Inquilab Logo Happiest Places to Work

طلبہ میں مطالعہ کا ذوق پیدا کرنا استاد کی ذمہ داری ہے

Updated: June 12, 2023, 1:19 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

اردو زبان کی تدریس اورطلبہ میں اردو کی محبت پیدا کرنے کیلئے مختلف تدابیر جیسے متعدد موضوعات پر کی گئی گفتگو ملاحظہ کریں۔ آخری قسط

Teachers have the first responsibility to create interest in Urdu language among students
طلبہ میں اردو زبان کے تئیں دلچسپی پیدا کرنے کی پہلی ذمہ داری اساتذہ کی ہی ہے

اردو زبان ہمارا سب سے قیمتی ورثہ ہے اور اس زبان سے ہم سبھی جذباتی طور پر جڑے ہوئے ہیں کیوں کہ صرف اسی کے ذریعے اپنی مادری زبان کو محفوظ رکھا جاسکتا ہےلیکن یہ زبان جس طرح کی تدریسی مشکلات میں گھری ہوئی ہے ان کو دور کرنے کی سخت ضرورت ہے۔تمام اقدامات اور فروغ کی ذمہ داری صرف حکومت کی نہیں ہے بلکہ ہم سبھی کا یہ فرض بنتا ہے کہ اردو زبان کے تدریسی مسائل کو دور کرنے کے لئے اور تدریسی ترقی کے  لئے کوشش کریں کیونکہ اردو کی نشونما اور فروغ کے  لئے ہمیں ہی قدم اٹھانے ہوں گے ۔ ان میں بنیادی نکتہ ہے اردو کی تدریس کا جسے ہمارے اساتذہ سخت محنت کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے سوشل ہائی اسکول شولاپور کے معاون معلم اور ادیب وجاہت عبد الستار اور انجمن خیر الاسلام اردو ہائی اسکول تھانے کے معلم سرفراز احمد فلاحی سے گفتگو کی اور ان سے اردو کی تدریس کے طریقے اور دیگر مسائل پر بات کی۔  
 وجاہت عبد الستار ،جو  طنز و مزاح نگار ہونے کے ساتھ ساتھ معروف ڈراما نگار بھی ہیں، نے  اپنے طریقہ تدریس کے بارے میں کہا کہ تدریس کا براہ راست تعلق سبق کی پیشکش سے ہوتا ہے ۔ مختلف اسباق کے لئے مختلف طریقہ تدریس کا استعمال ہر استاد کی ذمہ داری ہے۔ آپ اسے تدریسی حکمت عملی بھی کہہ سکتے ہیں ۔ چند اسباق کے لئے روایتی طریقہ تدریس موثر ہوتا ہے تو چند اسباق ایسے ہوتے ہیں جن میں روایت سے ہٹ کر دوسرا طریقہ اختیار کرنا لازمی ہوتا ہے  لیکن ہر طریقہ طالب علم  پرمرکوز ہونا چاہئے ۔ استاد کو چا ہئے کہ وہ طلبا کے موڈ  اور ان کے اغراض و مقاصد کو مد نظر رکھ کر ہی آگے بڑھے۔ وجاہت عبد الستار جو  بال بھارتی لسانی و مشاورت کمیٹی کے رکن بھی ہیں، نے کہا کہ وہ طلبہ میں اردو کے تئیں دلچسپی پیدا کرنے کیلئے اس کی اہمیت و افادیت سمیت روزگار سے جڑے مواقع پر بھی روشنی ڈالتے ہیں ۔ ہم اپنے طلبہ میں اردو زبان کے تئیں دلچسپی پیدا کرنے کے  لئے مختلف رسائل اور معیاری اخبارات کے مطالعے کی تلقین کرتے ہیں ۔ ساتھ ہی انہیں  روایتی اور جدید دونوں طریقوں سے پڑھاتے ہیں ۔ روایتی طریقہ طلبہ کے تخیل کو وسعت عطا کرتا ہے جبکہ جدید طریقہ انہیں عملی زندگی سے جوڑنے میں مدد کرتا ہے ۔ اس سوال پر کہ ’’ہے اور ہیں کا فرق،  واحد جمع ، جملوں کی بندش اور ایسی متعدد قواعد کی غلطیوں کو دور کرنے کے لئے کیا کرتے ہیں؟‘‘ وجاہت نے بتایا کہ قواعد کی غلطیاں دور کرنے کے لئے  اہل زبان نے کچھ نایاب اور موثر طریقے بتائے ہیں  جن پر عمل کرکے غلطیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔الفاظ کا انتخاب مطالعے کی وسعت سے آسانی سے دور ہوتا ہے اس  لئےکسی بھی استاد کے نزدیک مطالعے کی اہمیت مسلم ہے ۔  انہوں نے مزید بتایا کہ مضمون نویسی اور املا نویسی سے طلبا کے تخیل کو پرواز ملتی ہے ۔ جملوں کی بندش اور برمحل الفاظ کے استعمال میں دقت پیش نہیں آتی لیکن آج کل دیکھنے میں آتا ہے کہ موبائیل اور کمپیوٹر میں عجلت پسندوں اور اردوکی قواعد سے نا واقف لوگوں نے اردو کا جنازہ نکال دیا ہے ۔
