Inquilab Logo

اسلام، ایمان کا اعلیٰ درجہ ہے

Updated: October 02, 2020, 12:20 PM IST | Hasan Albana

مومن کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ ’الفاظ کے پیچوں میں الجھتا نہیں دانا۔‘ وہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے اور حقیقی ایمان سے لطف اندوز ہوتا ہے۔…گزشتہ ہفتے شائع ہونے والے مضمون ’’ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں‘‘ کا دوسرا اور آخری حصہ

Muslim - Pic : INN
مسلمان ۔ تصویر : آئی این این

 ایمان اور اسلام کا فرق:گزشتہ ہفتے جو کچھ عرض کیا گیا وہ ایمان کی حقیقت ہے۔ اب دوسرا نکتہ جو زیر بحث آیت میں ہے وہ ایمان و اسلام کا فرق ہے۔ اس  پر لمبی لمبی بحثیں ہوئی ہیں ۔ ہم ان بحثوں میں پڑ کر اپنا اور آپ کا وقت و قوت ضائع کرنا نہیں چاہتے۔ معاملہ بہت آسان اور سادہ ہے۔
  امام احمد بن حنبلؒ نے حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے ایک روایت نقل کی ہے: ’’ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے کچھ لوگوں کو نوازا جبکہ بعض دوسروں کو چھوڑ دیا۔ حضرت سعدؓ نے پوچھا: ’’ یا رسولؐ اللہ! آپؐ نے فلاں اور فلاں کو تو دیا مگر فلاں کو کچھ بھی نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:’اومسلم۔‘ حضرت سعدؓ نے تین بار اپنی بات دُہرائی اور ہر بار آپؐ نے یہی فرمایا:ث’او مسلم۔‘ آخر میں فرمایا: ’’میں کچھ لوگوں کو نوازتا ہوں اور انہیں چھوڑ دیتا ہوں جو مجھے زیادہ محبوب ہیں، مبادا وہ اوندھے منہ آگ میں ڈالے جائیں۔‘‘ 
(ابوداؤد، کتاب السنہ۔ نسائی ، کتاب الایمان و شرائعہ)
  آپ نے دیکھا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے مومن و مسلم کے درمیان فرق کرکے بتا دیا۔ اسلام اور ایمان میں یہی فرق ہے۔ یعنی اسلام، ایمان کا اعلیٰ درجہ ہے۔ بعض جگہوں پر قرآن نے دونوں کو ایک ہی معنی میں بھی استعمال کیا ہے، مثلاً سورۂ ذاریات ۳۵۔۳۷۔
 خلاصہ یہ ہے کہ یہ سب لفظوں کا اختلاف ہے۔ مومن کا شیوہ یہ ہوتا ہے کہ ’الفاظ کے پیچوں میں الجھتا نہیںدانا۔‘ وہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتا ہے اور حقیقی ایمان سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ 
  اللہ کے بندو! ہر چیز کی ایک علامت ہوتی ہے جس سے وہ پہچانی جاتی ہے اور ہر عقیدہ کی کوئی نہ کوئی علامت ضرور ہوتی ہے۔ ایمان کی بھی کچھ علامتیں ہیں جن سے ایمان کا پتا چلتا ہے۔ اپنا جائزہ لیجئے کہ تم ایمان کے کس مقام پر ہو اور اللہ پر تمہارا یقین کتنا مضبوط و مستحکم ہے تاکہ تم اپنے ایمان و یقین کے سلسلے میں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ رہو اور  اگر کمزور ایمان ہے تو اسے مضبوط کرسکو۔
  حضرت عمرؓ سے منقول ہے: حساب سے پہلے اپنا محاسبہ کرو اور قیامت کے روز بڑی پیشی کے لئے اپنے آپ کو تیار کرلو، قیامت کے دن اس شخص کا حساب ہلکا ہوگا جو دنیا میں اپنا احتساب کرتا ہے۔‘‘ 
(سنن ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ)
 lباعزم و غیور: میرے بھائی! ایمان کی ایک علامت یہ ہے کہ صاحبِ ایمان باعزم و غیور ہوتا ہے۔ وہ زبردست قوت ِ ارادی کا مالک ہوتا ہے۔ حق کے سلسلے میں وہ کسی ملامت گر کی پروا نہیں کرتا اور اللہ کے سلسلے میں کسی بات کا خوف نہیں کرتا۔ اس کا دل اللہ کے خوف و خشیت سے اس قدر معمور ہوتا ہے کہ دوسروں سے ڈرنے کیلئے اس میں گنجائش نہیں ہوتی۔ وہ صرف اللہ سے ڈرتا ہے اس لئے کسی اور سے نہیں ڈرتا۔ وہ اپنے عقیدہ کے تئیں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوتا اور اعداء دین سے مداہنت نہیں کرتا۔ وہ اس فرمان ِ الٰہی کا پیکر و مصداق ہوتا ہے:
 ’’اور وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ،تمہارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، اُن سے ڈرو، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور اُنہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لئے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارسا ز ہے۔‘‘  (آل عمران:۱۷۳)
 lخوددار و بے باک: صاحب ایمان کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ خوددار ہوتا ہے۔ ظلم و ناانصافی کو نہ برداشت کرتا ہے اور نہ کمزوری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اسے یقین ہوتا ہے کہ تمام قوتوں کا مالک اللہ ہے۔ عزت و غلبہ، اللہ، رسولؐ اور مومنین کے لئے ہے۔ اس لئے وہ بڑی سے  بڑی طاقت کو بھی خاطر  میں نہیں لاتا اور اپنے عزیز مولیٰ پر کامل اعتماد کرتاہے:
