمائی اور ہدایات کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ سرے سے ہے ہی نہیںجس کو اختیار کر کے انسان ان معاملات میں افراط وتفریط کے دھکوں سے بچ سکے۔
 علم ناقص کے کینوس کو پھیلایا جائے تو ہمارے کچھ دانشور یہ دعویٰ بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں کہیں بھی یہ مذکور نہیں ہےکہ اسلام ایک ضابطہ ٔ حیات ہے۔حیرت کی بات ہے کہ ان حضرات کو مطالعہ ٔ  قرآن حکیم کے دوران یہ نظر نہ آیا کہ اس میں معاشرتی زندگی کے متعلق احکامات دئیے گئے ہیں، سیاسی زندگی کے اصول و مبادی بتائے ہیں، معاشی و اقتصادی تعلیمات واضح طور پر موجود ہیں، نجی اور خانگی زندگی کے اصول بتائے گئے ہیں، یہ سب کیا ہے؟ ان آیات بیّنات کی موجودگی کے باوجود، کیا پھر بھی اسلام ضابطہ ٔ  حیات نہیں ہے؟ پھر یہ کہ قرآن نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات ِ مبارکہ میں بہترین نمونہ کا تذکرہ کیا ہے:
 ’’(مسلمانو!) تمہارے لئے اللہ کے رسول (کی ذاتِ مبارکہ) میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (سورۃ الاحزاب:۲۱)
 کیارسول اکرم ﷺکی حیات طیبہ جامع الصّفات ہونے کے ناطے ہر شعبہ میں ہماری رہنمائی نہیں کرتی؟ قرآن حکیم میں اسلام کے لئے مذہب کے بجائے دین کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے۔اس فرق کو ملحوظ رکھا جانا چاہئے۔ اصل دین وہی ہوتا ہے، جس میں زندگی کے تمام شعبوں کے حوالے سے جامع رہنمائی موجود ہو اور ان ہی صفات کا حامل دین تمام عالم کے ادیان پر غالب رہتا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
 ’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کر دے۔‘‘ 
(سورۃ التوبۃ،سورۃ الفتح،سورۃ الصف)
 یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قرآن حکیم میں اسلامی نظام حکومت کا کوئی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ حالانکہ اگر سورۃالحج کی آیت ۴۱؍ کا مطالعہ کریں تو صورت حال واضح ہو جائے گی۔اللہ فرماتا ہے:
 ’’(اللہ کے دین کی مدد کرنے والے) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں، بھلے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے روکیں۔ اور سب کاموں کا انجام تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
 اس آیت مبارکہ میں اسلامی نظام ِحکومت کے نصب العین اورحکمرانوں کی اساسی ذمہ داریوں کو صاف طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات اچھی طرح سمجھ آجاتی ہے کہ اسلامی حکومت کس چیز کا نام ہے۔ پولیٹیکل سائنس کا ایک ابتدائی طالب علم بھی یہ بات جانتا ہے کہ حکومت کے بغیر ریاست کا تصور ممکن ہی نہیں اور ریاست کے بغیر حکومت بے بنیاد ہے۔ ریاست اگر تصور ہے تو حکومت اس عمل کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ اس طرح حکومت و ریاست ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں۔ مولاناابو الاعلیٰ مودودی ؒاپنے مضمون ’’اسلام کیا ہے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ہمارے عقیدہ   کے مطابق اسلام کسی ایسے دین کانام نہیں جسے پہلی مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے پیش کیا ہو اور اس بنا پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بانی ٔاسلام کہنا درست ہو۔ قرآن اس امر کی پوری صراحت کرتا ہے کہ اللہ کی طرف سے نوع انسانی کے لئے ہمیشہ ایک ہی دین بھیجا گیا اور وہ ہے اسلام، یعنی اللہ کے آگے سر جھکا دینا۔ اسلام محض ایک مذہبی عقیدہ اور چند عبادات کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک جامع سسٹم (مکمل ضابطہ حیات) ہےجو دنیا سے زندگی کے تمام ظالمانہ اور مفسدانہ نظاموں کو مٹانا چاہتا ہے۔ اور ان کی جگہ ایک اصلاحی پروگرام نافذ کرنا چاہتا ہے جس کو وہ انسانیت کی فلاح وبہبود کے لئے بہتر سمجھتا ہے۔
 پیغمبر اسلام محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’دنیا کی پوری زمین میرے لئے مسجد بنادی گئی ہے‘‘ چنانچہ دینا کے تمام علاقوں اور حصوں سے اسلام کا گہرا ربط وتعلق ہے۔ اسلام نہ شرقی ہے نہ غربی بلکہ یہ صحیح معنوں میںایک عالمگیر اور آفاقی نظام زندگی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے صرف رحمت المسلمین نہیں بلکہ رحمۃ للعالمین بنا کر دنیا میں بھیجا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK