• Tue, 15 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

وقف کو محفوظ کرنے کے بجائے اس کو غیر محفوظ بنانے کی منصوبہ بند سازش قسط ۱

Updated: September 20, 2024, 5:29 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

صحابہؓ میں وقف کرنے کا عام ذوق تھا، یہ بھی معلوم ہوا کہ خود اپنی اولاد پر بھی وقف کیا جا سکتا ہے؛ کیونکہ اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا بھی باعث اجروثواب ہے؛ چنانچہ آپؐ نے فرمایا کہ اولاد کو خوش حال ومستغنی چھوڑ کر جانا فقیر ومحتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے۔

Islamic Shari`ah concept of Waqf is that it is directly owned by Allah Ta`ala. Photo: INN
وقف کے بارے میں شریعت اسلامی کا تصور یہ ہے کہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہوتی ہے۔ تصویر : آئی این این

وقف اسلام کی نظر میں 
 پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب انسان دنیا سے گزر جاتا ہے تو عمل کا رشتہ اس سے کٹ جاتا ہے، سوائے تین صورتوں کے، یا تو صالح اولاد کو چھوڑ کر جائے جو اس کے لئے دعاء کا اہتمام کرے، یا اس نے کوئی ایسا علمی کام چھوڑا ہو جس سے لوگوں کو نفع پہنچتا رہے خواہ یہ شاگردوں کی صورت میں ہو، تصنیفات کی صورت میں ہو یا تعلیمی اور اشاعتی اداروں کی صورت میں، تیسرے: صدقۂ جاریہ، یعنی انسان کوئی ایسی مادی چیز چھوڑ کر جائے جس کا نفع لوگوں کو حاصل ہوتا رہے، جیسے کنواں کھدوائے، کوئی ایسی بلڈنگ بنا دے جس کا کرایہ فقراء پر صَرف ہو، مسجد تعمیر کر دے جس میں لوگ نماز پڑھتے رہیں۔ (صحیح مسلم، کتاب الوصیۃ، باب ما یلحق الانسان من الثواب بعد وفاتہ، حدیث نمبر: ۴۳۱۰)
 صدقۂ جاریہ کی صورت کو شریعت اسلامی میں ’’ وقف‘‘ کہتے ہیں۔ حدیث و سیرت کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلا وقف خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب آپؐ مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلے تعمیر مسجد کی فکر فرمائی اور حضرت سہل وسہیل رضی اللہ عنہما کی زمین خرید کر مسجد کیلئے وقف کر دی۔ مسجد کے علاوہ انسانی خدمت کیلئے بھی وقف کا سلسلہ آپؐ نے شروع فرمایا، مُخَیریق نامی صاحب نے اپنی اراضی کی رسولؐ اللہ کیلئے وصیت کی تھی، آپ ؐؐ نے اسے وقف فرما دیا (فتح الباری: ۵؍۳۰۱)۔ اس کے علاوہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے مدینہ کے اپنے سات باغات کو بنو ہاشم اور بنو مطلب پر وقف فرمایا تھا۔ (سنن بیہقی:۶؍۱۶)
 اکثر دولت مند اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اپنی اپنی گنجائش اور صلاحیت کے مطابق وقف فرمایا ہے۔ حضرت عثمانؓ غنی نے میٹھے پانی کا کنواں ’’ بئر رومہ‘‘ خریدا اور اسے مسلمانوں کیلئے وقف فرما یا تھا۔ (صحیح البخاری، باب مناقب عثمان بن عفانؓ )حضرت جابر ؓ نے اپنا ایک باغ اللہ کے راستہ میں وقف فرما دیا جس کا ذکر متعدد حدیثوں میں موجود ہے۔حضرت عمرؓ فاروق نے نہ صرف وقف قائم فرمایا؛ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایات کی روشنی میں اس کے قواعد وضوابط بھی مقرر فرمائے۔ 
 حضرت عبداللہؓ بن عمر سے مروی ہے کہ حضرت عمرؓ نے اپنی خیبر کی زمین کے سلسلہ میں حضورؐ سے مشورہ کیا، آپؐ نے ارشاد فرمایا: ایسا ہو سکتا ہے کہ اصل شئے کو باقی رکھتے ہوئے اس کی آمدنی کو صدقہ کر دو کہ اصل زمین نہ خرید وفروخت کی جائے، نہ ہبہ کی جائے اور نہ اس میں میراث جاری ہو چنانچہ حضرت عمرؓ نے اس مشورہ پر عمل کرتے ہوئے فقراء، قرابت دار، غلام، مسافر اور مہمانوں کو اس کا مصرف قرار دیا، آپؓ نے یہ بھی فرمایا کہ متولی کو اس میں سے کھانے یا اپنے دوستوں کو کھلانے کی اجازت ہوگی۔ ذخیرہ کرنے کی اجازت نہ ہوگی، (بخاری، کتاب الشروط، باب الشروط فی الوقف، مسلم، کتاب الوصیۃ، باب الوقف) یہ وضاحت بھی کر دی کہ ام المؤمنین حضرت حفصہؓ اور ان کے بعد حضرت عبداللہؓ بن عمرمتولی ہوں گے اور ان کے بعد وہ شخص متولی ہوگا جو آلِ فاروقی میں سب سے بڑا ہو۔
