یہ سنت ِ الٰہی ہے کہ ہر وہ جماعت جس میں شکر کا جذبہ ہوگا وہی انعامات ِ الٰہی سے متمع ہوگی اور جو اس دولت سے محروم ہونگے ان کیلئے دنیا میں بھی محرومی ہے اور آخرت میں بھی۔ خدا کا یہ اٹل قانون ہے۔
EPAPER
Updated: May 03, 2025, 2:47 PM IST | Maulvi Dawood Akbar Islahi | Mumbai
یہ سنت ِ الٰہی ہے کہ ہر وہ جماعت جس میں شکر کا جذبہ ہوگا وہی انعامات ِ الٰہی سے متمع ہوگی اور جو اس دولت سے محروم ہونگے ان کیلئے دنیا میں بھی محرومی ہے اور آخرت میں بھی۔ خدا کا یہ اٹل قانون ہے۔
شکر ہر صحیح فطرت میں ودیعت ہے۔ کوئی متنفس اس جذبہ سے خالی نہیں ہے۔ ہر دل کی صدا ہے اس لئے اس کی صداؤں سے اعراض کرنا در حقیقت اپنی فطرت سے جنگ کرنا ہے۔ ہمارے باطن کی تمام کائنات اِسی چراغ سے روشن ہے اور پھر اسی کا پر تو ہے جو ہماری اس مادی زندگی کی ظلمتوں کو دور کرتا ہے۔ اگر انسان کے اندر یہ جذ بہ نہ ہو تو وہ بھی ایک حقیر جانو رہے۔ اسی سے انسان کی وہ اصلی خصوصیتیں ظہور میں آتی ہیں جن کی بدولت وہ دنیا و آخرت کی تمام سرفرا زیاں حاصل کرتا ہے۔ قران مجید میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام انسانی فضائل اخلاق اور تمام صحیح اعمال و عقائد کا سرچشمہ یہی ہے۔ یہ بابِ آخرت بھی ہے اور کلید دنیا بھی۔ روحِ اخلاق بھی ہے اور روح ِسیاست بھی۔ خلاصهٔ قران بھی ہے اور مقصود سنتِ نبویؐ بھی۔ پس جو شخص اس جذبہ سے محروم ہے وہ گو یا ہر چیز سے محروم ہے۔ یہ ایک چیز کھو کر اس نے گویا ہر چیز کھو دی۔
اس تمہید کے بعد ہم اجمالاً اس لفظ کی اصل حقیقت کی تشریح کرنا چاہتے ہیں ۔
شکر کا مفہوم: شکر نام ہے اس جذبۂ محبت کا جو خدا کی صفات ِ ربوبیت و رحمت میں غور کرنے سے پیدا ہوتا ہے، یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ شکر نام ہے اس کیفیت کا جو مظاہر ِ قدرت ربانی کے مشاہدہ سے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ اس کیفیت کا پہلا ثمرہ ایمان ہے۔ اگر یہ کیفیت نہ ہو تو دل کا تمام عالم یکسر ظلمات ہے اور قرآن مجید نے اس حالت کی تعبیر جس لفظ سے کی ہے وہ ’’کفر ‘‘ ہے۔
شکر مبادی دین کا سرچشمہ ہے: شکر تمام مبادی دین کا سرچشمہ ہے۔ اسی سے توحید و معاد کے اعتقاد کی راہ کھلتی ہے اور اسی سے آدمی کو ایمان بالرسالت کے لئے دلیل ہاتھ آتی ہے۔ ذیل میں اس دعوے کی بعض دلیلیں اجمالاً بیان کرنا چاہتے ہیں ۔ سورہ نساء میں ہے:
(۱)’’اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزار بن جاؤ اور ایمان لے آؤ، اور اللہ (ہر حق کا) قدر شناس ہے (ہر عمل کا) خوب جاننے والا ہے۔ ‘‘ (نساء:۱۴۷)
مذکورہ بالا آیت میں فرمایا ’’اگر تم نے شکر کیا اور ایمان لائے‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان کی اصل شکر ہے۔ آدمی میں جب یہ جذبہ زندہ ہوتا ہے تب ہی اس پر ایمان کی راہ کھلتی ہے۔
(۲)قرآن مجید میں سورہ فاتحہ تمام سورتوں سے پہلے ہے اور اس کے متعلق یہ بالاتفاق تسلیم ہے کہ وہ سورۂ شکر ہے۔ اس سے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ دین کی تمام تعلیمات کا سنگ بنیاد شکر ہے۔ اسی سے اس کے تمام مبادی پیدا ہوتے ہیں ۔ شاید اسی وجہ سے فاتحہ کا نام ’ام القرآن‘ بھی ہوا۔ اس تفصیل سے شکر کی مرکزیت ثابت ہوتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دینی و دنیاوی ترقیوں میں اس کا کہاں تک دخل ہے؟
شکر دینی و دنیاوی ترقی کی اساس ہے: قرآن پاک کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ شکر اسلامی زندگی کے لئے سراسر باعث حیات ہے اور اس کا فقدان اس کے لئے ہلاکت و تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ صدر اول کے مسلمانوں نے اسی حقیقت کو پا کر ایسی درخشاں ترقی کی کہ اس قسم کا عروج چشم فلک نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ لیکن جس وقت سے مسلمانوں نے اس عظیم الشان اصل کو چھوڑا، ان کی رفعتوں کا قصر آناً فاناً ڈھے گیا۔
یہ قصر آناً فاناً ڈھے جانے کے بعد نہ تو ان کے پاس تخت و تاج ہی رہا اور نہ اخلاقی طاقت ہی کے وہ مالک رہ گئے۔ اسی پر معاملہ ختم نہیں ہوا بلکہ اقوام عالم کی فہرست میں ان کا نام پست ترین قوموں کے سلسلہ میں آنے لگا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کا محض ایک سبب ہے۔ وہ اسی حقیقت کا (جسے شکر سے تعبیر کرتے ہیں ) فقدان ہے۔ یہ شاعری نہیں بلکہ حقیقت ِ ثابتہ ہے۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے :
’’اور (یاد کرو) جب تمہارے رب نے آگاہ فرمایا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں ) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقیناً سخت ہے۔ ‘‘ (ابراہیم:۷)۔ اس آیت میں تصریح ہے کہ یہ سنت ِ الٰہی ہے کہ ہر وہ جماعت جس میں شکر کا جذبہ ہوگا وہی انعامات ِ الٰہی سے متمع ہوگی اور جو اس دولت سے محروم ہوں گے ان کے لئے دنیا میں بھی محرومی ہے اور آخرت میں بھی۔ خدا کا یہ اٹل قانون ہے۔ اس میں تخلف ناممکن ہے۔ امت مسلمہ پر بھی خدا کی یہ سنت جاری ہوئی۔’’آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائیں گے۔ ‘‘ (احزاب:۶۲)
ایک دوسرے مقام پر یوں مذکور ہے:
’’اگر تم کفر کرو تو بے شک اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لئے کفر (و ناشکری) پسند نہیں کرتا، اور اگر تم شکر گزاری کرو (تو) اسے تمہارے لئے پسند فرماتا ہے، اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، پھر تمہیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے پھر وہ تمہیں اُن کاموں سے خبردار کر دے گا جو تم کرتے رہے تھے، بے شک وہ سینوں کی (پوشیدہ) باتوں کو (بھی) خوب جاننے والا ہے۔ ‘‘ (زمر:۷)
مذکورہ بالا آیت سے یہ ہویدا ہے کہ رضوان الٰہی کے حصول کا ذریعہ محض شکر ہے۔ اس کے بغیر نہ تو کسی کی آئندہ زندگی ہی کی تعمیر ممکن ہے اور نہ دنیا ہی میں کوئی نمایاں درجہ حاصل ہوسکتا ہے۔ اس لئے کہ ہر قسم کے امتیازوں کی کلید خدا ہی کے ہاتھ میں ہے۔ وہی جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل و رسوا کردیتا ہے۔ اور یہ معلوم ہے کہ اس کے تمام امور حکمت پر مبنی ہیں اسی لئے انعامات سے وہی لوگ لطف اندوز ہوں گے جو شکر کی دولت سے مالامال ہوں گے۔
اوپر کی تشریح سے یہ حقیقت ذہن نشین ہوگئی ہوگی کہ دینی و دنیاوی ترقیو ں کا حصول یکسر شکر پر مبنی ہے۔ اس کے بعد اب ہم بتانا چاہتے ہیں کہ انسان ہی کے لئے شکر کی صفت مخصوص نہیں ہے بلکہ کائنات کا ذرہ ذرہ خدا کی حمد و تسبیح میں مشغول ہے۔ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر ان کی نغمہ ریزی مذکور ہے:
