ہم دُنیا کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور بحیثیت مسلمان آخرت کی زندگی پر ایمان بھی لا چکے ہیں، لیکن ہمارے قول و فعل میں جو تضاد ہے اس کا کیا؟۔
EPAPER
Updated: July 19, 2024, 4:36 PM IST | Maulana Muhammad Manzoor Nomani | Mumbai
ہم دُنیا کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور بحیثیت مسلمان آخرت کی زندگی پر ایمان بھی لا چکے ہیں، لیکن ہمارے قول و فعل میں جو تضاد ہے اس کا کیا؟۔
ایک دنیا یہ ہے جس میں ہم اور آپ رہتے بستے ہیں اور جس میں ہماری زندگیوں کا ایک حصہ گزر چکا ہے اور کچھ باقی ہے۔ اس دنیا کی چیزوں کو ہم آنکھوں سے دیکھتے ہیں، یہاں کی آوازوں کو کانوں سے سنتے ہیں، یہاں کی خوشبو اور بدبو کو ہم سونگھ کر جان لیتے ہیں، اسی طرح یہاں کی سردی گرمی محسوس کرتے ہیں، سختی نرمی کو چھوکر اور اچھے بُرے مزے کو چکھ کر دریافت کرلیتے ہیں۔ الغرض ہماری یہ دنیا ایسی دنیا ہے کہ اس کو ہم خود اپنے خداداد علم سے جانتے ہیں اور کوئی ہمیں بتائے یا نہ بتائے، ہم اس کے وجود پر یقین رکھتے ہیں۔ اسی طرح ہم خود اپنے علم سے اور اپنے مشاہدہ اور تجربہ سے یہ بھی جانتے ہیں کہ اس دنیا میں آرام اور راحت بھی ہے اور تکلیف اور مصیبت بھی، یہاں کی بھوک پیاس، بیماری آزاری، زیادہ سردی، زیادہ گرمی اور بہت زیادہ بارش یہاں پر تکلیف کی چیزیں ہیں۔ اسی طرح تندرستی، خوش حالی، کھانے پینے کی اچھی چیزیں، اچھا موسم، اچھی ہوا، اچھا مکان، اچھی فضا …یہ یہاں کی آرام اور راحت کی چیزیں ہیں۔
پھر یہ بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ کر جانتے ہیں کہ یہاں کی ہماری زندگی ایک محدود مدت کے لئے ہے اور یہاں کی ہرتکلیف و مصیبت اور ہر عیش و راحت بھی محدود الوقت اور چند روزہ ہے۔ کتنے افراد پیدا ہونے کے بعد جوانی سے پہلے یعنی بچپنے یا لڑکپنے ہی میں چل دیتے ہیں اور کتنے ایسے ہیں، کہ جوانی میں چلے جاتے ہیں۔ پھر جن کو جوانی کی بہار دیکھنے کا موقع ملتا ہے، آخرکار بڑھاپے میں وہ بھی چلے ہی جاتے ہیں۔ آج کل ۸۰، ۹۰ سال کی عمر بھی کسی کو کم ہی ملتی ہے۔ بہرحال، ہم اپنے تجربے اور مشاہدے سے جس طرح اس دنیا کو جانتے ہیں، اسی طرح یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کی ہرتکلیف و راحت بس چند روزہ ہے۔
آخرت کی دنیا: ہم اور آپ بہ حیثیت مسلمان اس دنیا کے علاوہ ایک اور دنیا کو بھی مانتے ہیں، کہ وہ مرنے کے بعد والی اور آخرت کی دنیا ہے۔ وہ دنیا کہ جس کو ہم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور نہ کسی اور طریقے سے ہم نے اُس کو اپنے علم سے جانا ہے، بلکہ اُس کی خبر اللہ کے پیغمبروں ؑ نے دی ہے جن کی سچائی پر ہمیں پورا یقین ہے۔ ہماری اس دنیا میں بھی، جس میں ہم رہتے بستے ہیں، ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کو ہم نے خود اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے، بلکہ دوسرے لوگوں سے سن سن کر ہی ہم اُن پر یقین لے آئے ہیں۔
