قرآن شریف نے اپنے ماننے والوں کواس غلط فہمی میں مبتلانہیں ہونے دیاکہ اسلام کے دامن میں پناہ لینے سے وہ اب ہرطرح کی مصیبتوں اور تکلیفوں سے بچ گئے۔ البتہ قرآن شریف نے مسلمانوں کو صبر کی ایک ڈھال دے دی جس سے وہ مصائب و حوادثات کے بے رحم حملوں سے اپنا بچاؤ کرسکتے ہیں۔
کروڑہا احسان پروردگار عالم کا جس نے ہمیں اشرف المخلوقات کی حیثیت سے پیدا فرما کر احسن تقویم کے شرف سے مشرف فرمایا۔ مزید احسان عظیم یہ کہ اپنے حبیب رحمت عالم، نور مجسم، سرورکائنات حضرت محمد ﷺ کی امت میں پیدا فرما کر ’’خیر امت‘‘ کے لقب سے مالامال فرمایا۔ بندوں پرلازم ہے کہ وہ بہرحال اپنے خالق کاشکربجالائیں ، خواہ حالات کیسے بھی ہوں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ننانوے اسماءمیں ایک اسم ’’حکیم‘‘ ہے جس کا معنی ہے حکمت والا۔ وہ کسی کودولت عطافرماکر امتحان لیتاہے تو کسی کو دولت سے محروم کرکے آزماتاہے۔ فلاح وکامرانی اسی کا مقدر ہے جو دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔ ایک کامل مومن کی یہ شان نہیں کہ وہ حالات سے گھبراکر شکوہ و شکایت کرنے لگے، بلکہ مومن کامل کا کردار درج ذیل شعر کے مصداق ہوتا ہے:
زباں پر شکوۂ رنج والم لایانہیں کرتے
نبی کے نام لیواغم سے گھبرایانہیں کرتے
رب تبارک و تعالیٰ قرآن عظیم میں ارشادفرماتاہے: ’’ اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں ، جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں : بیشک ہم بھی اﷲ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے پے در پے نوازشیں ہیں اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔‘‘ (سورہ البقرہ:۱۵۵؍ تا ۱۵۷)
صدرالافاضل حضرت علامہ سید نعیم الدین اشرفی مرادآبادی قدس سرہ ان آیات کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’آزمائش سے فرمانبردار و نافرمان کے حال کا ظاہر کرنا مراد ہے۔ امام شافعیؒ نے اس آیت کی تفسیرمیں فرمایا کہ خوف سے اللہ کا ڈر، بھوک سے رمضان کے روزے، مالوں کی کمی سے زکوٰة و صدقات دینا، جانوں کی کمی سے امراض کے ذریعہ موتیں ہونا، پھلوں کی کمی سے اولادکی موت مرادہے اس لئے کہ اولاد دل کاپھل ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں ہے سیدعالم ﷺ نے فرمایا: جب کسی بندے کابچہ مرتاہے تو اللہ تعالیٰ ملائکہ سے فرماتا ہے کہ تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کی؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ ہاں یارب! پھرفرماتا ہے تم نے اس کے دل کا پھل لے لیا؟ عرض کرتے ہیں ہاں یارب! فرماتاہے: اس پر میرے بندے نے کیا کہا؟ عرض کرتے ہیں : اس نے تیری حمدکی اور اناللہ واناالیہ رٰجعون پڑھا۔ اللہ فرماتاہے اس کے لئے جنت میں مکان بنادو اور اس کانام ’’بیت الحمد‘‘ رکھو ۔
حکمت: مصیبت کے پیش آنے میں کئی حکمتیں ہیں ۔ ایک تویہ کہ اس سے آدمی کو وقت ِ مصیبت صبرآسان ہو جاتا ہے۔ ایک یہ کہ جب کافردیکھیں کہ مسلمان بلا ومصیبت کے وقت صابر وشاکر اور استقلال کے ساتھ اپنے دین پرقائم رہتاہے تو انہیں دین کی خوبی معلوم ہو اور اس کی طرف رغبت ہو ۔ ایک یہ کہ آنے والی مصیبت کی قبل وقوع اطلاع غیبی خبراور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے۔ ایک حکمت یہ کہ منافقین کے قدم ابتلاء (مصیبت میں مبتلاہونے کی) کی خبرسے اکھڑجائیں اور مومن و منافق میں امتیاز ہوجائے۔ حدیث شریف میں ہے کہ مصیبت کے وقت اناللہ … پڑھنا رحمتِ الٰہی کاسبب ہوتاہے۔ یہ بھی حدیث میں ہے کہ مومن کی تکلیف کو اللہ تعالیٰ کفارہ گناہ بنا دیتا ہے۔‘‘ (خزائن العرفان)
مندرجہ بالاآیات کی تفسیر میں حضرت پیرکرم شاہ ازہری رقمطرازہیں : ’’جب تک انسان اس دنیا میں ہے رنج وغم اور مصیبت و الم سے اُسے کم وبیش دوچار ہونا ہی پڑتا ہے۔ قرآن شریف نے اپنے ماننے والوں کواس غلط فہمی میں مبتلانہیں ہونے دیاکہ اسلام کے دامن میں پناہ لینے سے وہ اب ہرطرح کی مصیبتوں اور تکلیفوں سے بچ گئے۔ البتہ قرآن شریف نے مسلمانوں کو صبر کی ایک ڈھال دے دی جس سے وہ مصائب و حوادثات کے بے رحم حملوں سے اپنابچاؤکرسکتے ہیں ۔ انہیں ایک ایساعقیدہ دے دیاجوان کے سکون و قرار کو نازک ترین لمحوں میں بھی سلامت رکھ سکتاہے۔ ہرشخص جانتا ہے کہ جس کے ہاتھ سے صبرکادامن چھو‘ٹ گیا اس میں مقابلہ کی ہمت ختم ہوجاتی ہے اور مصیبتیں اسے خس وخاشاک کی طرح بہالے جاتی ہیں لیکن اگراللہ تعالیٰ پرتوکل کرتے ہوئے مصائب کے سامنے ڈٹا رہے تویہ کالے بادل خودبخودچھٹ جاتے ہیں ۔‘‘ (ضیاءالقرآن)
حکیم الامت حضرت مفتی احمدیارخان نعیمی اشرفی قدس سرہ‘ نے مندرجہ بالاآیات کی بہت طویل تفسیر تحریرفرمائی ہے، یہاں محض خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔ فرماتے ہیں : ’’رب تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مصیبتوں سے پہلے ہی اس کی خبردے کراس کا علاج بتایا اور صابرین کے درجات بیان کئے تاکہ وقت مصیبت صبرآسان ہو، کیونکہ بے خبری کی اچانک بلابہت بھاری ہوتی ہے۔ نیزاس لئے کہ کفار مصیبتوں میں مسلمانوں کا استقلال دیکھ کراسلام کی حقانیت کایقین کریں ۔ نیزاس لئے کہ ابھی سے منافق اور مومن کی پہچان ہوجائے کہ منافق تو گھبرا جائے اورمومن صبرکیلئے تیار ہوجائے۔ نیزاس لئے کہ اس میں غیب کی خبرہو اور نبی علیہ السلام کامعجزہ تاکہ آئندہ مصیبتیں دیکھ کر ان کا ایمان اور کامل ہوجائے کہ دیکھو جوہمارے پیغمبرنے خبردی وہ پوری ہوگئی یا سچ ثابت ہوئی۔ غرضیکہ صدہا وجوہ سے مسلمانوں کو پہلے سے اطلاع دی جارہی ہے کہ اے مسلمانو چونکہ تم بہترین امت ہو اور بڑوں کا امتحان بھی بڑا ہوتا ہے اس لئے کئی مضمونوں میں ہم تمہارا امتحان لیں گے۔ ‘‘
مسلمانوں کوچاہئے کہ’’راضی برضائے الٰہی ‘‘ و ’’مرضئ مولیٰ ازہمہ اولیٰ‘‘ پر عامل اور قائم ودائم رہیں اور ہر حال میں شکر الٰہی ادا کرتے رہیں ، اسی میں دونوں جہان کی فلاح و کامرانی ہے۔