’’اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں جو بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں ، اور وہی بڑی عزت والا بڑی حکمت والا ہے۔ ‘‘ (حدید:۱)
’’ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے اللہ کی تسبیح کرتی ہے۔ ‘‘ (تغابن:۱)
’’(ہر چیز) جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اللہ کی تسبیح کرتی ہے (جو حقیقی) بادشاہ ہے، (ہر نقص و عیب سے) پاک ہے، عزت و غلبہ والا ہے بڑی حکمت والا ہے۔ ‘‘ (جمعہ:۱)
’’اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے (سب) اسی کا ہے، سب اسی کے اطاعت گزار ہیں ۔ ‘‘ (روم:۲۶)
مذکورہ بالات آیات سے ظاہر ہے کہ خدا کی حمد و تسبیح انسانوں ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کی بے پناہ قدرت و جلال کا کلمہ پڑھ رہا ہے۔ کسی کو اس کی عبدیت سے انکار کی تاب نہیں ہے۔ سب کے سب اس کی حمد میں نغمہ ریز ہیں اور غافل انسان کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ بھی اپنا ساز چھیڑے تاکہ دونوں کے نغموں سے زمین و آسمان گونج اٹھیں ۔
سورہ نور، آیت نمبر ۴۱؍ میں ہے:
’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ (سب) اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں اور پرندے (بھی فضاؤں میں ) پر پھیلائے ہوئے (اسی کی تسبیح کرتے ہیں )، ہر ایک (اللہ کے حضور) اپنی نماز اور اپنی تسبیح کو جانتا ہے، اور اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے جو وہ انجام دیتے ہیں ۔ ‘‘
ایک دوسری جگہ یوں مذکور ہے:
’’اور جو کوئی (بھی) آسمانوں اور زمین میں ہے وہ تو اﷲ ہی کے لئے سجدہ کرتا ہے (بعض) خوشی سے اور (بعض) مجبوراً اور ان کے سائے (بھی) صبح و شام۔ ‘‘ (رعد:۱۵)
مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ شکر ایسا فریضہ ہے جس سے کائنات کا کوئی ذرہ بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ سورہ رحمٰن آیت:۵؍ میں ہے :
’’سورج اور چاند (اسی کے) مقررّہ حساب سے چل رہے ہیں ۔ ‘‘
اس آیت سے معلوم ہوا کہ شمس و قمر کا ایک خاص مقدار سے اپنی اپنی حدود میں چکر لانا، یہی ان کی نماز ہے۔ ایک اور مقام پر اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا:
’’وہ پاک ہے اور ان باتوں سے جو وہ کہتے رہتے ہیں بہت ہی بلند و برتر ہے، ساتوں آسمان اور زمین اور وہ سارے موجودات جو ان میں ہیں اﷲ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں ، اور (جملہ کائنات میں ) کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح (کی کیفیت) کو سمجھ نہیں سکتے، بیشک وہ بڑا بُردبار بڑا بخشنے والا ہے۔ ‘‘ (بنی اسرائیل: ۴۳۔ ۴۴)
الغرض قرآن پاک میں متعدد بجا ایسی آیات مذکور ہیں جن سے شکر کی ہمہ گیری اور فطرت ِ کائنات ہونا معلوم ہوتا ہے۔ شکر گزاروں کیلئے خدا کی طرف سے دنیا میں بھی تائید ہوتی ہے اور آخرت میں بھی۔ دونوں جگہ وہی اس کے الطاف کے مستحق ہوں گے جو اس کا شکر بجالائیں گے۔ قوم ِ لوط ناشکری کی بناء پر ہلاک کردی گئی تھی جبکہ لوطؑ اور ان کی اتباع کرنے والوں پر شکرگزاری کی برکت سے آنچ تک نہیں آئی۔