  اس سوال پر کہ’’ کیا  ریاضی ، سائنس یا انگریزی کے ٹیچر کے مقابلے اردو کے ٹیچر کو کم اہمیت دی جاتی ہے ؟‘‘ وجاہت نے کہا کہ اردو زبان تہذیب کا ورثہ ہے اور آج کل ساری دنیا میں بد تہذیبی پروان چڑھتی جا رہی ہے ۔ لوگوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ سائنس اور ریاضی ہی اصل چیز ہیں۔زبانیں تو بس معاون مضمون ہیںجبکہ یہ بات سو فیصد غلط ہے۔سائنس اور ریاضی پڑھا کر آپ اپنے بچے کو سند یافتہ تو بنا سکتے ہیں لیکن تعلیم یافتہ نہیں ۔ ا س  لئے اردو زبان بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی دیگر زبانیں۔ انہوں نے اس نکتے کی جانب بھی روشنی ڈالی کہ آج کل کئی مدارس میں معلمین کے انتخاب کے وقت  رشوت کا چلن عام ہو گیا ہے جبکہ ہونا یہ چا ہئے کہ معلم کا انتخاب اس کی قابلیت کہ بل بوتے پر تبھی ہم اپنی تدریس کو مزید بہتر بناسکیں گے ۔ 
  انجمن خیر الاسلام ہائی اسکول کے معلم سرفراز احمد ارضی فلاحی علیگ نے ہمارے سوال کے جواب میں کہا کہ ان کا طریقہ تدریس یہی ہے کہ وہ   سب سے پہلے کسی بھی اقتباس کی خود بلند خوانی کرتے ہیں اور اس کے بعد طلبہ  سے کرواتے ہیں۔ دورانِ بلند خوانی طلباء کو اصل الفاظ کی معلومات فراہم کرنا اور اس کی اصلاح کرانا اور مخرج کا خیال رکھنا  سب سے زیادہ ضروری ہوتا اور وہ اس پر کافی دھیان دیتے ہیں ۔ طلبا میں اردو سے رغبت پیدا کرنے  کے لئے سرفراز احمد طلبہ کو یہ بتاتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرنے کا اہم ترین ذریعہ مادری زبان ہے جس میں وہ باآسانی  تعلیم یافتہ ہوسکتے ہیں۔طلبا کو درست  الفاظ کی معلومات فراہم کر نے اور  الفاظ کو کس طرح متصل کرکے پڑھنا ہے، چاہے وہ دو حرفی،تین حرفی و چہار حرفی الفاظ ہوں، اس بارے میں بتانے پر ان کا سب سے زیادہ زور ہوتا ہے کیوں کہ یہی طریقہ مستقبل میں طلبہ کیلئے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ سرفراز احمد سے یہ پوچھنے پر کہ وہ روایتی طریقے کے علاوہ ڈیجیٹل طریقہ بھی اپناتے ہیں؟  انہوں نے کہا کہ روایتی طریقے کے علاوہ اس دور میں ڈیجیٹل طریقہ کا استعمال انتہائی ضروری ہے۔ آج کے طلبا ڈیجیٹل ذریعے سے بآسانی سیکھ سکتے ہیں کیوں کہ وہ موبائل کا استعمال بخوبی جانتے ہیں۔ اس لئے ہم کلاس روم میں ڈیجیٹل طریقے بھی اپناتے ہیں ۔
 ’’ہے اور ہیں کا فرق‘‘  اور قواعد کی دیگر غلطیوں کو دور کرنے کے لئے سرفراز احمد طلبا کو مثالوں کے ذریعے سمجھاتے ہیں کہ کہاں پر ’’ہے‘‘ اور کہاں پر ’’ہیں‘‘ کا استعمال ہوتا ہے۔طلبا  سے واحد الفاظ کی جمع اور جمع الفاظ کی واحد تحریر کرواتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کی مثالیں بھی پیش کرتے ہیںجس سے طلبہ کو ذہن نشین کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قواعد کی متعدد غلطیوں کو دور کرنے کے  لئے ہمیں ہر  لفظ کی اصل کو طلبا کو بتانا ہوگا ۔  انہوں نے املا نویسی اور مضمون نویسی کو  زبان سیکھنے اور اپنے خیالات کا بہتر اظہار کرنے کا ذریعہ قرار دیا اور کہا کہ وہ کلاس روم میں اس پر کافی دھیان دیتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK