Inquilab Logo

دورِجدید کے چیلنج اور ہماری ذمہ داریاں

Updated: June 17, 2022, 2:43 PM IST | Ahmed Ali Akhtar | Mumbai

مسلم معاشرے میں بے شمار برائیاں در آئی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم غفلت سے باہر آئیں ،غیر شرعی امور سے اجتناب برتیں اور اجتماعیت کو فروغ دیں

Need to come together on a common ground while resolving differences.Picture:INN
اپنے اختلافات کو دور کرکے یا جزوی و فروعی اختلافات کو باقی رکھتے ہوئے ایک نقطۂ اتحاد پرجمع ہونے کی ضرورت ہے۔ تصویر: آئی این این

سلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ یہ ہرشعبۂ زندگی میں ایک انقلاب چاہتاہے اور زندگی کی جزئیات تک کو بندگی ٔرب کے تقاضوں کے مطابق بدل ڈالنا چاہتاہے۔ یہ پکار اور دعوت ایسی ہمہ گیر ہے کہ اس سے وقت کے نظام سے وابستہ بے شمار لوگوں کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے۔ مگر سب سے زیادہ ضرب ان لوگوں کے مفادات پر پڑتی ہے، جو اس نظام کے سرپرست اور کارساز ہوتے ہیں اور اس نظام میں اپنی خدائی اور اقتدار کاسکہ چلاتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو اسلام کو ہمیشہ چیلنجوںکا سامنا رہاہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت حق کے مقابلے میں نمرود کھڑاہوا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں فرعون سدراہ بنا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے کے لئے قبیلہ قریش کے سرداران، رؤسائے مکہ اور خانۂ کعبہ کے منصب داروںاور متولیوں کی جماعت اٹھ کھڑی ہوئی۔ جب آں حضرت ﷺ ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ پہنچے تو منافقین اور یہود ایک چیلنج بن کر سامنے آئے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو روم و ایران کی عظیم الشان سلطنتوںاور اپنے وقت کی دو بڑی طاقتوں (Super Powers)کے چیلنجوں کاسامنا کرناپڑا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میں ارتداد اور مانعین زکوٰۃ کافتنہ اٹھا، یہ بھی ایک چیلنج ہی تھا، جس کا مقابلہ حضرت ابوبکرؓ نے آہنی عزم کے ساتھ کیا۔
 پوری تاریخ اسلام میں بے شمار فتنے اور چیلنج سامنے آتے رہے، جن کا مقابلہ مسلمان اپنے اپنے دور میں اپنی اپنی طاقت اور صلاحیت کے مطابق کرتے رہے۔ ان میں بعض چیلنج ابھی تک چیلنج بنے ہوئے ہیں اور ایک عرصے سے ہماری سعی و جہد اور تعمیری صلاحیتوں کو للکار رہے ہیں۔ مگر صورت حال ابتر سے ابتر ہوتی جارہی ہے۔ ان میں سے ایک بڑا چیلنج ہمارا افتراق و انتشار ہے۔ ہماری اجتماعیت کاٹوٹ جانا اور بکھر جانا ہے۔ بڑی قربانیوں اور جدوجہد کے بعد جس مثالی اجتماعیت کی داغ بیل رسول اکرمﷺ نے ڈالی تھی اور جسے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے پروان چڑھایاتھا وہ خاندانی خلافت میں تبدیل ہوکر یک گونہ کمزور بنی۔ پھر بھی ساری دنیا کے مسلمان اس خاندانی خلافت پرراضی ومطمئن رہ کر مجتمع تھے۔ لیکن یہ اجتماعیت بھی نظام کفر کے علم برداروںکو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔ چنانچہ ریشہ دوانیاں اور سازشیں شروع ہوئیں اور خلافت عثمانیہ پارہ پارہ ہوگئی۔ اس خلافت کو دوبارہ قائم کرنے کے لئےاپنے ملک میں بھی خلافت تحریک بڑے زور وشوراور جوش و خروش سے شروع ہوئی، مگر اے بساآرزو کہ خاک شدہ۔ خلافت کیا قائم ہوتی، انتشار کی لَے اور بڑھتی ہی گئی،ٹوٹنے اور بکھرنے کاسلسلہ درازہوتاگیا، مسلکوں کی تفریق اور شدت پسندی، برادرانہ عصبیت اور جماعتوں کی باہمی کشاکش نے ہمیں ٹکڑوں میں بانٹ کر رکھ دیا اور جب اجتماعیت نہ رہی تو تربیت کانظام بھی بکھرگیا اور مسلمان ہر طرح کی تربیت و رہ نمائی سے بے نیاز ہوگئے۔ نتیجہ یہ ہواکہ انہیں دشمن طاقتیں بڑی آسانی سے اپنے مفادات کے لئےاستعمال کرنے لگیں اور ایک دوسرے سے لڑانے لگیں۔ میرے نزدیک کل بھی وقت کابڑا چیلنج یہی تھا اور آج بھی سب سے بڑا چیلنج یہی ہے۔ اس چیلنج کا مقابلہ ہم اسی صورت میں کرسکتے ہیں کہ اپنے اختلافات کو دور کرکے یا جزوی و فروعی اختلافات کو باقی رکھتے ہوئے ایک نقطۂ اتحاد پر جمع ہوں۔اگر اس کمزوری پر ہم قابو نہ پاسکے توپھروقت کے کسی چیلنج اور کسی طاقت کاہم مقابلہ نہ کرسکیں گے۔
