دنیائے افق پر ان ہی کے کارناموں اور سنجیدہ کاوشوں کو جگہ ملی ہے جنھوں نے عزم، بلند ہمتی اور پائیداری سے امور و معاملات کو انجام دیا ہے۔
EPAPER
Updated: March 12, 2021, 6:34 AM IST
|
Mohammed Tariq Badayuni
دنیائے افق پر ان ہی کے کارناموں اور سنجیدہ کاوشوں کو جگہ ملی ہے جنھوں نے عزم، بلند ہمتی اور پائیداری سے امور و معاملات کو انجام دیا ہے۔ روز اول ہی سے یہ بات عیاں رہی ہے کہ انسان اپنی زندگی کو کچھ مقاصد کے حصول میں لگاتا ہے تو اللہ رب العزت اس کو اس کا صلہ ضرور دیتا ہے ۔ پھر جب وہ کسی کام کو صبر آزمائی اور ایمان داری کے ساتھ انجام دیتا ہے تو اس کے بارے میں یہ خوش خبری ہے: ’’بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ بحسن و خوبی کام انجام دینے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘ (سورہ یوسف:۹۰) یہ بات قابل وضاحت ہے کہ اللہ رب العالمین انسان کواتنی ہی بلندی اور سرفرازی سے نوازتا ہے جتنی کہ اس کی محنت اور لگن ہوتی ہے:’’انسان کو اتنا ہی ملتا ہے جتنی کہ اس نے کوشش کی۔‘‘ (سورہ النجم:۳۹) اس لئے انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ مخلص ہو کر اپنے کام میں لگ جائے۔ کیوں کہ جب ہم اپنا ماضی اور ماضی سے وابستہ اکابر و اسلاف کے گراں قدر کارناموں کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے اندر کسی کام کو انجام دینے کے لئے عزم و استقلال اور دوام و استمرار کا جذبہ موجزن تھا ۔
عزم و استقلال کی ایک مثال تاریخ میں ہمیں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے مشہور واقعہ سے ملتی ہے جب کہ انھوں نے فتح مدائن کےموقع پر دریائے ’دجلہ‘ پار کرنے کے لئے لوگوں کو جوش دلایا تو ایمانی حمیت سے لبریز ایک شخص نے آگے بڑھ کر یہ تاریخی جملہ کہا ’’أتخافون من ھذہ النطفۃ ؟‘‘ کیا تم سمندر کے ان معمولی سے بلبلوں سے ڈرتے ہو؟ انہوں نے اپنا گھوڑا ڈال دیا اور لوگوں نے بھی چھلانگیں لگا دیں اور ایسے دوڑنے لگے جیسے خشکی پر ہوں۔ پھر کیا تھا، ایرانی ’دیوانے، دیوانے‘ کہنے لگے اور یہ بھی کہ ’’ خدا کی قسم تم انسانوں سے نہیں بلکہ جنات سے جنگ کرنے جا رہے ہو۔‘‘ بالآخر ایرانیوں نے راہ مفر اختیار کر لی۔
(البدایۃ والنھایۃ ابن کثیر الدمشقی)
اسی طرح عقبہ بن نافعؓ، خالد بن ولیدؓ، طارق بن زیادؓ، نور الدین زنگیؒ، صلاح الدین ایوبیؒ اور ان جیسے تاریخ عالم کے درخشاں ستاروں کے عزائم تاریخ کے صفحات پر جلی حروف سے نقش ہیں جو ہمیں ہر وقت لگن، خلوص اور جاں فشانی کی دعوت دیتے ہیں ۔
غور کیجئے یہ وہی انسان ہے جو عروج و زوال کا بادشاہ، تہذیب و تمدن کا دیوتا، حلم و بردباری اور عقل و دانائی کا حکمراں، طاقت و تسلط کا علم بردار، جاں بازی و سرفروشی کا حاکم ہے۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان جرأت و شکیبائی اور عزم و یقین سے مالا مال نظر آئے گا، آنکھیں حیران ہوجائیں گی، عقل ششدر رہ جائے گی کہ یہ وہی تو ہے جس نے حباب کا دل چاک کیا، ذرے کا جگر چیرا، آسمان پہ کمندیں ڈالیں، سمندروں کی ہیبت ناکی سے لڑ بیٹھا، جہاں گرداب سے الجھا، پل بھر میں ساحل پہ برفانی تودوں سے لطف اندوز ہونے لگا؛ لیکن جب یہی عزم ٹوٹا، پاؤں پیچھے کھنچا، راہ میں حائل مشکلات سے گھبرایا، یا یوں کہہ لیجئے کہ جب ارادے جمود و تعطل اور ضعف الاعتقادی کا شکار ہوئے پس وقت تنزلی نے ڈیرا ڈال لیا، دن تاریک ہوگیا، زوال و انحطاط کا اس کے ماتھے پہ کلنک لگ گیا۔ واقعہ یہ ہے خون مکھی مچھر کی مانند ارزاں ہو گیا، کارنامے کالے کرتوت بن گئے، عزت و تکریم کی چادر چھن گئی، ظلم و جور اور جبر و تشدد کی تند و تیز ہوائیں مقدر بن گئیں: ’’یہ اللہ کی سنت ہے جو ایسے لوگوں کے معاملے میں پہلے سے چلی آ رہی ہے، اور تم اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے۔‘‘ (سورہ الاحزاب:۶۲)
الغرض! انسان اپنی مختصر سی زندگی میں سب کچھ کرسکتا ہے ؛لیکن اس وقت جب وہ زندگی کی اہمیت و افادیت کو سمجھے، کھوئی ہوئی صلاحیتیں اجاگر کرے، مخفی ہیرے تراشے، ماضی سے عبرت پکڑے، مستقبل کے لئے منصوبہ بندی کرے اور حال کو مقصد کے حصول کے لئے لگا دے اور پھر اپنے تئیں مخلص ہو کر انتھک کوششیں کرے تو نتیجہ کچھ اس طرح ہوگا کہ کامیابی و کامرانی قدم چومنے پر مجبور ہو جائے گی اور غیر بھی ماضی کی طرح علوم و فنون میں آپ کے خوشہ چیں ہوں گے ۔
کسی نے کیا ہی خوب کہا ہے کہ لوگ دوسروں کو ٹیلی ویژن یا موبائل فون وغیرہ پر دیکھتے ہیں اور ان پر رشک کرتے ہیں ۔ حالاں کہ اگر وہ خود اسی وقت کو اپنے آپ کو بنانے سنوارنے میں صرف کردیں تو دنیا ان کو دیکھنے لگے گی اور ان پر بھی اسی طرح رشک کرے گی جس طرح وہ خود دوسروں پر رشک کرتے تھے۔ کیوں کہ انسان جب مثبت و تعمیری جدو جہد کے لئے اپنے آپ کو وقف کرتا ہے تو اس کو زمین میں استحکام و ثبات حاصل ہوجاتا ہے ۔ قرآن مجید کا اصول ہے کہ نفع بخش چیزیں باقی رکھی جاتی ہیں اور غیر مفید چیزیں جھاگ کے مانند پھینک دی جاتی ہیں ۔ارشاد ربانی ہے :’’جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔‘‘ (سورہ الرعد:۱۷)
مذکورہ شواہد و حقائق کی روشنی میں یہ کہنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دنیائے افق پر ان ہی کے کارناموں اور سنجیدہ کاوشوں کو جگہ ملی ہے جنھوں نے عزم، بلند ہمتی اور پائیداری سے امور و معاملات کو انجام دیا ہے۔ کبھی نو میدی اور مایوسی نے منزل اور مقصد سے دو پل کے لئے بھی گمراہ نہ کیا اور ’’ لا تقنطوا من رحمۃ اللہ‘‘ کا اعلان کرتے رہے ، کبھی ہار نہیں مانی؛ بلکہ مزید سے مزید طبع آزمائی کرتے رہے کیوں کہ ان کے سامنے ’’من جدّ وجد‘‘ کا اصول تھا، البتہ جو معاشرے اور قومیں اپنے اندر ثابت قدمی اور استحکام و استمرار کو جگہ نہیں دیتی ہیں، انہیں اور نہ ان کے کسی بھی منصوبے اور کارنامے کو تاریخ میں کوئی مقام و رتبہ مل پاتا ہے۔
آج ہمیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلسل تگ و دو اور مستقل مزاجی سے تعمیری کام انجام دیں تاکہ ایک صحت مند معاشرہ عمل میں آ سکے جس کے نتیجے میں انسان بام عروج حاصل کر سکے تاکہ وہ ایک کامیاب شخص کہلا ئے ، ورنہ اللہ تعالیٰ کا اصول اٹل ہے جو کلام پاک میں بیان فرمایا گیا کہ: ’’یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم، لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔‘‘