ہماری مختصر زندگی کے شب و روز کس چیز کی آرزو اور جستجو میں گزرتے ہیں ؟ کامیابی کی! کامیاب زندگی کی! کامیابی کا لفظ، کامیابی کا تصور، کامیابی کا خیال اور کامیابی کی منزل: زندگی میں ان سے زیادہ حسین، دل نواز اور محبوب کوئی اور شے نہیں۔
EPAPER
Updated: August 25, 2025, 4:58 PM IST | Khurram Murad | Mumbai
ہماری مختصر زندگی کے شب و روز کس چیز کی آرزو اور جستجو میں گزرتے ہیں ؟ کامیابی کی! کامیاب زندگی کی! کامیابی کا لفظ، کامیابی کا تصور، کامیابی کا خیال اور کامیابی کی منزل: زندگی میں ان سے زیادہ حسین، دل نواز اور محبوب کوئی اور شے نہیں۔
ہماری مختصر زندگی کے شب و روز کس چیز کی آرزو اور جستجو میں گزرتے ہیں ؟ کامیابی کی! کامیاب زندگی کی! کامیابی کا لفظ، کامیابی کا تصور، کامیابی کا خیال اور کامیابی کی منزل: زندگی میں ان سے زیادہ حسین، دل نواز اور محبوب کوئی اور شے نہیں۔ ہم زندگی بھر کسی نہ کسی کامیابی کی تلاش میں سرگرداں اور کوشاں رہتے ہیں۔ ہمارا ہر کام ہر بھاگ دوڑ اور ہر مہم کا مقصود و مطلوب کامیابی کا حصول ہوتا ہے۔ ہم ہر چھوٹا بڑا قدم کامیابی کی دھن میں اٹھاتے ہیں، بڑے بڑے حیرت انگیز معر کے بھی اسی دھن میں سر کر لیتے ہیں۔ پوری زندگی، کامیاب زندگی ہو، پھر اس سے بڑی آرزو اور کیا ہو سکتی ہے۔
کامیابی کیا ہے ؟ اپنے مقصود کو پالینا ہی کامیابی ہے۔ ہر کام کا کوئی نہ کوئی مقصود ہوتا ہے، تو پھر ساری زندگی کا مقصود کیا ہے ؟ کیا یہ کہ ہم کھیل کود اور لہو ولعب سے اپنے دل کو بہلا لیں اور تفریح کے مزے لوٹیں ؟ یا یہ کہ ہم جسم کی، لباس کی، مکان کی زیب و زینت اور آرائش و زیبائش سے اپنے دل و نگاہ کی لذت کا سامان کر لیں ؟ یا یہ کہ سامانِ زینت، مال و دولت، تعداد و قوت اولاد و برادری، نام و شهرت اور رتبه و اقتدار زیادہ سے زیادہ حاصل کر لیں، دوسروں کے مقابلے میں آگے بڑھ جائیں ، ان پر برتری حاصل کر لیں ؟ بے شک ان میں سے ہر چیز کی کشش ہمارے اندر رکھی گئی ہے (آل عمران: ۱۴)، ہر چیز میں زندگی کے لئے قدر و قیمت ہے، ہر چیز میں لذت اور عیش کا سامان ہے، اور بے شک ان میں سے کوئی چیز بھی حرام نہیں ہے: ’’پوچھو کس نے اللہ کی زینت کو حرام کیا ہے، جو اس نے اپنے بندوں کے لئے بنائی ہے ‘‘ (الاعراف:۳۲) لیکن ان میں سے ہر کامیابی کی لذت اور عیش بس آخری سانس تک ہے۔ ان میں سے ہر چیز لہلہاتی ہوئی کھیتی کی طرح بالآخر خشک ہو جاتی ہے، زرد پڑ جاتی ہے، اپنی زینت اور لذت کھو دیتی ہے اور چورا چورا یا ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں مل جاتی ہے۔ اس جہانِ بے وفا کی ہر چیز کا مقدر فنا پر منتج ہوتا ہے: `’’ہر چیز جو اس زمین پر ہے فنا ہو جانے والی ہے۔ ‘‘ (الرحمٰن:۲۶)
پھر کیا کوئی نسخہ ایسا بھی ہے جو ان فنا ہونے والی لذتوں کو ابدی لذتوں میں، یہاں کے عارضی عیش کو ہمیشہ ہمیشہ کے عیش میں تبدیل کر دے اور مٹ جانے والی متاع کے بدلے میں ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتوں سے جھولی بھر دے ؟
ہاں، قرآن کہتا ہے ایسا نسخہ موجود ہے اور وہ بڑا آسان اور یقینی بھی ہے۔ یہ نسخہ تقویٰ کی زندگی ہے۔ تقویٰ کی زندگی کیا ہے ؟ وہ زندگی جس کا مقصود و مطلوب اللہ تعالیٰ ہو، جس کا مرکز و محور اُس کی عبادت اور بندگی ہو، اس کی اطاعت ہو اور اس کی محبت ہو۔ ہمارے دلوں میں صرف اللہ تعالیٰ کی حاکمیت قائم ہو۔ نہ تو خواہش نفس ہو نہ ہی عیش و لذاتِ دُنیا کی خواہش ہو، نہ جاہ و مال کی تمنا ہو نہ ہی نام و نمود کی۔ ہر کام اللہ کے حکم سے ہو۔ چونکہ اللہ تعالیٰ ہی معبود اور محبوب ہے اس لئے کوئی کام ایسا نہ ہو جو اس کو ناراض کرنے والا ہو، ایسا کام کرنا اتنا ہی ناگوار اور نا قابل برداشت ہو جیسے آگ میں جلنا۔
ایسی زندگی ہی کو قرآن میں تقویٰ کی زندگی بتایا گیا ہے اور ایسی ہی زندگی کیلئے دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیوں کی خوش خبری ہے۔ یہی زندگی ہر قسم کے نقصان اور ضرر کے خوف اور غم کے تاریک سایوں سے محفوظ ہے۔ یہی زندگی کامیاب زندگی ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا: ’’سنو! جو اللہ کے دوست ہیں، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا، ان کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے، دُنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کیلئے بشارت ہی بشارت ہے، اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔ ‘‘ (یونس: ۶۲؍ تا ۶۴)
اللہ تعالیٰ ہمارا مولیٰ ہے، ہمارے اوپر شفیق و رحیم ہے اور ہمارا خیر خواہ ہے اسی لئے وہ ہم سب کو اگلوں کو بھی اور پچھلوں کو بھی ایک ہی وصیت فرماتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم تقویٰ کی زندگی بسر کریں۔ فرمایا گیا: ’’تم سے پہلے جن کو ہم نے کتاب دی تھی انہیں بھی یہی ہدایت کی تھی اور اب تم کو بھی یہی ہدایت کرتے ہیں کہ خدا سے ڈرتے ہوئے کام کرو۔ ‘‘ (النساء:۱۳۱)
اللہ کے سارے انبیاء یہی پیغام لے کر آئے، اسی کی تعلیم دی، اسی مقصد کیلئے زندگیوں کا تزکیہ کیا کہ صرف اللہ کو معبود بناؤ اور تقویٰ کی زندگی اختیار کرو۔ اس مقصد کے لئے ہمارا کہنا مانو، کہ اللہ پر ایمان اور اس سے محبت کا راستہ اپناؤ: ’’میں تمہارے لئے ایک امانت دار رسول ہوں، لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ ‘‘ (الشعراء: ۱۰۷۔ ۱۰۸)۔ غور کیجئے تو قرآن مجید بھی متقی بننے کا کورس ہے، راہ نما اور گائیڈ ہے۔ ھدی لِلمُتّقین یہی نزول قرآن کا مقصد ہے۔ وہ زندگی کو سنوارتا ہے، تقویٰ کی راہ کھولتا ہے، اس پر چلاتا ہے، اس کو پختہ تر کرتا ہے کیونکہ دنیوی کامیابی کا انحصار بھی تقویٰ ہی پر ہے اور تقویٰ ہی پر آخرت کی کامیابی کا مدار بھی ہے۔ روحانی صحت، دل کی طمانیت، آنکھوں کی ٹھنڈک اور محبت خاطر، تقویٰ ہی کا نتیجہ ہے۔
८ دُنیوی لحاظ سے کامیاب زندگی کیا ہے ؟ جو آسمان و زمین کی نعمتوں سے مالا مال ہو، اس کا حصول تقویٰ پر منحصر ہے: ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ ‘‘ (سورہ الاعراف: ۹۶)۔ یاد رہنا چاہئے کہ تقویٰ کا لازمی نتیجہ استغفار ہے اور استغفار کے نتیجے میں آسمان و زمین سے برکتوں کے دہانے کھل جاتے ہیں : ’’وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا، تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لئے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کر دے گا۔ ‘‘ (نوح : ۱۱-۱۲)۔ کامیاب زندگی وہ ہے جسے دشمن کی چالوں اور تدبیروں سے حفاظت حاصل ہو۔ یہ بھی تقویٰ کے ساتھ مشروط ہے: ’’کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہوسکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو۔ ‘‘ (آل عمران:۱۲۰)
کامیاب زندگی وہ ہے جس میں مشکلات آسان ہوں، دشواریوں میں راستہ نکلے، رزق نصیب ہو اور ہر کام آسان ہو۔ اس کا وعدہ متقین سے کیا گیا ہے:’’جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اُس کیلئے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا، اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اُس کا گمان بھی نہ جاتا ہو، جو اللہ پر بھروسا کرے اس کیلئے وہ کافی ہے اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے اللہ نے ہر چیز کیلئے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔ ‘‘ (الطلاق:۲۔ ۳) دنیا و آخرت میں اللہ کی معیت اور محبت اور اس کے نزدیک قبولیت کی بشارت بھی متقین کیلئے ہے: ’’اور جان لو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے۔ ‘‘ (توبہ:۱۲۳)۔ اس عنوان پر یہ بھی فرمایا کہ ’’اللہ تو متقیوں ہی کی نذریں قبول کرتا ہے۔ ‘‘ (المائدہ:۲۷)اور یہ بھی کہ ’’اللہ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے۔ ‘‘ (التوبہ:۴)