موجودہ صورت میں حالات کاگہراتجزیہ کرکے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کے عالمی انتشار اور طوائف الملوکی کے چیلنج کامقابلہ کرنے کے لئےہم کیا حکمت عملی اختیارکریں۔ جہاں تک تذکیر و نصیحت اور سمجھانے بجھانے کا سوال ہے، ہم اس پہلو سے تو ساری دنیا کے مسلمانوں کی عامۃ المسلمین کی، علماء اور دانشوروں کی، امراء اور بادشاہوں کی، انفرادی اور اجتماعی ہر سطح پر جو موقع میسر ہوتذکیر کریں اور برابر کرتے رہیں لیکن مشاہدہ بتاتا ہے اور تاریخ کی شہادت تصدیق کرتی ہے کہ بالعموم زوال آمادہ قوموں میں اس طرح کی تذکیر و نصیحت نتیجہ خیز نہیںہوتی ۔ خطبۂ جمعہ کے ذریعے اور دیگر مواقع پر امت کے علماءاور صلحاءتذکیر اور یاد دہانی کا فریضہ انجام دیتے رہتے ہیں اور لوگ اپنی روش پر قائم رہتے ہیں۔ اس لئےعمومی تذکیر کے ساتھ دنیا بھر کی تحریکات اسلامی کو اپنے اپنے دائرے میں مضبوط اسلامی اجتماعیت کو پروان چڑھانے کے لئےبھرپور کوشش کرنی چاہئے اور ایسی عملی نظیر قائم کرنی چاہئے، جسے دیکھ کر خواب غفلت میں مدہوش ملت اسلامی کے افراد کی آنکھیں کھل جائیں اور وہ اس اجتماعیت کو قوت پہنچانے کے لئےآگے آئیں اور اپنا دست تعاون دراز کریں۔ اِن شاء اللہ تحریکات اسلامی کے دائروں میں پروان چڑھتی ہوئی یہ اجتماعیت ایک دن مسلمانان عالم کی شیرازہ بندی بھی کرسکے گی اور اپنے اپنے علاقوں میں وقت کے چیلنجوںکامقابلہ بھی۔
 ایک اور چیلنج جو عرصۂ دراز سے مسلمانوں کے لئےدردسر ہے، وہ ان کا معاشرتی بگاڑ ہے۔ شادی بیاہ کے طورطریقوں میں غیرشرعی اور مسرفانہ رسموں اور رواجوںکی پیروی، فضول خرچیوں اور نمائشی کاموں میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا، رشتوں کے لئےبرادریوں کی حدبندیاں قائم کرنا اور مطالبات کی فہرست پیش کرنا، بے پردگی اور بے حجابی کی طرف بڑھتے قدم کے ساتھ محرم کے قرآنی تصورات و تعلیمات سے یکسرانحراف کرتے ہوئے مردوں کا ہر  رشتے دار  عورت سے اور عورتوں کا ہر مرد رشتے دار سے بے تکلفانہ اختلاط اورمیل جول اور نہ جانے کتنی خرابیاں ہیں جومسلم معاشرے میں اس طرح رچ بس گئی ہیں کہ ان سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ خاص طور سے برصغیر ہندو پاک کے مسلم معاشرے کی جوحالت ہم دیکھ رہے ہیں، وہ حددرجہ افسوس ناک ہے۔ اصلاح رسوم کی کتنی ہی تحریکیں اٹھیں مگر کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکیں۔ مسلم معاشرے کایہ بگاڑ آج بھی ایک زندہ و توانا چیلنج ہے، جو ہماری تعمیری صلاحیتوںاور کوششوں کو للکار رہاہے۔ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئےکافی غورو فکر، تبادلۂ خیال اور مشاورتی افہام وتفہیم کے بعد تعمیری اور تحریکی ذہن رکھنے والے لوگوں کو ایک حکمت عملی طے کرکے اقدام کرنا چاہئے اور اس وقت تک پیش قدمی جاری رکھنی چاہئے جب تک کہ کامیابی قدم نہ چوم لے۔ اس سلسلے میں نوجوان نسل ﴿لڑکا اور لڑکی دونوں کی ذہن سازی اور فکری تطہیر کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اس کے لئےجابہ جا نوجوان لڑکوں کے علاحدہ علاحدہ چھوٹے چھوٹے تربیتی اجتماعات اورٹریننگ کیمپ بڑے پیمانے پر اور تسلسل کے ساتھ منعقد کرکے ان کی ذہن سازی کرنا مناسب ہوگا۔ ان تربیتی اجتماعات میں محض نصیحت نہ کی جائے، بلکہ اظہار خیال کا موقع دے کر پروگرام میں عملاً انہیں شامل کیاجائے تاکہ ان کی دلچسپی نہ صرف یہ کہ برقرار رہے ، بلکہ بڑھتی جائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK