اسلام اور پیغمبراِسلامؐ نے۱۴۵۰؍ سال پہلے انسانیت کا جو رَہنما تصور پیش کیا تھا اُس کی صداقت اور حقانیت کوآج تمام انسانوں کے ذہن ودماغ میں بٹھانے کی سخت ضرورت ہے۔
EPAPER
Updated: December 15, 2023, 1:29 PM IST | Dr. Jahangir Hassan | Mumbai
اسلام اور پیغمبراِسلامؐ نے۱۴۵۰؍ سال پہلے انسانیت کا جو رَہنما تصور پیش کیا تھا اُس کی صداقت اور حقانیت کوآج تمام انسانوں کے ذہن ودماغ میں بٹھانے کی سخت ضرورت ہے۔
چوں کہ ہم مسلمان ہیں تو ہمارے اوپر لازم ہے کہ ہم بذات خود اِسلام کو سمجھیں ، اس کی تعلیمات کو جانیں ، اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں اور پھر اِس میں انسانیت کا کیا تصور ہے اُس کی اشاعت عام کریں ۔ تاکہ بندگان خدا صحیح طورپر اِسلام کو جان سکیں اور اُس کے انسانیت بھرے پیغام سے ہم آہنگ ہوسکیں اور اِس سے متعلق جو غلط فہمیاں پائی جارہی ہیں وہ دور ہوسکیں ۔
اِسلام میں انسانیت کا کس قدر خیال رکھا گیا ہے آئیے ایک نظراِس پر ڈالتے ہیں :
(۱) جو بھی بلاوجہ کسی انسان کا قتل کرتا ہے گویا وہ پوری انسانی برادری کا قاتل ہے۔جیساکہ ارشاد رَبانی ہے: ’’جس نے کسی جان کا قتل بغیر قصاص یا بغیر کسی جرم کے کیا تو اُس نے تمام انسان کا قتل کیا اور جس نے کسی ایک جان کو قتل ہونے سے بچا لیا گویا اُس نے تمام انسان کو قتل ہونے سے بچا لیا۔‘‘ (سورۂ مائدہ:۳۲)مزید اِرشاد ہے: ’’جس جان کو اللہ تعالیٰ نے محترم بنا رکھا ہے اُسے ناحق (بلاوجہ/یوں ہی) قتل نہ کرو۔‘‘ (بنی اسرائیل:۳۳)
(۲) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف جنگی قیدیوں کے آرام کا خیال رکھتے تھے بلکہ اُنہیں قتل کرنے کے بجائے فدیہ کے عوض آزاد کردینا زیادہ پسند فرماتے تھے۔ چنانچہ جب بعض صحابۂ کرام نے بدری قیدیوں کے قتل کا مشورہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سب سے منہ پھیر لیا۔ لیکن جب حضرت ابوبکرؓ نے فدیہ کے عوض قیدیوں کی رہائی کا مشورہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہ صرف یہ کہ قبول فرمایا، بلکہ آپؐ کے چہرۂ انور سے سارے آثارِ غم بھی کافور ہوگئےاور اِس طرح آپ صلی ﷺنے تمام اسیرانِ بدر کو فدیہ کے عوض آزاد فرما دیا۔ (مسنداحمد، حدیث ۱۳۵۵۵)
(۳) ایک غیرمسلم کا جنازہ سامنے سے گزرا، تو اُسے دیکھتے ہی نبی کریم ﷺ کھڑے ہوگئے۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ تو یہودی کا جنازہ ہے! اِس پر آپؐ نےارشاد فرمایا کہ جب جنازہ دیکھو تو کھڑے ہوجایا کرو۔ (بخاری، حدیث:۱۳۱۱) آنحضرت ﷺکا یہودی کے جنازے کے لئے بھی کھڑے ہوجانا ظاہر کررہا ہے کہ آپ کے قلب مبارک میں محض انسانیت کے رشتہ کی بناپر ہر انسان سے کس قدر محبت تھی۔
(۴) احترام انسانیت ہی کے پیش نظر، یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب کوئی انتقال کرجائے تو پورے اعزاز کے ساتھ میت کو غسل دیا جائے۔ صاف ستھرا کفن پہنایا جائے۔ اُسے خوشبو میں بسایا جائے۔ اُس کی نماز جنازہ پڑھی جائےاور پھر سلیقے سے اُسے دفن کیا جائے۔ یہاں تک کہ اُس کے حق میں اجتماعی طورپر خیروعافیت اور اُس کی مغفرت و بخشش کے لئے دعائیں بھی کی جائیں ۔
(۵) اسلام کی آمد سے پہلے جنگوں میں دشمنوں کے ساتھ انتہائی غیرانسانی رویے اختیار کئے جاتے تھے مگراِسلام نے انسانی حرمت کے پیش نظر اِن تمام غیراِنسانی کاموں پر سختی سے پابندی عائد کردی اور اِس طرح لاشوں کی بےحرمتی کو ناجائز قراردیا۔ اِس کےعلاوہ سختی کے ساتھ یہ حکم بھی دیا جاتا تھا کہ خبردار! جنگ کے دوران بچوں ، بوڑھوں اورعورتوں کو ہرگز قتل نہ کیا جائے۔ اگر وہ مقابلے پر آئیں بھی تو اُنہیں نظر انداز کردیا جائے۔ حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں جب فوج کسی جنگی مہم پر بھیجی جاتی تو یہ تاکید کی جاتی تھی: اے لوگو! خیانت نہ کرنا، دھوکہ نہ دینا، مقتول کا چہرہ نہ بگاڑنا، بچے، بوڑھے یا عورت کو قتل نہ کرنا، باغات کو برباد نہ کرنا، نہ اُنھیں جلانا، پھل دار درخت کو نہ کاٹنا، کسی بکری، یا اونٹ کو صرف اور صرف کھانے کے لیے ہی ذبح کرنا، بلاوجہ اُسے قتل نہ کرنا وغیرہ۔ ( کنزالعمال، حدیث:۳۰۲۶۸)
(۶)پھر اِسی پر بس نہیں کیا بلکہ جزاوسزا اور تبشیر وانذار کے پردے میں بھی احترام انسانیت اور اِنسان دوستی کا سبق ازبر کرایا گیا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : جس نے کسی بھی جان دارکا چہرہ بگاڑا اور توبہ نہیں کی تو قیامت کے دن اللہ اُسے مثلہ اُٹھائےگا۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد، کتاب الحدود، باب نہی عن المثلہ)
(۷) سہیل بن عمر وجو اِنتہائی فصیح اللسان تھا اور مجمع عام میں رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف تقریر یں کیا کرتا تھا، جب وہ بدر میں قید ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اِس کے نیچے کےدو دَانت اُکھڑوا دیجئے تاکہ پھرآپ کے خلاف نہ بول سکے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اُس کے عضو کو نہیں بگاڑوں گا ورنہ اللہ تعالیٰ اُس کے بدلےمیرے اعضا بگاڑ دے گا اگرچہ میں نبی ہوں ۔ (تاریخ طبری،ذکر بقیۃ ما کان فی السنۃ الثانیۃ،ذکر وقعۃ بدر الکبری،۲/۴۶۵)
مذکورہ بالا آیات واحادیث سے واضح ہوتا ہےکہ احترام انسانیت بہرحال لازم ہے اور جہاں تک ممکن ہو انسانی جان کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ یہ احترام انسانیت، محض رنگ ونسل اور مذہب وبرداری کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہئے بلکہ انسان خواہ کسی بھی رنگ ونسل اور کسی بھی مذہب وبرادری سے ہواُس کی جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت بہت ہی ضروری ہے۔ لیکن صد حیف کہ آج کا مہذب وماڈرن انسان بذات خود اِنسانیت کا جنازہ نکال رہا ہے، اور مقام حیرت یہ ہے کہ اِس طرح کی تمام غیراِنسانی حرکتیں انسان دوستی اور حقوق انسانی کی بحالی کے نام پرکی جارہی ہیں ۔ آج انتہا پسندی اُس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ کیا اسپتال اور کیا اسکول اور کیا مذہبی مقامات، بلاامتیازہرایک کو تہہ وبالا کیا جارہا ہے۔ بلکہ واضح لفظوں میں کہا جائے تو آج جس طرح سے اَمن پسندی کے پردے میں انتہا پسندی کو فروغ دیا جارہا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے نہ عالمی برادری کے حق مفید ہے اور نہ انسانی برادری کےحق میں ۔
حاصل کلام یہ کہ اسلام اور پیغمبراِسلام نے ۱۴۵۰؍ سال پہلے انسانیت کا جو رَہنما تصور پیش کیا تھا اُس کی صداقت اور حقانیت کوآج تمام انسانوں کے ذہن ودماغ میں بٹھانے کی سخت ضرورت ہے تاکہ ہرسطح پرصلح وآشتی، انسان دوستی اور اِحترام انسانیت کی فضا قائم ہو اور کسی بھی نہج پر انسانی حرمت وشرافت کی پامالی نہ ہوسکے۔