اسی طرح سمجھنا چاہئے کہ آخرت میں اور وہاں کی تکلیفوں اور راحتوں کو اگرچہ ہم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے، لیکن اللہ کے پیغمبروں ؑ، خاص کر آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلانے سے اور اللہ کی کتاب قرآنِ مجید کے بیان سے ہم نے اس کو جانا اور مانا ہے، یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ اپنے اپنے وقت میں اللہ کے سب پیغمبروں ؑ نے یہی بتایا کہ موت سے انسان کا بالکل خاتمہ نہیں ہو جاتا بلکہ انسان ایک اور ہی عالم کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور اس کی روح جو انسان کی اصل حقیقت ہے وہ دوسری دنیا میں چلی جاتی ہے۔ اسی لئے ’موت‘ کو ’انتقال‘ بھی کہتے ہیں کہ اس کے ذریعہ روح منتقل ہوتی ہے۔
ہم اس دنیا میں ہیں تو اس دنیا سے آگے کی کسی بات کو خود نہیں جان سکتے۔ اور اپنی ان آنکھوں سے آگے کی کوئی منزل نہیں دیکھ سکتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے انبیائے علیہم السلام کو عالمِ آخرت کا علم دیا ہے۔ انہوں نے ہمیں بتایا اور سب سے زیادہ وضاحت اورتفصیل سے خدا کے آخری نبی ورسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ مرنے کے بعد تم ایک دوسرے عالم اور دوسرے جہان میں پہنچ جائو گے جس کی پہلی منزل عالم برزخ ( وہ جگہ جہاں موت سے لے کر قیامت تک رہنا ہو گا) ہے۔ دوسری منزل حشر اور حساب کی منزل ہے، جہاں ہر شخص کے اعمال کی جانچ اور ان کا فیصلہ ہوگا، اور اس سے آگے تیسری اور آخری منزل دوزخ یا جنت کا دائمی ٹھکانا ہے۔ پھر دوزخ میں جو طرح طرح کے درد ناک عذاب ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی شان قہاری کے جو نہایت ہیبت ناک منظر سامنے آئینگے ان کو بھی آپؐ نے تفصیل سے بتلایا، اور جنت میں عیش وراحت اور لذت و مسرت کے جو بے انتہا سامان ہونگے اور اللہ تعالیٰ کی شانِ رحمت وکرم کے جو نئے نئے تجربے اور مشاہدے ہوں گے ان کی بھی آپؐ نے پوری تفصیل بیان فرمائی۔
میں مانتا ہوں کہ اس زندگی میں ان باتوں میں سے کسی ایک کو بھی ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھتے اور نہیں دیکھ سکتے، لیکن ہمارا یہ نہ دیکھنا بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ ماں کے پیٹ کی منزل میں کسی بچے کا اس دنیا کو نہ دیکھ سکنا، اور جس طرح ہر بچہ یہاں آ جانے کے بعد وہ سب کچھ دیکھ لیتا ہے جو آنے سے پہلے نہیں دیکھ سکتا تھا، اسی طرح ہمیں یقین ہے اور ہم اس پر قسم کھا سکتے ہیں کہ اس دنیا سے جانے کے بعد ہم میں سے ہر ایک وہ سب کچھ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لے گا جس کی اطلاع اللہ کے تمام نبیوں اور رسولوں نے دی ہے اور سب سے آخر میں اللہ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ تفصیل، وضاحت سے اور مثالوں کے ذریعہ سمجھا کر دی ہے۔
بہر حال، ہمیں کہنا یہ ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے، ہم اور آپ جو اپنے کو مسلمان کہتے اور کہلاتے ہیں، آخرت والی دنیا کو مان چکے ہیں اور اس پرایمان لا چکے ہیں … بلکہ اللہ تعالیٰ کے نبی ٔ آخر الزماں سیدنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اس کی آخری کتاب قرآن مجید نے آخرت اور دوزخ وجنت کی جو تفصیل بیان فرمائی ہے ہم اور آپ اس تفصیل پر بھی دل و جاں سے ایمان لائے ہیں۔ مثلاً ہمارا ایمان ہے کہ جس طرح ہماری اس زندگی میں بھوک اور پیاس کی تکلیف ہوتی ہے، اسی طرح دوزخ میں بھی دوزخیوں کو بھوک اور پیاس کی تکلیف ہو گی جو یہاں کی تکلیف سے ہزاروں گنا زیادہ ہو گی۔
پھر اگر یہاں کسی کو بھوک لگے اور اسے کہیں سے کھانے کی کوئی چیز نہ ملے تو بس یہی تو ہو گا کہ دوچار ہفتے تڑپ تڑپ کے ایڑیا ں رگڑ رگڑ کے جان دے دے گا اور اس طرح موت کے ساتھ اس کی بھوک کی تکلیف کا بھی خاتمہ ہو جائے گا، لیکن دوزخ میں دوزخی ہزاروں لاکھوں سال بھوک پیاس کی شدید تکلیف میں تڑپے گا اور اس سے چھٹکارا پانے کے لئے اسے موت بھی نہ آئے گی۔ قرآن مجید کا بیان ہے: ’’اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے، نہ ان پر (موت کا) فیصلہ کیا جائے گا کہ مر جائیں اور نہ ان سے عذاب میں سے کچھ کم کیا جائے گا۔ ‘‘ (الفاطر :۳۶)
آخرت کا عذاب: آخرت کے عذاب کے متعلق قرآن مجید نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تفصیلات بیان فرمائی ہیں، ان میں سے مزید چند باتیں سن لیجیے تاکہ موضوع ٹھیک طرح سے ذہن نشین ہوجائے۔ ان سے اندازہ ہوجائے گا کہ دنیا کی بڑی سے بڑی تکلیف کو بھی آخرت کی تکلیفوں سے کیا نسبت ہے :
خیال کیجئے ! اس دنیا میں اگر کسی زندہ آدمی کو دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا جائے تو بس چند منٹ میں جل بھن کر اور تڑپ تڑپ کر جان دے دے گا۔ اور چند منٹ کی یہ تکلیف بھی ایسی ہو گی کہ جس بے چارے پر گزرے گی اس کا تو کیا ذکر، دیکھنے والوں کے بھی ہوش خراب ہو جائینگے اور کتنوں پر اختلاج قلب کے دورے پڑ جائیں گے لیکن قرآن مجید میں دوزخیوں کے متعلق فرمایا گیا ہے: ’’اور جب اُن کے بدن کی کھال گل جائے گی تو اس کی جگہ دوسری کھال پیدا کریں گے، تاکہ وہ خوب عذاب کا مزا چکھیں۔ ‘‘(النساء : ۵۶)
اس سلسلے میں رسولؐ اللہ کی ایک حدیث مبارکہ بھی سن لیجئے۔ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ دوزخ میں جس شخص کو سب سے ہلکے درجے کا عذاب ہوگا، اس کا حال یہ ہو گا کہ اس کے پائوں کے تلوے کے نیچے دوزخ کی آگ کی ایک چنگاری رکھ دی جائے گی جس سے اس کا بھیجا سر میں اس طرح پکے گا جس طرح چولھے پر ہانڈی پکتی ہے اور اس کا اپنا اندازہ اور احساس یہ ہو گا کہ سب سے زیادہ عذاب میں آج مَیں ہی ہوں۔ ‘‘ ہم آپ سب اس پر ایمان لائے ہیں کہ آخرت اور دوزخ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ارشادات اور قرآن مجید کے یہ بیانات بالکل صحیح ہیں، یقینی ہیں، ان میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے۔
جنّت اور اس کی نعمتیں : اب اسی طرح جنت اور اس کی نعمتوں کے متعلق بھی اللہ اور اللہ کے رسول ؐ کے چند ارشادات اس وقت ذہن میں تازہ کر لیجئے!
یوں تو جنت اور اہل جنت کے متعلق قرآن مجید میں بہت کچھ بیان فرمایا گیا ہے لیکن ایک بات کئی جگہ قرآن مجید میں ایسی کہی گئی ہے کہ جنت کے متعلق کچھ اندازہ کرنے کے لئے بس وہی کافی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ انسان کے دل اور اس کی طبیعت میں جو بھی خواہشیں اور جو بھی اُمنگیں اور آرزوئیں ہیں اور ہو سکتی ہیں جنت میں ان سب کے پورا ہونے کا مکمل سامان ہے اور وہ سب پوری کی جائینگی۔ ارشاد ہے: ’’وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہرچیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی۔ ‘‘ (سورہ حم السجدہ :۳۱) دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’جو کچھ وہ چاہیں گے (میسّر) ہوگا۔ ‘‘ ( سورہ النحل ۱۶:۳۱)۔ ایک اور (تیسری) جگہ فرمایا گیا: ’’(جنت میں ) وہ سب چیزیں (موجود) ہوں گی جن کو (اہل جنت) دل چاہیں گے اور (جن سے) آنکھیں راحت پائیں گی۔ ‘‘ (الزخرف :۷۱)
سوچئے اس کے بعد باقی کیا رہا ؟ ہمارا جی عیش وراحت والی اور لذت ومسرت والی ایسی زندگی چاہتا ہے جو کبھی ختم نہ ہو، جنت میں وہ موجود ہے۔ لیکن اس سے آگے اللہ تعالیٰ کی رضا، اللہ تعالیٰ کی وہ معرفت جس کا اس دنیا میں امکان نہیں، اور پھر سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ملاقات اور اس کا دیدار، یہ جنت کی وہ نعمتیں اور لذتیں ہیں جن کی چاہت سے اللہ کے خاص بندوں کے سینے بھرے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ یقیناً اپنے ان چاہنے والوں کی اس چاہت کو بھی وہاں پورا کرے گا کہ وہاں اس کا وافر انتظام ہوگا۔
اس کے بعد اس سلسلے میں رسولؐ اللہ کی ایک حدیث بھی سن لیجئے۔ ارشاد فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک اور فرماں بردار بندوں کے لئے جنت میں جو نعمتیں اور لذت وراحت کا جو سامان تیار کیا ہے وہ ایسے اچھوتے اور البیلے انداز کا ہے کہ کسی آنکھ والے کی آنکھ نے اس کی جھلک تک نہیں دیکھی، اور کسی کے کان میں اس کی بھنک تک نہیں پڑی، اور کسی کے دل میں اس کا خیال اور خطرہ بھی نہیں گزرا ہے۔ (بخاری، باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ، حدیث: ۳۰۸۸)
دوزخ اور جنت کے متعلق قرآن و حدیث کے ان بیانات پر الحمدللہ ہمارا ایمان ہے اور ہم آپ سب اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ سب حق ہے اور اس دنیا سے جانے کے بعد ہم یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ ہمیں اس میں ذرہ برابر بھی شک وشبہ نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے: نفقہ ٔمطلقہ کی بابت مضمرات ِشریعت و انصاف کو سمجھئے!
دنیا اور آخرت کے علم و یقین کا اثر:اب خدارا اپنی اور اپنے سب مسلمان بھائیوں کی اس حالت پر غور کرو کہ دنیا کی جن حقیقتوں کا اور یہاں کی جن تکلیفوں اور آراموں کا اور جن نفعوں اور نقصانوں کا ہمیں اپنے مشاہدے اور تجربے سے علم ہوا ہے، ان کا ہماری زندگی پر کتنا اثر ہے۔ مثلاً ہمیں یقین ہے کہ آگ جلا دیتی ہے تو اس علم کا ہم پر یہ اثر ہے کہ ہم بھول کے بھی آگ سے نہیں کھیلتے، بلکہ کبھی آگ کے پاس سے بھی گزرتے ہیں تو اپنے جسم کو اور کپڑوں کو پوری طرح بچاتے ہوئے گزرتے ہیں ۔
اسی طرح ہم میں سے جو غریب یہ جانتے ہیں کہ وہ اگر آج مزدوری نہیں کریں گے تو کل ان کے بچوں کو فاقہ ہو جائے گا، وہ گھر میں نہیں بیٹھے رہتے بلکہ دسمبر جنوری کی سخت کڑاکے کی سردی میں بھی اور مئی کی جھلسا دینے والی لُو میں بھی وہ بےچارے باہر نکل کر مزدوری کرتے ہیں۔ اسی طرح ملازم پیشہ حضرات چونکہ جانتے ہیں کہ اگرہم بر وقت ڈیوٹی پر نہ پہنچیں گے تو ہم سے باز پُرس ہو گی اور ہماری ملازمت خطرے میں پڑ جائے گی اس لئے خواہ جی چاہے یا نہ چاہے، بے چارے ڈیوٹی پر جانے اور وہاں کی مقررہ خدمت انجام دینے پر مجبور ہوتے ہیں، جانتے ہیں کہ اس کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں۔
ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ صرف اس لئے کہ اس دنیا کے نفع نقصان اور یہاں کے اپنے معاملات کے نتائج کا جو علم ویقین ہمیں اپنے ذریعوں سے حاصل ہوا ہے وہ ہم سے یہ سب کچھ کرا لیتا ہے۔
اب دیکھیے کہ آخرت کے نتائج کے بارے میں جو باتیں ہمیں اللہ کی مقدس کتاب اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان سے معلوم ہوئی ہیں اور جن پر ہم ایمان لائے ہیں ان کے علم ویقین کا ہماری زندگی پر کتنا اثر ہے؟ میرے نزدیک یہ کوئی باریک علمی مسئلہ نہیں جس کا سمجھنا کسی کے لئے مشکل ہو۔ ہر شخص خود ہی سوچے کہ وہ دنیا کی آگ اور دنیا کے سانپوں بچھوئوں سے بچنے کی جتنی فکر کر تا ہے، کیا آخرت کی دوزخ والی آگ اور دوزخ کے سانپوں بچھوئوں سے بچنے کی اتنی فکر کر رہا ہے، اور کیا یہاں کی بھوک پیاس سے اور یہاں کی تکلیفوں مصیبتوں سے بچنے کے لئے وہ جو محنت اور جیسی دوڑ دھوپ کرتا ہے کیا ویسی ہی وہ آخرت کی بھوک پیاس اور دوزخ کے عذاب سے بچنے کے لئے کر رہا ہے؟
اسی طرح ہر شخص سوچے کہ اس دنیا میں آرام اور عزت حاصل کرنے کے لئے اور ترقی کے بلند درجوں پر پہنچنے کے لئے وہ جیسی فکر اور جیسی جدوجہد کر رہا ہے، کیا جنت کا عیش اورآخرت میں سرفرازی اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بھی وہ ویسی ہی فکر اور جدوجہد کر رہا ہے؟
یقیناً آپ سب کا بھی یہی خیال ہو گا کہ ہم میں اکثر کا بلکہ قریب قریب سب کا حال اس کے خلاف ہے…آخر ایسا کیوں ہے ؟
