Inquilab Logo Happiest Places to Work

کانگریسی ہی کانگریس کو بلیک میل کرتے ہیں

Updated: November 09, 2021, 12:46 PM IST | Kamaal Hassan | Mumbai

راہل گاندھی کو بھی اب ان تمام بڑے بڑے ناموں اور چہروں کو باہر کا دروازہ دکھا دینا چاہئے جو یہ سمجھتے ہیں کہ کانگریس ان کے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔ یا جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہائی کمان میں اتنا دم نہیں ہے کہ ان کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکے۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

گزشتہ دنوں چند ضمنی انتخابات کے نتائج آئے۔ضمنی انتخابات عام طور پر بہت زیادہ اہمیت کے قابل نہیں سمجھے جاتے۔ کیونکہ جن ریاستوں میں بھی ضمنی انتخابات ہوتے ہیں،ان ریاستوں میں جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے، زیادہ تر اسی پارٹی کے امیدوار جیت جاتے ہیں۔ لیکن مذکورہ ضمنی انتخابات کی نوعیت قدرے مختلف بھی تھی اور دلچسپ بھی۔ ایک  تو تین  لوک سبھا اور ۲۶؍ اسمبلی سیٹوں پر ایک ہی دن انتخابات ہوئے تھے،دوسرے یہ انتخابا ت ملک کےپورپ ، پچھم، اتر، دکھن کی کئی ریاستوں میں بکھرے ہوئے تھے۔  انتخابات کے نتائج بھی قدرے مختلف اور دلچسپ تھے۔ تین  لوک سبھا سیٹوں میں سے صرف ایک مدھیہ پردیش کی سیٹ  بی جے پی کے ہاتھ آئی۔ باقی دومیں دادرا نگر حویلی کی سیٹ شیو سینا کو ملی۔ جو مہاراشٹر سے باہر ملنے والی  ریاست  کی پہلی  سیٹ ہے۔  ہماچل کے ضمنی  انتخابات کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ منڈی کی جو پارلیمانی سیٹ  کانگریس کو ملی۔ اس پارلیمانی  حلقہ  انتخاب میں اسمبلی کے ۱۷؍ اسمبلی حلقے شامل ہیں۔ ہر حلقے میں کانگریس بی جے پی  سے آگے رہی۔بی جے پی کے ہاتھ کانگریس سے ایک کم سیٹ لگی۔ لیکن پارٹی کے صدر جے پی  نڈّا نے ہار کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے ۷؍ سیٹیں جیتنے پر بی جے پی کے امیدواروں، کارکنوں اور خاص طور پر نریندر مودی کو مبارک باد  دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ  نڈّا ہماچل پردیش سے آتے ہیں اور پارٹی کی سب سے بری  ہار ہماچل پردیش ہی میں ہوئی۔ یہی  نہیں  ہماچل پردیش کے چیف منسٹر نے پارٹی کی ہار کا سبب مہنگائی کو بتایا اور کہا کہ کانگریس نے مہنگائی کے ایشو کو بہت اچھی طرح بھنایا۔ لیکن کانگریس  کی فتح پر کانگریس کے نام نہاد لیڈروں کے منہ  سے تعریف کا ایک لفظ بھی نہ نکلا۔ صرف پی چدمبرم نے خوشی کا اظہارکیا۔  در اصل کانگریس پارٹی میں جو چند بڑے بڑے نام ہیں۔ وہ صرف بڑے نام ہی نہیں بڑے لوگ بھی ہیں۔ وہ جن شعبوں اور جن پیشوں سے بھی وابستہ ہیں، ان شعبوں اور ان پیشوں  میںبہت عالی مقام سمجھے جاتے ہیں۔اس وجہ سے وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ انہیں کانگریس میں بھی ویسا ہی عالی مقام دیا جائے۔ ایسا نہیںہے کہ ان کانگریس ہائی کمان نے کبھی ان کو ان کے لائق مرتبہ نہ دیا ہو یا دینے سے انکار کیا ہو۔ لیکن چونکہ یہ لوگ فکری اور ذہنی اعتبار سے خود کو کانگریس ہائی کمان سے برتر سمجھتے ہیں،اس لئے چاہتے ہیں کہ کانگریس جو بھی پالیسی بنائے یا جو بھی قدم اٹھائے، وہ ان کے مشورے اور رہنمائی کے بغیر نہ اٹھائے۔ جب یہ دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو رہا ہے تو طعنہ زنی اور بیان بازیوں پر اتر آتے ہیں۔ اور گودی میڈیا والے ان بیانوں کو لے اڑتے ہیں۔ یہ لوگ کہنے لگتے ہیں کہ پارٹی میں کسی کو نہیں معلوم کہ  فیصلے کون کرتا ہے۔ کیونکہ کانگریس کے پاس کوئی کل وقتی صدر نہیں ہے۔ اشارہ یہ ہوتا ہے کہ مسز سونیا گاندھی توخرابیٔ صحت کے سبب اتنا بوجھ اٹھا نہیں سکتیں اور راہل گاندھی میں اتنی صلاحیت نہیں کہ وہ یہ بوجھ اٹھا سکیں۔ لیکن ان لوگوں نے ، جنہیں جی ۲۳؍ بھی کہا جاتا ہے، کبھی یہ نہیں بتایا کہ ان میں سے کون ہے جو اس بوجھ کو اٹھانا چاہتا ہے یا اٹھا سکتاہے۔ سونیا گاندھی  جس تندہی سے کام کرتی ہیں وہ یہ ۲۳؍ کے ۲۳؍  مل کر بھی نہیں کر سکتے۔ ان میں سے کتنے ہیں جو اپنے جلسے کے لئے  سو لوگ بھی اکٹھا کر سکتے ہوں۔ اور ایسا بھی نہیں  ہے کہ ان لوگوں کو کبھی بوجھ اٹھانے کی دعوت ہی نہ دی گئی ہو۔ راج ببر اتر پردیش کانگریس کے صدر بنائے گئے تھے۔ کارکنوں کی کتنی بڑی فوج انہوں نے یوپی میں بنالی تھی؟ غلام نبی آزاد پارٹی کے جنرل سکریٹری تھے۔ وہ تو چھوٹی سی  ریاست جموں کشمیر میں بھی پارٹی کو نہ سنبھال سکے۔ آنند شرما اور منیش تیواری نے کانگریس کو پنجاب میں کتنا مضبوط کیا؟
 کانگریسیوں کا ایک اور طبقہ ہے، جسے ’’جنتا کی سیوا‘‘ کرنے کا بڑا شوق ہے۔ لیکن اس کا المیہ یہ ہے کہ وہ کسی کرسی پر بیٹھ کر ہی ’’جنتا کی سیوا‘‘ کر سکتا ہے۔ کرسی بھی وہ جس پرکسی وزارت بلکہ وزارت اعلیٰ کا عہدہ چسپاں ہو۔ جب ہائی کمان انہیں وہ کرسی  نہیںدیتی  تو وہ اِدھر اُدھر  جھانکنے لگتے ہیں کہ یہ کرسی  انہیں کون دلا سکتا ہے۔ 
 جیوتر آدتیہ سندھیا ہی کو لے کیجئے۔ سوائے اس کے کہ وہ راجیو گاندھی کے جگری دوست مادھو رائو سندھیا کے بیٹے تھے، کون سی لیاقت تھی ان کے پاس؟ کیا  نہیں  دیا انہیں کانگریس کی ہائی کمان نے ؟ لیکن ان کی ضد تھی کہ بزرگ اور تجربہ کار دگ وجے سنگھ اور کمل ناتھ کو  ایک طرف رکھ کے انہیں مدھیہ پردیش کا چیف منسٹر بنایا جائے، جب یہ نہیں ہو سکا تو وہ سب کچھ بھول بھال اور چھوڑ چھاڑ کر بی جے پی میں چلے گئے۔ وہاں بھی ا نہیں کیا ملا۔ شہری ہوا بازی کی ایک معمولی  وزارت، مدھیہ پر دیش میں اب بھی بی جے پی والے انہیں دیکھ کر  منہ پھیر لیتے ہیں۔ اسی طرح سچن پائلٹ ضد کرنے  لگے کہ ہ عوام میں گہری جڑیں رکھنے والے تجربہ کار اشوک گہلوت کو ہٹا کر انہیں چیف منسٹر بنایا جائے۔ جب  بات نہیں مانی گئی تو ہائی کمان کو بلیک میل کرنے  لگے۔ اور نو جوت سنگھ سدھو کو ضد تھی  کہ امرندر سنگھ کو ہٹایا جائے اور مجھے چیف منسٹر بنایا جائے، ورنہ میں کانگریس کی صدارت سے استعفیٰ دے دوں گا۔ امرندر سنگھ کو ہٹا دیا گیا۔ لیکن اب بھی  منہ بسور رہے ہیں کہ ایک دلت چرنجیت سنگھ چنّی کو نہیں مجھے چیف منسٹر بنایا جائے۔ یہ سلسلہ تھمنے کا نام   ہی نہیں لیتا۔ اس کا بس ایک ہی علاج ہے۔ راہل گاندھی کو وہ کرنا چاہئے جو ان کی دادی نے ۱۹۶۷ ءمیں کیا تھا۔ جب انہوں نے مرار جی دیسائی، نجلن گپّا، شانتی بھوشن اور دیوراج ارس جیسے تمام بڑے لیڈروں کو نکال باہر کیا تھا۔ اس کے بعد ملک کے درجنوں نوجوان سیاسی کارکن، جنہیں نوجوان ترک کہا گیا،  آئے اور اندرا گاندھی کے لشکر میں شامل ہو گئے۔ راہل گاندھی کو بھی اب ان تمام بڑے بڑے ناموں اور چہروں کو باہر کا دروازہ دکھا دینا چاہئے جو یہ سمجھتے ہیں کہ کانگریس ان کے بغیر چل ہی نہیں سکتی۔ یا جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہائی کمان میں اتنا دم نہیں ہے کہ ان کے خلاف کوئی قدم اٹھا سکے۔ یقین کیجئے جس دن ایسا کر دیا گیا۔ اس کے دوسرے ہی دن چمکتے دمکتے چہروں اور ناموں والوں کی جگہ کنہیا کمار، جگنیش موانی، مکیش بگھیل ، چرنجیت۔ سنگھ  چنّی اور اشوک گہلوت جیسے ان لیڈروں کی قطار لگ جائے گی،جو عوام کے اندر سے نکلتے ہیں اور جن کی جڑیں عوام میں بہت گہری پیوست ہوتی ہیں۔ بی جے پی نے راہل گاندھی کو سیاسی پستہ قد ثابت کرنے کیلئےسات سال میں اربوں روپے خرچ کر دیا۔ پبلسٹی کیلئےساری طاقت جھونک دی۔ پھر بھی بی جے پی اور اس کی لیڈر شپ راہل گاندھی اور کانگریس کو اتنا نقصان نہیں پہنچا سکی، جتنا نقصان ان کانگریسیوں نے پہنچایا ہے او اب بھی پہنچا رہے ہیں۔ وقت ہے کہ کانگریس خود کو ان عناصر سے پاک کرے۔ وقت ہے کہ کانگریس بی جے پی کی طرح ایک اور اپر کاسٹ پارٹی کے بجائے ایک ایسی پارٹی کا روپ لے، جو عوامی شمولیت کی بہترین مثال ہو۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK