ایسے واقعات نہ صرف عالمی سطح پر ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں بلکہ کشمیر میں فوج پر عوام کے اعتماد کو بھی متزلزل کرتے ہیں جو دہشت گردی اور جنگجوئیت کے خلاف لڑائی میں کلید کی حیثیت رکھتا ہے، اس ضمن میں فوج کو حساس بنانے کی ضرورت ہے۔
EPAPER
Updated: December 31, 2023, 5:04 PM IST | Asim Jalal | Mumbai
ایسے واقعات نہ صرف عالمی سطح پر ملک کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں بلکہ کشمیر میں فوج پر عوام کے اعتماد کو بھی متزلزل کرتے ہیں جو دہشت گردی اور جنگجوئیت کے خلاف لڑائی میں کلید کی حیثیت رکھتا ہے، اس ضمن میں فوج کو حساس بنانے کی ضرورت ہے۔
پونچھ ضلع کے دور دراز گاؤں بافیلاز اور ٹوپاپور میں دہشت گردوں کے حملے میں ۴؍ ہندوستانی فوجیوں کی اندوہناک موت کے بعد جانچ کے دوران فوج کے ہاتھوں ۳؍ عام شہریوں کی حراستی موت کی جو تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں وہ نہ صرف خوفناک ہیں بلکہ کئی سوالات کھڑے کرتی ہیں۔ پہلے نوٹ بندی پھر ۳۷۰؍ کی منسوخی کےبعد یہ خواب دکھایاگیا کہ ان اقدامات سے دہشت گردی ختم ہوجائے گی مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ نوٹ بندی کے بعد دہشت گرد پلوامہ جیسا حملہ کرنے میں کامیاب ہوئے اور ۳۷۰؍ کی منسوخی کے بعد (باوجود اس کے کہ کشمیر کے انتظامات آہنی ہاتھوں سےسنبھالے جا رہے تھے) دہشت گردانہ واقعات ختم ہوئے نہ تھمے۔ کبھی کشمیری پنڈتوں کو مسلسل نشانہ بناکر حکومت ہند کیلئے نئے چیلنجز کھڑےکئے جاتے ہیں تو کبھی فوج پرگھات لگا کرحملے ہوتے ہیں۔ پونچھ ضلع میں فوج پر گھات لگا کرکئے گئے حملے کےبعد ہی وہ صورتحال پیدا ہوئی کہ پہلے فوجی سربراہ کو پونچھ کا دورہ کرکے فوجیوں کو یہ سمجھانا پڑا کہ وہ ’’پیشہ ورانہ طریقےسےکام کریں ‘‘، پھر وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کو بھی راجوری پونچھ پہنچ کر فوج کو تلقین کرنی پڑی کہ’’ ایسا کام نہ کریں جس سے سر جھک جائے۔‘‘
دراصل۲۱؍ دسمبر کو پونچھ ضلع کے ڈیرہ کی گلی علاقے میں فوج پر دہشت گردوں نے گھات لگا کر حملہ کیا اور ۴؍ جوانوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کردیا۔گاؤں کے لوگوں کا الزام ہے کہ اس کے دوسرے ہی دن ۲۲؍ دسمبر کو صبح ساڑھے ۹؍ بجے فوج ۸؍ افراد کو پوچھ تاچھ کیلئے اپنے ساتھ لے گئی جن میں سے محمد شوکت (۲۶؍ سال)، سفیر حسین (۴۵؍سال) اور شبیر احمد (۳۰؍سال) کی شام کو لاشیں ملیں جبکہ ۵؍ دیگر اسپتال داخل ہیں ۔ ان کی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔قومی میڈیا نے، چاہے وہ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک، اس معاملے کی خبر نگاری ’’اپنے مخصوص انداز‘‘ میں کی تاکہ یہ معمول کے واقعات ہی لگیں مگر پھر ایک ویڈیومنظر عام پر آگیا جس نے ملک ہی نہیں بیرونِ ملک بھی ہندوستان کو شرمسار کردیا۔ ویڈیو میں فوجی یونیفارم میں ملبوس چند افراد کے ساتھ انتہائی بری طرح پیٹے گئے چند لوگ نظر آرہے تھے۔ وہ لوگ جنہیں پیٹا گیا تھا وہ زمین پر پڑے درد سے کراہ رہے تھے جبکہ فوجی یونیفارم میں ملبوس ایک شخص ان کے زخموں اور پوشیدہ مقامات پر مرچ اور نمک جیسی کوئی چیز ڈال رہاتھا۔
یہ بھی پڑھئے: گیان واپی اور متھرا کے مقدموں میں تیزی زعفرانی سیاست کیلئے تقویت کا باعث
اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے اور مقامی افراد کے شدید احتجاج کے بعد حکومت کو حرکت میں آنا پڑا۔ فوری طور پر فوجی سربراہ پونچھ پہنچے ، فوجیوں سے ملاقاتیں کیں ، حالات کا جائزہ لیا اورانہیں ’’پیشہ ورانہ‘‘ طریقے سے کام کرنے کی تلقین کی۔ بریگیڈیئر سمیت ۳؍ افسران کا تبادلہ کیاگیا اور معاملے کی جانچ کیلئے کورٹ آف انکوائری تشکیل دیا گیا۔ کشمیر پولیس نے بھی قتل کا کیس درج کیا اور جانچ شروع کردی۔اس کے فوراً بعد زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ متاثرہ علاقے پہنچے، فوجیوں کی سرزنش اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی حوصلہ شکنی بھی نہ ہو اور عوام کو تسلی بھی ہوجائے۔ انہوں نے فوجیوں کو وارننگ دی کہ وہ ایسی کوئی حرکت نہ کریں جس کی وجہ سے ملک کے عام شہریوں کو تکلیف ہو۔ اس کے ساتھ ہی مہلوکین کے ورثاء کیلئے عبوری راحت کے طور پر نقد امداد کا اعلان کیا اور گھر کے ایک فرد کوسرکاری نوکری دینے کا اعلان کردیا۔اس کا مقصد پونچھ اور راجوری میں احتجاج پر قابو پانا تھا۔ حالانکہ اب تک اس بات کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں ہوئی کہ عام شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اوران کے زخموں پرنمک پاشی کرنے کا مذکورہ ویڈیو اُن ہی افراد کا ہے جن کو فوج نے ۲۲؍ دسمبر کو اٹھایاتھا مگر ویڈیو میں نظر آنے والے ایک شخص نے جو اسپتال میں زیر علاج ہیں ،خود اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ویڈیو میں نظر آنے والوں میں وہ بھی شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ گاؤں کے سرپنچ محمود احمد نے بھی ویڈیو میں شبیر اور شوکت کے نظرآنے کی تصدیق کی ہے جن کی لاشیں شام کوان کے اہل خانہ کے حوالے کی گئیں ۔شبیر کا بھائی بارڈر سیکوریٹی فورس میں ہیڈ کانسٹیبل کی ذمہ داری نبھارہاہے اور رو روکر یہ پوچھ رہاہے کہ کیا ملک کیلئے اس کی خدمات کااسے یہی صلہ ملاہے۔ خود شبیر فوج کے ساتھ بطور قلی کام کرتا تھا۔
۵۲؍ سالہ محمد اشرف جو راجوری کے گورمنٹ میڈیکل کالج میں زیر علاج ہیں ، سے انڈین ایکسپریس نے جو گفتگو کی وہ اس معاملے کی کئی پرتوں کو کھول کررکھ دیتی ہے اور ہماری فوج وہ چہرہ بھی دکھاتی ہے جو ہم قطعی پسند نہیں کریں گے۔ اسپتال میں اپنے بستر پر لیٹے لیٹے اشرف نے بتایا کہ انہیں اور ان کے ساتھ حراست میں لئے گئے دیگر افراد کو کپڑے اتار کرلاٹھی اور آہنی سلاخوں سے بری طرح پیٹاگیا۔ زخموں پر مرچی کا پاوڈر مل دیاگیا، یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہوگئے۔ ان میں ۱۵؍سال کا ایک نوجوان بھی ہے جو ابھی ۱۰؍ویں جماعت میں زیر تعلیم ہے۔ بتایا جارہاہے کہ گرفتار شدگان کا تعلق بکر وال سماج سے ہے جو بنیادی طورپر چرواہا سماج ہےا ور جسے فوج کیلئے معاون سمجھا جاتاہے۔
سرکاری طورپر بھلے ہی ابھی یہ تسلیم نہ کیاگیا ہوکہ تینوں شہریوں کی موت فوج کی حراست اور تشدد کانتیجہ ہے، مگر پہلے فوجی سربراہ کا پونچھ کا ہنگامی دورہ پھر وزیر دفاع کاوہاں پہنچنا نیز بریگیڈیئر سمیت ۳؍ جوانوں کا تبادلہ، کورٹ آف انکوائری کا قیام اور جانچ میں ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی اس بات کا اشارہ ہے کہ مذکورہ ہلاکتوں میں فوجیوں کے رول کی تردید نہیں کی جارہی ہے۔ جانچ ،عبوری راحت اور گھر کے ایک فرد کو نوکری فراہم کرکےمقامی افراد کے اُس اعتماد کوحاصل نہیں کیا جاسکتا جو فوج نے اس واردات کی وجہ سے کھودیا ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکارنہیں کیا جا سکتا کہ دہشت گردی اور جنگجوئیت سے نمٹنے اوراس کے خاتمے کیلئے جتنی ضرورت فوجی طاقت کی ہے اس سے زیادہ مقامی عوام کی حمایت ، ان کا اعتماد اور ان کی تائید حاصل کرنا ضروری ہے۔ پونچھ میں جو کچھ ہوا وہ اور اس طرح کا کوئی بھی واقعہ جنگجوئیت کے خلاف لڑائی کومزید کمزورکرنے کا باعث بنے گا۔ فوج کے ہر جوان میں اس سلسلے میں حساسیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر شہری کو اگر شک کی نگاہ سے دیکھاجائے گا تو جنگجوؤں کے خلاف لڑائی میں ناکامی ہی ہاتھ لگے گی۔ملک میں گزشتہ چند برسوں سے میڈیا کے توسط سے عوام کی جس طرح کی ذہن سازی ہورہی ہے، اس سے فوج کا اچھوتارہ جانا مشکل ہے۔ بعید نہیں کہ راجوری میں ۴؍ جوانوں کی موت کے جواب میں جو کچھ بھی کیاگیا وہ اسی ذہن سازی کانتیجہ ہو۔اگر ایسا ہے تویہ پورے ملک کیلئے نقصان دہ ہے۔
اس واقعہ کے بعد ہر چیز کیلئے نہرو اور کانگریس کو ذمہ دار ٹھہرانےوالی موجودہ حکومت کو کئی سوالوں کاسامنا ہے۔ سب سے اہم یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ’زیرو ٹالرنس‘ کی اس کی پالیسی اور آہنی پنجوں سے حکمرانی کے باوجود وہ تشدد کے واقعات پر قابو پانے میں کیوں ناکام ہے؟ کیا وجہ ہے کہ حالیہ کچھ برسوں میں جنگجوؤں کے حملے راجوری جیسے سرحدی علاقوں بڑھ گئے ہیں اور حکومت کچھ نہیں کر پارہی ہے۔ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ میڈیا کو مینج کرکے ’اچھی شبیہ‘ یا ’سب کچھ ٹھیک ٹھاک‘ ہونے کا تاثر تو قائم کیا جاسکتاہے مگر نہ زمینی سطح پر اس سے شبیہ سدھرتی ہے نہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوجاتا ہے اس لئے میڈیا مینجمنٹ سے زیاد ہ زمین پر حالات درست کرنے کی ضرورت ہے۔ کشمیر یقیناً ہندوستان کااٹوٹ حصہ ہے مگر اسی طرح اہل کشمیر بھی ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہیں ۔ ایسے واقعات ان میں پرائے پن کے احساس کو شدید تر کرتے ہیں جبکہ ان میں اپنائیت کا جذبہ پیدا کرنے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے اوراس کیلئے مذہب کی سیاست سے اوپر اٹھنا پڑے گا مگر ابھی اس کی امید کم نظر آتی ہے۔