Inquilab Logo

اسلام کسی بھی کام کو توجہ اور دلچسپی کیساتھ کرنے کی تاکید کرتا ہے

Updated: October 20, 2023, 12:17 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

حضرت انسان کے لئے بامقصد زندگی گزارنا ضروری ہے؛ بصورت دیگر نتیجہ کے اعتبار سے نقصان ایک طے شدہ امر ہے۔

Every task requires full attention and dedication. Photo: INN
ہر کام مکمل توجہ اور انہماک کا متقاضی ہوتا ہے۔ تصویر:آئی این این

حضرت انسان کے لئے بامقصد زندگی گزارنا ضروری ہے؛ بصورت دیگر نتیجہ کے اعتبار سے نقصان ایک طے شدہ امر ہے۔ اس لئے اس بات کا سمجھنا لازمی ہے کہ انسان بامقصد زندگی کی ڈگر پر کیسے چلے۔ اس بات کو سمجھنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان جو بھی کام کرے اس کے نتیجے کو سامنے رکھے کہ آیا وہ فائدہ پہنچانے والا ہے یا اس کا کوئی نقصان بھی ہے۔ اس طرح انسان اگر کام شروع کرنے سے پہلے غور و فکر کر لے گا تو فطرت سلیم کے اعتبار سے وہ کوئی ایسا کام شروع ہی نہیں کر ے گا جس میں نقصان ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ میں بکثرت غور و فکر کی تعلیم دی گئی ہے اور ہر کام سے پہلے اخلاص نیت اور کام پر مکمل توجہ کی تعلیم دی گئی ہے۔
  ذیل کی آیت میں غور فرمائیں کہ کس طرح اللہ رب العزت نے ان لوگوں کو کامیاب قرار دیا ہے جو دھیان کے ساتھ بامقصد نماز پڑھتے ہیں اور بے مقصد، بے کار اور بے فائدہ باتوں سے دور رہتے ہیں ۔ فرمایا: ’’وہ ایمان والے کامیاب ہوگئے،جو اپنی نماز میں عاجزی اختیار کرتے ہیں ،(اور)بے فائدہ باتوں سے دور رہتے ہیں ۔‘‘ (المؤمنون:۱؍تا۳)
 مذکورہ صورت حال کے برعکس اگر انسان کوئی کام بے دھیانی، سستی اور بلا مقصد کرتا ہے تو وہ کس قدر برا ہے، اس کا اندازہ بھی ہمیں ایک اور آیت قرآنی سے ہوتا ہے جس میں نماز کے تعلق سے ہی اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے: ’’بے شک منافقین اﷲ سے چالبازی کرتے ہیں اور اﷲ خود ان کو چالبازی کی سزا چکھائیں گے، اور جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو بے دلی کے ساتھ ، لوگوں کو دکھانے کے لئے، اورا ﷲ کو وہ بہت ہی کم یاد کرتے ہیں ۔‘‘ (النساء:۱۴۲)۔ اس آیت کریمہ سے بے مقصد، سستی کے ساتھ اور یونہی کسی کام کے کرنے کی قباحت صاف ظاہر ہے۔ ایک تو نماز دھیان سے ادا کرنے کی چیز ہے اور وہ بھی صرف اللہ رب العزت کی خوشنودی کے لئے؛ لیکن منافقوں کے پاس یہ دونوں چیزیں مفقود ہیں اسی لئے انہیں اس بدعملی کی خطرناک سزا ملے گی۔
 اس آیت کریمہ سے ہمیں یہ نکتہ صاف سمجھ میں آتا ہے کہ انسان نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ روز و شب کی دُنیوی زندگی میں جو بھی کام کرتا ہے اس میں مکمل توجہ ہونی چاہئے اور اللہ رب العزت کو خوش کرنے کا جذبہ شامل ہونا چاہئے بصورت دیگر دین و دنیا کا نقصان یقینی ہے۔ 
 موضوع کی مناسبت سے یہاں ایک خاص پہلو کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری ہے کہ ہمیں `یونہی، کسی کام کو انجام دینے کے کلچر سے باہر آنا چاہئے کیونکہ ہماری زندگی کا یہی وہ عنصر ہے جس سے ہمیں بے پناہ نقصان پہنچ رہا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کا انتقال ہوگیا اور ہم محض اس وجہ سے اس کے جنازے میں شریک ہورہے ہیں کہ اگر شریک نہیں ہوں گے تو لوگ کیا کہیں گے یا یہ کہ دوسرے لوگ شریک ہورہے ہیں اس لئے ہم بھی شریک ہوگئے۔ ایسا کئی لوگ سوچتے اور کرتے ہیں جبکہ ہر مسلمان کو جنازے میں اس وجہ سے شرکت کرنی چاہئے کہ یہ شریعت کا حکم ہے اور گزرنے والے کا حق ہے۔ 
شریعت اسلامیہ کے مطابق کسی مسلمان کا جنازہ پڑھنے کی ایک فضیلت یہ ہے کہ جنازہ پڑھنے والے کو ایک قیراط کے بقدر اجر ملتا ہے اور ایک قیراط کی مراد خود احادیث ِ مبارکہ میں ہے کہ وہ ’’اُحد‘‘ پہاڑ کے بقدر ہوگا۔ نیز جس میت کا جنازہ پڑھا جارہا ہے، تو اگر جنازہ پڑھنے والے چالیس یا اس سے زائد افراد ہوں تو اللہ اس میت کے حق میں ان جنازہ پڑھنے والوں کی سفارش کو قبول فرما لیتے ہیں ۔ یہ کتنی بڑی بات اور کتنا بڑا اجر ہے!
 یاد رکھئے! جس طرح بے توجہی سے اور بلا مقصد کسی کام کو انجام دینے کا زبردست نقصان ہے بالکل اسی طرح عدم توجہی سے کسی ایسے کام کو چھوڑ دینے کا بھی بڑا نقصان ہے ۔ اس کی ایک عام مثال یہ ہے کہ ہماری مائیں اور بہنیں جب باہر نکلتی ہیں تو ان کے لئے مناسب ڈھنگ سے پردہ ضروری ہے لیکن ہمارے آج کے معاشرے میں عموما ایسا ہو رہا ہے کہ جب کچھ لڑکیاں اور عورتیں باہر نکلتی ہیں تو عدم توجہی سے بے پردگی کا شکار ہو جاتی ہیں حالانکہ وہ جانتی اور سمجھتی ہیں کہ پردہ ضروری ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اور مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نظریں نیچی رکھیں ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زیبائش و آرائش کو ظاہر نہ کریں ، سوائے اس کے جو کھلا رہتا ہے ، اور اپنے گریبانوں پر دوپٹے ڈال لیا کریں۔‘‘ (النور:۳۱ )
 اس موقع سے یہ سمجھنا بہت اہم ہے کہ محض کسی چیز کا علم کامیابی تک پہنچانے کیلئے کافی نہیں ہے جب تک کہ اس پر عمل نہ ہو۔ لہٰذا ہمیں اپنی طرز زندگی اور کاموں کے متعلق دو باتوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے: (۱)ہم متعلقہ کام سے متعلق ضروری علم حاصل کریں (۲) اور پھر اس علم پر عمل بھی کریں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی شریعت میں مطلوب طریقے کے مطابق گزرے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم کوئی کام بے توجہی سے نہ کریں اور کوئی اہم کام عدم توجہی کے وجہ سے ہم سے نہ چھوٹ جائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK