Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسلام کا فلاح اور کامرانی کا تصو ّر دونوں عالموں پر محیط ہے

Updated: March 05, 2021, 12:28 PM IST | Dr Sayed Farhat Hussain

گزشتہ ہفتے شائع ہونے والے مضمون ’’قرآ ن مجید کا تصور فلاح ونجات ‘‘ کا دوسرا اور آخری حصہ

Quran - Pic : INN
قرآن ۔ تصویر : آئی این این

lمقابلہ کے موقع پر ثابت قدمی اور پامردی: ’’اے ایمان والو! جب (دشمن کی) کسی فوج سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہا کرو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔‘‘ (الانفال:۴۵) 
 ’’اے ایمان والو! صبر کرو اور ثابت قدمی میں (دشمن سے بھی) زیادہ محنت کرو اور خوب مستعد رہو، اور اللہ کا تقویٰ قائم رکھو تاکہ تم کامیاب ہو سکو۔‘‘  (آل عمران:۲۰۰)
l کشادہ دل لوگ:
 ’’جو اپنے دل کی تنگی سے بچا لئے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (الحشر:۹ ۔ التغابن:۱۶) یعنی تنگ دلی پست حوصلگی اور بخل سے محفوظ رہے، ہمت ، حوصلہ اور کشادہ دلی سے زندگی گزاری وہ فلاح پانے والے ہیں۔
lکون لوگ فلاح یاب نہیں ہو سکتے: 
 ظالم ( سورہ یوسف:۲۳)، مجرمین( سورہ یونس:۱۷)  جھوٹے اور افترا باندھنے والے ( سورہ یونس: ۶۹) اور جادوگر ( سورہ یونس۔۷۷)۔  واضح رہے کہ اسلام کا فلاح اور کامرانی کا تصور صرف دنیوی اور مادی نہیں ہے اور نہ محض اخروی ہے بلکہ دونوں عالموں پر محیط ہے۔ اس میں ایمان، عمل صالح ،تقویٰ اور پرہیز گاری شرط اول ہے۔معاشرہ کو صحیح ڈگر پر رکھنے کے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی فرض ہے۔ ظلم وزیادتی، جرائم، جھوٹ، افتراء، جادو ٹونے اور شیطانی افعال سے چاہے مادی اعتبار سے کتنا ہی نفع حاصل ہوجائے اسلام کے مطابق اللہ کی نظر میں یہ فلاح نہیں ہے۔ اسلامی نظریہ کا اصل ہدف آخرت کی کامیابی ہے مگر دنیا کو نظر انداز نہیں کیا گیا ہے۔ سورہ القصص کی آیت ۷۷ ؍سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے:
 ’’اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول اور تو (لوگوں سے ویسا ہی) احسان کر جیسا احسان اللہ نے تجھ سے فرمایا ہے اور ملک میں (ظلم، ارتکاز اور استحصال کی صورت میں) فساد انگیزی (کی راہیں) تلاش نہ کر، بیشک اللہ فساد بپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘
(۴)فوز:
 نجات اور کامیابی کے لئے کلام الٰہی میں فوز،  فوز عظیم ، فوز کبیراور فوز مبین بھی آیا ہے۔ قرآن مجید کے مطابق فوز اور فوز عظیم یہ ہے کہ آخرت میں جنت حاصل ہوجائے۔ اس کے لئے ایمان اور عملِ صالح ضروری ہےجس کے ذریعہ اللہ کی رضا اور مغفرت حاصل ہوجائے ۔ کچھ خاص آیات پیش کی جارہی ہیں۔
l ایمان اور عمل صالح:
 ’’جو اللہ پر ایمان لایا اور نیک عمل کرتا ہے اللہ اس کے گناہ جھاڑدیگا اور اپنی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ لوگ ہمیشہ ان میں رہیں گے۔ یہی بڑی کامیابی ہے (التغابن: ۹) تقریباً یہی مضمون سورہ الصف آیت ۱۲؍ اور سورہ التوبہ آیت ۸۹؍ میں ہے۔
 ’’بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے لئے جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘ (البروج: ۱۱)
 ’’اور جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتا ہے اور اللہ سے ڈرتا اور اس کا تقویٰ اختیار کرتا ہے، پس ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔‘‘ (النور:۵۲)
lاللہ کی خوشنودی:
 ’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اوربرائی سے روکتے ہیں،  نماز قائم کرتے ہیں، زکوۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ  لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی، یقیناً اللہ غالب اور حکیم ہے۔ ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ ان سدا بہار باغوں میں ان کے لئے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انہیں حاصل ہوگی، یہی بڑی کامیابی ہے۔  
(التوبہ۔۷۱۔۷۲)  
اسی سے ملتا جلتا مضمون آیت نمبر ۱۰۰؍ میں بھی ہے۔
lمبارک سودا:
 ’’بیشک اﷲ نے اہلِ ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال، ان کے لئے جنت کے عوض خرید لئے ہیں، (اب) وہ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں، سو وہ (حق کی خاطر) قتل کرتے ہیں اور (خود بھی) قتل کئے جاتے ہیں۔ (اﷲ نے) اپنے ذمۂ کرم پر پختہ وعدہ (لیا) ہے، تَورات میں (بھی) انجیل میں (بھی) اور قرآن میں (بھی)، اور کون اپنے وعدہ کو اﷲ سے زیادہ پورا کرنے والا ہے، سو (ایمان والو!) تم اپنے سودے پر خوشیاں مناؤ جس کے عوض تم نے (جان و مال کو) بیچا ہے، اور یہی تو زبردست کامیابی ہے۔‘‘ 
(التوبہ:۱۱۱)
lمہاجرین اورمجاہدین:
 ’’ اللہ کے ہاں تو انہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا وہی کامیاب ہیں۔‘‘ (التوبہ:۲۰) 
lدوزخ سے بچ کر جنت میں پہنچ گئے:  
 ’’ جو آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے وہی اصل میں کامیاب ہے (آل عمران ۔۱۸۵) 
  سورہ الحشر میں ہے:
 ’’اہلِ دوزخ اور اہلِ جنت برابر نہیں ہوسکتے، اہلِ جنت ہی کامیاب و کامران ہیں۔‘‘(الحشر: ۲۰)
lٹھیک بات کرنے والے:
 ’’ اے ایما ن لانے والو اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔ اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا۔ جو شخص اللہ اور رسول کی اطاعت کرے اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔‘‘ 
(الاحزاب:  ۷۰۔۷۱ )
lاللہ کے دوست:
 ’’سنو جو اللہ کے دوست ہیں،جو ایمان لائے جنہوں نے تقویٰ  اختیار کیا ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کیلئے بشارت ہی بشارت ہے۔ اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘(یونس:۶۲۔۶۴) 
lجو سزا سے بچ جائے:
 ’’ اس دن جو سزا سے بچ گیا اس پر اللہ نے بڑا رحم کیا اور یہی نمایاں کامیابی (فوز المبین) ہے۔‘‘(الانعام۔ ۱۶)
 مطلب یہ ہے کہ فوز، فوز عظیم اور فوز کبیر یہی ہے کہ مرنے کے بعد  اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت حاصل ہو جائے مگر یہ بھی ایمان، عمل صالح اور غلبہ ٔدین کی جد و جہد اور قربانی سے مشروط ہے۔
(۵) رضائے  الٰہی
 انسان کی اس سے بڑی خوش بختی اور کامیابی کیا ہو سکتی ہے کہ مالک کائنات اس سے راضی ہو جائے۔ ملاحظہ فرمائیے سورہ البینہ کی آیتیں:
 ’’جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کئے وہ خوش بخت ہیں، ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس ہے۔ دائمی قیام کی جنتیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہونگی، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔اللہ ان سے راضی ہواوہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہ سب کچھ ہے اس شخص کے لئے جس نے اپنے رب کا خوف کیا ہو۔  (البینہ ۔۷۔۸)