 ’’یہ اس لئے کہ (انہیں یقین ہے کہ) ایمان لانے والوں کا حامی و ناصر اللہ ہے اور کافروں کا کوئی کارساز نہیں۔‘‘(محمد:۱۱)
 lاللہ سے محبت: مومن کا ایمان اللہ کی ذات اور صرف اللہ کی ذات پر ہوتا ہے۔ اس لئے بھروسا  بھی اسی پر کرتا ہے ، اپنے تمام معاملات اسی کے حوالے کردیتا ہے، کیونکہ اسے یقین ہے کہ سارے امور اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ فیصلے کا اختیار بھی اسی کو ہے۔ اس لئے اس کو چھوڑ کر کہاں جائے اور کس سے فریاد کرے۔ وہ دل سے اللہ سے محبت کرتا ہے، اسے سب سے محبوب اپنا مولیٰ ہوتا ہے:
 ’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدمقابل بناتے ہیں اور اُن کے ایسے گرویدہ ہیں جیسے اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہئے حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں کاش، جو کچھ عذاب کو سامنے دیکھ کر انہیں سُوجھنے والا ہے وہ آج ہی اِن ظالموں کو سوجھ جائے کہ ساری طاقتیں اور سارے اختیارات اللہ ہی کے قبضے میں ہیں اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں بھی بہت سخت ہے ۔‘‘ (البقرہ:۱۶۵)
 lاہل ایمان  سے محبت اور دشمنوں سے دوری: مومن کا ایک اور وصف یہ ہے کہ اسے اپنے مومن بھائیوں سے بے پناہ محبت اوراسلام کے دشمنوں سے سخت اُلجھن ہوتی  ہے۔ وہ  ان سے دوری اختیار کرتا ہے اور معاملات زندگی میں ان سے سروکار نہیں رکھتا:
 ’’جو لوگ خدا پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں تم ان کو خدا اور اس کے رسول کے دشمنوں سے دوستی کرتے ہوئے نہ دیکھو گے۔ خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا خاندان ہی کے لوگ ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں خدا نے ایمان (پتھر پر لکیر کی طرح) تحریر کردیا ہے اور فیض غیبی سے ان کی مدد کی ہے۔‘‘ (المجادلہ:۲۲)
 ’’اے ایمان والو! تم میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ تم (اپنے) دوستی کے باعث اُن تک خبریں پہنچاتے ہو حالانکہ وہ اس حق کے ہی مُنکر ہیں جو تمہارے پاس آیا ہے۔‘‘ (الممتحنہ:۱)
  اس لئے مومن کی دشمنی بھی اللہ کے لئے ہوتی ہے اور دوستی بھی، جیسا کہ اللہ بزرگ و برتر کا فرمان ہے:
 ’’محمدؐ اﷲ کے رسول ہیں، اور جو لوگ آپؐکی معیت اور سنگت میں ہیں (وہ) کافروں پر بہت سخت اور زور آور ہیں آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں۔ ‘‘ (الفتح:۲۹)
 lاللہ پر کامل بھروسا: ایمان کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ بندۂ مومن کا تمام تر اعتماد و بھروسا اس چیز پر ہوتا ہے جو اللہ کے پاس ہے۔ اسے اپنی دولت پر بھروسا نہیں ہوتا۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے اور اس امید و یقین کے ساتھ کرتا ہے کہ اللہ کے یہاں اس سے اچھا بدلہ ملے گا:
 ’’جو (مال و زر) تمہارے پاس ہے فنا ہو جائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے باقی رہنے والا ہے۔‘‘ (النحل:۹۶)
   اللہ کے باایمان بندو! ایمان کی ان علامتوں میں عزیمت، غیرت، توحید، توکل، حب الٰہی اور اللہ کے اجر کی اُمید کی روشنی میں اپنے ایمان کا جائزہ لو، اپنے گریبان میں جھانکو۔ اگر یہ علامتیں موجود ہیں اور وافر مقدار میں موجود ہیں تو اللہ کی توفیق پر شکر بجالاؤ لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو اپنے آپ پر روؤ، اپنی گزشتہ زندگی پر آنسو بہاؤاور اپنے دل کا علاج کراؤ۔ اپنے دل کو کسی دل کے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ، شاید اس کے پاس تمہیں اپنی بیماری کی دوا مل جائے، اوراللہ سے گڑگڑا کر دعا کرو کہ وہ تمہیں جادۂ ایمان پر قائم کردے اور اہل یقین کے راستے کی توفیق دے دے۔ یا د رکھئے اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: تین چیزیں جس کے اندر ہیں اسے ایمان کا ذائقہ مل گیا:
 ۱۔ اللہ اور رسولؐ اسے سب سے زیادہ محبوب ہوں۔
 ۲۔ جس کسی سے محبت کرے صرف اللہ کی خاطر کرے۔
 ۳۔ اور کفر کی طرف پلٹنا اسے اتنا ہی ناگوار و ناپسند ہو جتنا آگ میں ڈالا جانا۔ (بخاری، کتاب الایمان۔ مسلم، کتاب الایمان)
 اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے ایمان کا جائزہ لینے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین ثم آمین

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK