عقلِ سلیم کی دولت سے مالا مال افراد تجربے کی روشنی میں اِس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ دوسروں کے تعلق سے اچھی سوچ رکھنے سے دل کوبہت سکون ملتا ہے۔
EPAPER
Updated: December 25, 2020, 10:30 AM IST
|
Mudassir Ahmed Qasmi
عقلِ سلیم کی دولت سے مالا مال افراد تجربے کی روشنی میں اِس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ دوسروں کے تعلق سے اچھی سوچ رکھنے سے دل کوبہت سکون ملتا ہے۔ عقلِ سلیم کی دولت سے مالا مال افراد تجربے کی روشنی میں اِس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ دوسروں کے تعلق سے اچھی سوچ رکھنے سے دل کوبہت سکون ملتا ہے۔ اِس عمل سے سب سے پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان بدگمانی اور پریشان کن خیالات سے آزاد ہوجاتا ہے، جس سے یقیناً ذہن و جسم کو تسکین حاصل ہوتی ہے۔ اچھی سوچ سے جہاں ربطِ باہمی کو تقویت ملتی ہے، وہیں محبت کے پھول بھی کھلے رہتے ہیںاور دل بغض و عداوت اور نفرت سے پاک ہوتا ہے۔
دوسروں کے حوالے سے اچھی سوچ رکھنے کے لئے ہی نبی اکرم ﷺ نے ہمیں مندرجہ ذیل عمل سے بچنے کی تعلیم دی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا: ’’بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، دوسروں کی ٹوہ میں نہ لگو، دوسروں کی جاسوسی نہ کرو، نہ دوسرے پر بڑھنے کی بے جا ہوس کرو، نہ آپس میں حسد رکھو، نہ بغض رکھو اور نہ ہی ایک دوسرے سے منہ پھیرو، اور اے اللہ کے بندو بھائی بھائی بن کر رہو۔‘‘ (بخاری ومسلم)
یقین جانئے! اگر مسلمانوں نے صرف حدیث میں مذکور باتوں پر عمل کرلیا تو اُن کے مخالفین اور دشمنوں کو اُن پر چوطرفہ حملہ کرنے کی کبھی بھی جرأت نہ ہوگی اور’’پھوٹ ڈالو،حکومت کرو‘‘کی اُن کی پالیسی کی ہوا بھی نکل جائے گی؛ کیونکہ اِس صورت میں مسلمانوں کے پاس اتحاد کی قوت ہوگی اور سب جانتے ہیں کہ اتحاد کو شکست دینا کبھی بھی آسان نہیں رہا ہے۔
دوسروں کے بارے میں اچھی سوچ رکھنے کے مختلف زاویئے ہو سکتے ہیں، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ ہم دوسروں کی نیت کے بارے میں غلط فیصلہ نہ کریں۔ ہمارا یہ عمل دوسروں کے تعلق سے ہماری سوچ کو پاکیزہ رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یادرکھئے! ہمیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے نہ ہی دوسروں کے دل کے بھید کو جاننے اور نہ ہی نیت کو ٹٹولنے کا مکلف بنایا ہے۔اگر ہم دوسروں کی نیتوں پر حملہ کرتے رہے تو لوگ ہم سے قریب ہونے کے بجائے ایک ایک کرکے دور ہوتے جائیں گے اور ایک وقت ایسا آئے گا جب ہم اکیلے رہ جائیں گے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ لوگ کبھی کبھار بغیر ارادے کے بھی غلطی کر بیٹھتے ہیں، اس لئے ایسے لوگوں کے ساتھ ہمارا رویہ رحمدلانہ ہونا چاہئے تاکہ اُن کو اپنی غلطی سُدھارنے میں مدد ملے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم دوسروں کی غلطی تلاش کرتے رہیں اور اپنے آپ کو پارسا سمجھتے رہیں۔ اِس روش کو اپنانے سے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع فرمایا ہے: ’’پس تم اپنی پاکیزگی آپ بیان نہ کرو؛ وہی پرہیزگاروں کو خوب جانتاہے۔‘‘ (سورہ نجم:۳۲)
دوسروں کے لئے اچھی سوچ کا ایک معیار یہ بھی ہے کہ ہم عفو و در گزر کا معاملہ روا رکھیں۔ جب کوئی آدمی ہم سے کوئی ایسی بات کہتا ہے یا ہمارے ساتھ کوئی ایسا برتائو کرتا ہے ، جس سے ہمیں غصہ آتا ہے یا ہم پریشان ہوجاتے ہیں تو ایسے موقع سے ہمیں اپنے نفس پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہمیں یا تو سامنے والے کے سخت عمل کی کوئی وجہ تلاش کرلینی چاہئے یا اُس کو معذور سمجھ کر معاف کر دینا چاہئے۔ ابن ِسیرین ؒنے فرمایا: ’’اگر تمہیں یہ معلوم ہو کہ کسی بھائی نے تم کو قول یا عمل سے نقصان پہنچایا ہے تو تمہیں اُس کی کوئی وجہ تلاش کرنی چاہئے اور اگر کوئی وجہ نہ تلاش کر سکوتو تم یہ کہو کہ`کوئی وجہ ہوگی جو مجھے معلوم نہیں ہے`۔‘‘ اس طرح کی کوشش جہاں ہمیں ذہنی اذیت سے بچائے گی وہیں دوسروں کو بہت زیادہ بُرا بھلا کہنے کی عادت سے چھٹکارا بھی دلائے گی۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ سامنے والا ہم سے کچھ اور کہنا چاہتا ہے اور ہم کچھ اور سمجھ جاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم بدگمان ہو جاتے ہیں اور ہماری سوچ مد مقابل کے بارے میں منفی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اس حوالے سے ایک بزرگ کا یہ قول ذہن نشین رکھنے کے قابل ہے کہ `کسی لفظ کا اُس وقت تک غلط مطلب نہ نکالو جب تک کہ اُس لفظ سے کوئی نہ کوئی صحیح معنیٰ نکلنے کا امکان ہو۔ اس کو ایک واقعہ سے ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ ایک صاحب بیمار تھے۔ کچھ افراد ، اُن کی عیادت کے لئے پہنچے۔ اُن میں سے ایک نے کہا:`اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کی کمزوری کو طاقت سے بدل دے (اُن کی نیت یہ تھی کہ بیماری کے سبب جو کمزوری ہوگئی ہے ، اللہ تعالیٰ اُس کو دور کرے)۔ مریض نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے میری کمزوری کو طاقت سے بدل دیا تو میں ہلاک ہوجائوں گا (یعنی بشری کمزوری)۔ عیادت کرنے والے نے کہا میری مراد اچھی ہے یعنی آپ کی صحت ہے۔ `اس واقعہ سے ہم اِس نتیجے پر پہنچے کہ کسی بھی رد عمل سے پہلے سامنے والے کی بات کو اچھی طرح سمجھنا ازحد ضروری ہے۔ جس طرح بولنے سے پہلے تولنا ضروری ہے اسی طرح کسی کی کہی ہوئی بات کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔
کسی کے بھی تعلق سے اچھی سوچ کا حامل بننا کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے۔ البتہ اس کے لئے اپنے آپ کو ٹریننگ دینے کی ضرورت ہوتی ہے اور اپنے نفس کے خلاف جد و جہد درکار ہوتی ہے اور یہ اِس وجہ سے ہے کہ شیطان ہمیشہ انسان کو اُکسا کر راہِ راست سے ہٹانے کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں فکر ِ صالح اور پاکیزہ دل سے نوازے اور اپنے تمام بھائیوں، بہنوں اور دیگر متعلقین کے تئیں اچھی سوچ اور مثبت خیالات کا حامل بنائے!آمین