  سورہ الفجر  میں ہے:
 ’’ اے مطمئن نفس! اپنے رب کی طرف لوٹ جا اس حال میں کہ وہ تجھ سے راضی ہو اور تو اس سے راضی ہو۔شامل ہو جا میرے بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں۔‘‘ 
(الفجر:۲۷؍تا۳۰)
 سورہ المائدہ میں رب کی رضا کو بڑی کامیابی قرار دیا گیا:
 ’’ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے یہ بڑی کامیابی ہے۔ (المائدہ ۱۱۹)  
 سورہ توبہ میں ہے : 
 ’’ وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی نیز وہ جو بعد میں راست بازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے اللہ ان سے راضی ہوا وہ اللہ سے راضی ہوئے۔اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔یہی عظیم الشان کامیابی ہے۔‘‘(التوبہ ۱۰۰)     اسی سے ملتا جلتا مضمون آیت ۷۲؍ میں گزر چکا ہے۔
(۶)آگ سے بچاؤ 
 جہنم کی آگ سے اور دوزخ کے عذاب سے بچ جانا ہی در اصل نجات ہے اس لئے مومن یوں دعا  کرتا ہے: 
 ’’اے ہمارے رب دنیا اور آخرت میں ہمیں بھلائی عطا فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا۔‘‘ (البقرہ:۲۰۱)
   سورہ آل عمران (۱۸۵) میں فرمایا گیا : ’’جو آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے وہی کامیاب ہے۔‘‘
 
ایمان والوں کو حکم دیا گیا:
 ’’اے ایمان والو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچائو۔‘‘(التحریم :۶)
(۷)خوف اور رنج سے عافیت 
 اسی مفہوم میں قرآن مجید میں متعدد مقامات پر لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون آیا ہے یعنی انہیں نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اس کے لئے بھی ہدایت الٰہی کی پیروی، ایمان، نیک عمل اور انفاق فی سبیل اللہ وغیرہ ضروری ہیں:
’’بے شک وہ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس پر ثابت قدم رہے تو ایسے لوگوں کے لئے نہ کوئی خوف ہے اور نہ ہی وہ غمگین ہوتے ہیں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK