ایک مسلمان کو ہر طرح کے گناہ سے بچنا چاہئے لیکن خاص طور پر دو طرح کے گناہ ایسے ہیں جن پر سخت وعید آئی ہے جب کہ ہمارے معاشرہ میں ان گناہوں سے کافی غفلت برتی جاتی ہے
EPAPER
Updated: July 17, 2020, 10:49 AM IST
|
Mufti Tanzeem Alam Qasmi
ایک مسلمان کو ہر طرح کے گناہ سے بچنا چاہئے لیکن خاص طور پر دو طرح کے گناہ ایسے ہیں جن پر سخت وعید آئی ہے جب کہ ہمارے معاشرہ میں ان گناہوں سے کافی غفلت برتی جاتی ہے اللہ تعالیٰ ان گنت خوبیوں اور کمالات کا مالک ہے۔ قرآن کریم میں ان میں سے بعض کا تذکرہ ہے اور بعض کا احادیث میں۔ وہ قہار اور رزاق ہے، سمیع اور بصیر ہے، علیم اور خبیر ہے، جبار اور متکبر ہے اور اس طرح دیگر ناقابل تصورصفات اس میں جمع ہیں لیکن صفت رحمت سب سے زیادہ غالب ہے۔ اس لئے اس کا وصف رحمان بیان کیا گیا اور ایک وصف رحیم بھی۔ رحمان اس ذات کو کہا جاتا ہے جس کی رحمت سب کو محیط ہو، کسی جنس، نوع، قوم، علاقہ یا ملک اور زمانہ کے ساتھ خاص نہ ہو، اور وہ ذات صرف اللہ کی ہے جس کی رحمت انسان و جنات اور فرشتوں سے لے کر چرند و پرند اور نباتات و جمادات ہر ایک کو شامل ہے۔ انسانوں میں بھی خواہ مسلمان ہو یا کافر، فاجر ہو یا فاسق ہر ایک اس کی رحمت کے سائے میں زندگی گزار رہا ہے۔ رحیم کہا جاتا ہے جس کی رحمت کامل و مکمل ہو، اللہ تعالیٰ انسان کو پیدا کرنے کے بعدسے اس کی موت تک رزق اور ساری ضرورتوںکا انتظام کرتا ہے، اسی طرح ہر مخلوق کے ساتھ اس کا یہی معاملہ ہے، اس لئے اللہ کی ذات رحیم بھی ہے، اس طرح اس کی رحمت و شفقت عام بھی ہے اور تام بھی ۔
یہ اس کی رحمت کاملہ ہی تو ہے کہ وہ ہم کو سارے گناہوں کے باوجود رزق دے رہا ہے، ہماری ساری ضرورتیں پوری کر رہا ہے، ورنہ ہمارے اتنے گناہ اور اتنی نافرمانیاں ہیں کہ ہم ان نعمتوں کے ہرگز قابل نہیں۔ اس کی رحمت کا مظہر یہ بھی ہے کہ بندے سے اگر گناہ سرزد ہوجائے اور پھر وہ اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے صدق دل سے توبہ و استغفار کرے تو اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو یکلخت مٹا دیتا ہے اور اس طرح مٹاتا ہے کہ دوبارہ قیامت کے دن ان گناہوں کے بارے میں مؤاخذہ نہیں ہوگا اور نہ ان کو ظاہر کرکے بندے کو رسوا کیا جائے گا گویا ریکارڈ سے ہی ان گناہوں کو حذف کردیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنی ایک صفت عَفُوّ یعنی بہت زیادہ معاف کرنے والا بیان کیا ہے۔ عربی زبان میں عَفُوّ کے معنی مٹانے کے ہیں، جس میں گناہوں کو بالکل ہی مٹادینے کی طرف اشارہ ہے۔ یہ اور اس طرح کی بے شمار مثالیں ہیں کہ انسان اپنی زندگی میں غور کرے تو قدم قدم پر اس کی شان کریمی و غفاری نظر آئے گی تاہم اس قدر اس کی رحمت کے باوجود دو گناہ ایسے ہیں جن کو اللہ معاف نہیں کرتا۔
پہلا گناہ تو وہ ہے جس کی قباحت اور سزا جاننے کے باوجود اس کا ارتکاب کیا جائے۔ گناہ کی ایک شکل تو یہ ہے کہ انسان کو اس کے گناہ ہونے کا علم ہی نہ ہو، عدم واقفیت کے سبب گناہ سرزد ہوجائے یا گناہ ہونے کا علم ہو مگر اس کی سزا اور اس کی قباحت نہ جانتا ہو۔ اس کو قرآن نے جہالت سے تعبیر کیا ہے، ایسے گناہ سچی توبہ سے معاف ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے لیکن گناہ ہونے کا علم ہو اور اس کی شدت کا بھی مگر جان بوجھ کر اس کو کیا جائے، یہ جسارت ہے جو اللہ کے نزدیک جرم عظیم ہے۔ اسی لئے قرآن میں توبہ کی قبولیت کو جہالت سے مشروط کیا گیا ہے، ارشاد باری ہے: ’’یہ جان لو کہ اللہ پر توبہ کی قبولیت کا حق ان ہی لوگوں کے لئے ہے جو نادانی کی وجہ سے کوئی برا فعل کر گزرتے ہیں اور اس کے بعد جلدی ہی توبہ کر لیتے ہیں، ایسے لوگوں پر اللہ اپنی نظر عنایت سے پھر متوجہ ہوجاتا ہے اور اللہ ساری باتوں کی خبر رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے ۔‘‘( النساء:۱۷)
اللہ کو انسان کا تواضع اورعاجزی بہت پسند ہے اور یہی عبد کا مفہوم بھی ہے لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر گناہ کرے اور گناہ پر گناہ کرتا جائے تو یہ نہایت بے حسی اور خدا پرڈھٹائی کی بات ہے، گویا وہ اپنے عمل سے اس کے عذاب کو دعوت دے رہا ہے، جیسے آج کل بہت سے لوگ مختلف برائیوں کا یہ سوچ کر ارتکاب کرتے ہیں کہ اللہ معاف کرنے والا ہے بعد میں توبہ کرلیں گے۔ اس طرح کے تصورات ہمارے بہت سے نوجوانوں کے ذہنوں میں ہوتے ہیں جن کے سبب وہ ایسی ایسی برائیوں اور بے حیائیوں کے شکار ہوتے ہیں کہ اللہ کی پناہ! آج کوئی بھی اخبار لیجئے جرائم کی ایک طویل فہرست ملے گی جس میں دیگر قوموں کے ساتھ مسلمان بھی شریک ہوتے ہیں۔ زنا، شراب نوشی، قتل و غارت گری ، جھوٹ، غیبت، دھوکہ دہی ، سٹہ بازی، سود خوری وغیرہ کون ساایسا گناہ ہے جس سے ہمارا معاشرہ پاک ہے اور جس کی قباحت ومعصیت کا پہلے سے علم نہ ہو؟ گویا جان بوجھ کر گناہ کیا جارہا ہے، یہ بڑی جرأت اور جسارت ہے جس میں کبر شامل ہے اور اللہ کو کبر ہرگز پسند نہیں، اسی لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے توبہ کی قبولیت کا اصول صاف طور پر بیان کردیا ہے کہ ناواقفیت اور نادانی سے کوئی صغیرہ یا کبیرہ گناہ سرزد ہو جائے اور پھر وہ ندامت کے ساتھ میری طرف رجوع کرے تو میں اس کے گناہ کو معاف کردیتا ہوں لیکن جس نے جان بوجھ کر دیدہ و دانستہ گناہ کیا اس کی توبہ قبول کرنا میرے ذمہ نہیں ہے۔ اللہ نے جس تیور کا اس میں اظہار کیا ہے وہ نہایت سخت اور لرزہ پیدا کردینے والا ہے۔
دوسرا وہ گناہ بھی ناقابل معافی ہے جس کا ارتکاب کرنے والا شخص اپنے دوست احباب کے پاس بیان کرتا پھرے۔ گناہ چھپانے کی چیز ہے لہٰذا حیا اور خوف خدا کا تقاضا ہے کہ کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس پردہ ڈالا جائے اور ہرممکن اس کو چھپانے کی کوشش ہو اور اللہ سے اس کی مغفرت طلب کی جائے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص کسی معصیت کا ارتکاب کرے اور پھر لوگوں کے سامنے اس کو بولتا پھرے تو اس حرکت پر اللہ سخت غضبناک ہوتا ہے اور اس گناہ کو وہ معاف نہیں کرتا، کیونکہ اپنے گناہ کو عام کرنے اور لوگوں کے سامنے اظہار کا مطلب ہے کہ ایسے شخص کو اپنی حرکت پر ندامت نہیں، نہ عذاب کا خوف ہے اور نہ گرفت کا احساس، گویا وہ اپنے گناہ پر سخت جری ہے۔ ظاہر ہے کہ جس شخص کو اپنی معصیت پر ندامت کے بجائے جسارت اور تکبر ہوجائے اس کی معافی کا کیا سوال ہے؟ اسی لئے رسول اکرم ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا ’’میری امت کے ہر فرد کو معاف کردیا جائے گا سوائے ان لوگوں کے جو اپنے عیوب اور گناہوں کو ظاہر کرتے ہیں، بلاشبہ یہ بات بڑی جسارت کی ہے کہ کوئی شخص رات میں کوئی برا کام کرے اور جب وہ صبح ہو تو جس کو اللہ نے چھپا لیا تھا اس کو وہ لوگوں سے کہتا پھرے کہ اے لوگو! میں نے گزشتہ رات ایسا ایسابرا کام کیا ہے حالاں کہ اس کے پروردگار نے تو رات میں اس کے گناہ کی پردہ پوشی کی تھی اور اس نے صبح ہوتے ہی اللہ کے پردے کو چاق کردیا۔‘‘ (صحیح بخاری)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں کا اعلان کرنا ناقابل معافی جرم ہے ۔ آج کل بہت سے نوجوان مختلف طرح کے گناہ اور معصیت انجام دینے کے بعد شرم کرنے کے بجائے اسے اپنے دوستوں میں خوب مزے لے کر بیان کرتے ہیں اور اس طرز کو فخر کا ذریعہ سمجھاجاتا ہے، ایسے وقت شاید وہ بھول جاتے ہیں کہ اس عمل کے ذریعے اس قہار کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں جس نے نافرمانیوں پر ڈھٹائی اوربے شرمی کے جرم میںقوم عاد وثمود کو تباہ کردیا تھا۔ یہ تو اللہ کی بے پایاں مہربانی ہے کہ اتنے جرم کے باوجود وہ ہمیں ڈھیل اور مہلت دے رہا ہے اور اب بھی ہمارے اوپر رحمت کی چادر ڈال رکھی ہے ورنہ وہ جب چاہے ہماری گرفت کرسکتا ہے، اس لئے اپنی برائیوں پر فوراً رونے اور توبہ و استغفار کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ان پر جسارت اور ڈھٹائی کی