اس وقت پیش نظر مقصد یہی ہے کہ آپ کو اس سوال کی طرف اور اس صورتِ حال کی طرف توجہ دلائوں۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ یہ ہماری زندگی کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ یہ وہ صورتِ حال ہے جو قرآن مجید نے ایمان نہ لانے والوں کی اور اللہ ورسول ؐ کی باتوں کا یقین نہ کرنے والوں کی بتلائی ہے چنانچہ کلام پاک میں ایک جگہ ارشاد ہے:
’’اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو۔ ‘‘(القیامۃ :۲۰-۲۱)
دوسری جگہ فرمایا گیا ہے :
’’ان کا حال یہ ہے کہ ان کو دُنیا کی تو چاہت ہے اور آخرت کے مسئلے کو انہوں نے پسِ پشت ڈال رکھا ہے۔ ‘‘ (الدھر :۲۷)
زندگی میں تضاد کا سبب: اس کی اصل وجہ صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ ہمارا آخرت والا یقین جو نبیوں اور رسولوں کے ذریعے ہمیں ملا تھا، وہ ہمارے دنیا والے اُن یقینوں کے مقابلے میں کمزور ہو گیا ہے جو ہمیں اپنے مشاہدے اور تجربے وغیرہ سے حاصل ہوتے ہیں اور ان کے نیچے گویا دب کر بے اثر اور بے جان ہو گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دُنیا والا یقین ہم سے اپنے سارے تقاضے پورے کرا لیتا ہے لیکن آخرت والا یقین ہم سے اپنے تقاضے اور اپنے مطالبے پورے کرانے سے عاجز رہتا ہے۔ آپ اس کو واقعاتی مثالوں کے طور پر سامنے رکھ کر سوچئے۔
مثلاً ایک شخص ہے اس کو اللہ اوررسول ؐ کے احکام کے مطابق زکوٰۃ دینی چاہئے۔ اب اپنے ذاتی علم وتجربے سے اس کو ایک یقین تو یہ ہے کہ جتنی رقم مَیں زکوٰۃ کی دوں گا میری دولت میں اتنی کمی ہو جائے گی اور اس طرح میرا مالی نقصان ہوگا، اور ایک دوسرا یقین یا عقیدہ اس کا یہ بھی ہے کہ زکوٰۃ فرض ہے، اس کا ادا نہ کرنا بہت بڑا جرم اور سخت ترین گناہ ہے جس کے نتیجے میں آدمی کو دوزخ کا نہایت درد ناک عذاب بھگتنا پڑے گا۔ اب ظاہر ہے کہ اگر دوسرا یقین پہلے یقین کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہو اور اس سے دَبا ہوا نہ ہو تو آدمی یقیناً زکوٰۃ ادا کرے گا، لیکن اگر یہ دوسرا یقین کمزور ہو اور پہلا والا یقین زیادہ طاقتور ہو تو پھر زکوٰۃ اس کی جیب سے نہیں نکلے گی۔
الغرض ہماری زندگی میں یہ جو تضاد ہے کہ ہم عقیدہ کے لحاظ سے مسلمان ہیں اور ہماری غالب اکثریت کی عملی زندگی ایمان واسلام کے تقاضوں کے بالکل خلاف ہے، اس کی اصل وجہ اور علۃ العلل (علت کی علت، سب سے بڑی وجہ) یہی ہے کہ ہمارا اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت کے بارے میں وہ یقین جو انبیائے علیہم السلام کے ذریعے ہمیں ملا تھا نہایت کمزور ہو گیا ہے اور ہمارے دنیا والے وہ یقین جو ہمیں اور عام انسانوں کو اپنے مشاہدے اور تجربے وغیرہ سے حاصل ہوتے ہیں اس پر غالب آ گئے ہیں۔صحابہ کرامؓ کے حالات آپ نے سنے اور پڑھے ہوں گے۔ ان کی زندگی کا نقشہ ہمیں بالکل دوسرا نظر آتا ہے۔ اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ان کا آخرت والا یقین اتنا جاندار اور طاقتور تھا کہ ان کے مشاہدے اور تجربے والے اس دنیا کے یقینوں پر غالب تھا۔ ایک تابعی بزرگ غالباً سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرامؓ کو دیکھا ہے، ان کا امتیاز یہ نہیں تھا کہ وہ نماز روزہ جیسی عبادات میں تم سے بہت بڑھے ہوئے تھے۔ آگے ان کے الفاظ: وَلٰکِنَّہ شَیءٌ وقرنی قُلُوْبھم، ا سکا مفہوم یہ ہے کہ ان کا اصل اور نمایاں امتیاز یہ تھا کہ ان کے دلوں میں اللہ اور آخرت کا یقین ایسا جما تھا کہ ان کی پوری زندگی اور ان کا تمام ظاہر وباطن اس کے نیچے دبا ہوا تھا۔
اب ہمارے اور آپ کے سامنے دو راہیں ہیں :
ایک یہ کہ دین اور ایمان کے لحاظ سے اس وقت جو ہماری حالت ہے ہم خدا نخواستہ اس پر مطمئن ہوں اور اس میں تبدیلی کے لئے ہم میں کوئی بے چینی نہ ہو، اور دن اسی طرح گزرتے رہیں اور ہم اسی حال میں جیتے اور مرتے رہیں۔ مجھے یقین ہے کہ جب تک ہمارے دلوں میں ایمان کا کوئی ذرہ ہے ہم اس راستے کو شعوری طور پر ہرگز نہیں اپنا سکتے، اور میں کہہ سکتا ہوں کہ شاید آپ میں سے کوئی ایک بندہ بھی جان بوجھ کر اس کو پسند نہیں کرے گا۔
دوسری راہ یہ ہے کہ جس طرح ہم دنیوی زندگی کے بگاڑ سے اور یہاں کی بیماریوں نیز بربادیوں سے فکر مند ہوتے ہیں اور ان سے نجات حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں ، اسی طرح ہم اپنے اس دینی بگاڑ اور اُخروی تباہی وبربادی سے فکر مند ہوں اور اپنی حالت کو درست کرنے کی اور اپنی زندگیوں کو ایمان والی زندگی بنانے کی جدوجہد کریں۔ ظاہر ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کا فیصلہ یہی ہو گا۔
اصلاحِ احوال کی صورت: اب سوال یہ ہے کہ یہ کام کس طرح ہو ؟ تو اس کا جواب بھی ملاحظہ فرما لیجئے:
ایمان والے یقین کو بڑھانے کی اور دوسرے دُنیوی یقینوں پر اس کو غالب کرنے کی ہمیشہ سے ایک ہی راہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے کو ایسے دینی اور ایمانی کاموں میں لگا دے جو ایمان ویقین کو بڑھانے والے ہوں، اور اگر اس کا ماحول ایمان ویقین کے لئے ساز گار نہیں ہے تو کم ازکم کچھ عرصے کے لئے کسی ایسے ماحول میں رہے جس میں ایمان ویقین کی ترقی کا سامان ہو۔
صحابہ کرامؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت والا ایمان آفرین ماحول نصیب تھا اور انہوں نے اپنے کو دین کے ان کاموں میں پوری طرح جھونک دیا تھا جو ایمان ویقین کو بڑھانے والے تھے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ان کا ایمانی یقین ان کی دوسری تمام بشری معلومات پر غالب تھا۔ پھر قرونِ اولیٰ کے بعد بزرگانِ دین، یعنی صوفیائے کرام نے ایمان ویقین کی ترقی کے لئے جو راہ اختیار کی اس میں بھی بنیادی چیز یہی تھی۔ صحابہ کرامؓ نے دین کو اصل مقصدِ زندگی بنا کر اس کی فکر کی تھی، اللہ تعالیٰ نے دُنیا ان کے قدموں میں ڈال دی۔ وہی اللہ اب بھی ہے اور اس کا قانون اب بھی وہی ہے۔