 اس طرح یہ پہلا وقف تھا، جس کے مصارف واضح کئے گئے، وقف کرنے والے کی طرف سے شرائط مقرر ہوئیں اور وقف کی تولیت کے سلسلہ میں صراحت کی گئی؛ چنانچہ شریعت اسلامی میں وقف کے قوانین کی اصل بنیاد یہی وقف فاروقی ہے، اس کے بعد صحابہؓ کی جانب سے بہ کثرت وقف کا اہتمام کیا گیا، حضرت جابرؓ کی روایت ہے کہ جن صحابہ کو بھی مالی گنجائش تھی، انہوں نے وقف کیا ہے۔ (المغنی لابن قدامہ: ۸؍ ۱۸۵) مشہور فقیہ علامہ ابن قدامہؒ نے متعدد صحابہ کے اوقاف کا ذکر کیا ہے۔ حضرت ابو بکرؓ صدیق نے اپنا مکان اپنے لڑکے پر وقف کر دیا تھا، حضرت عمرؓ نے مروہ کے پاس واقع اپنی ایک زمین اپنے لڑکے پر وقف کی تھی، حضرت عثمانؓ کے بارے میں گزر چکا ہے کہ انہوں نے بڑی قیمت ادا کر کے ایک کنواں خرید کیا اور اسے وقف کر دیا، حضرت علیؓ نے ’’ینبع‘‘ میں ایک زمین وقف کی تھی، حضرت زبیرؓ نے مکہ میں، مصر میں اور مدینہ میں اپنے مکانات وجائیداد اپنی اولاد پر وقف کئے تھے، حضرت سعدؓ نے مدینہ اور مصر میں اپنا گھر اپنی اولاد پر وقف کیا تھا، حضرت عمروؓبن عاصنے ’’ وہط‘‘ نامی مقام کی اراضی اور مکہ کے مکان کو وقف علی الاولاد فرمایا تھا، حضرت حکیمؓ بن حزام نے مکہ ومدینہ کے مکانات کو وقف علی الاولاد کیا تھا۔ (المغنی: ۸؍۱۸۶)
  اس سے معلوم ہوا کہ صحابہؓ میں وقف کرنے کا عام ذوق تھا، یہ بھی معلوم ہوا کہ خود اپنی اولاد پر بھی وقف کیا جا سکتا ہے؛ کیونکہ اولاد کے ساتھ حسن سلوک کرنا بھی باعث اجروثواب ہے؛ چنانچہ آپؐ نے فرمایا کہ اولاد کو خوش حال ومستغنی چھوڑ کر جانا فقیر ومحتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے۔
 حضرت عمرؓ نے وقف کیلئے جو شرائط مقرر کی تھیں، ان سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ وقف کی ہوئی چیزوں میں وقف کرنے والے کے منشاء کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ وقف کی ہوئی چیز سے وقف کرنے والے کی شرط کے دائرہ میں رہتے ہوئے متولی بھی استفادہ کر سکتا ہے؛ البتہ وہ اسے فروخت نہیں کر سکتا، اور متولی چونکہ خود وقف کرنے والا بھی ہو سکتا ہے؛ اس لئے یہی روایت اس بات کی دلیل ہے کہ خود وقف کرنے والا بھی وقف کی ہوئی چیز سے استفادہ کر سکتا ہے؛ البتہ مسجد کے سوا جو بھی وقف ہو، اس کا آخری مصرف فقراء اور حاجت مند ہونگے، چاہے وقف کرنے والے نے اس کی صراحت کی ہو، یا نہیں کی ہو؛ کیوں کہ وقف کا اصل مقصد اجروثواب کا حصول ہے اور اجروثواب حاصل کرنے کا اعلیٰ طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کیلئے اس کا استعمال یا مصرف ہو یا اس سے مستحقین اور ضرورتمندوں کی ضرورت پوری کی جائے۔
 وقف پر نہ و قف کرنے والے کی ملکیت باقی رہتی ہے، نہ اس پر متولی کی ملکیت ہوتی ہے اور نہ اُن لوگوں کی جن کو اس سے نفع اٹھانے کا حق دیا گیا ہے؛ بلکہ وقف کے بارے میں شریعت اسلامی کا تصور یہ ہے کہ وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہوتی ہے۔ (درمختار مع الرد، کتاب الوقف: ۳؍ ۴۹۳) چونکہ اسلام میں صرف عبادت ہی کارِ ثواب نہیں ہے بلکہ انسانی خدمت بھی باعث اجرو ثواب ہے؛ اس لئے وقف کا دائرہ بہت وسیع ہے، جیسے فقراء کو نفع پہنچانے والی چیزوں کا وقف درست ہے، اسی طرح ایسا وقف بھی درست ہے جس سے فقراء اور مالدار دونوں فائدہ اٹھا سکیں، یہاں تک کہ خود اپنی اولاد پر وقف کرنا بھی درست ہے (دیکھئے: درمختار، فصل فیما یتعلق بوقف الاولاد: ۳؍ ۶۰۴) چنانچہ مدارس، مساجد، یتیم خانے، غرباء کی امداد کیلئے قائم کئے ہوئے ادارے، دینی یا عصری تعلیم کے خیراتی ادارے، مریضوں کے علاج، بیواؤں کی کفالت اور اس طرح کے فلاحی مقاصد کیلئے قائم ہونے والے ادارے، جن کا مقصد تجارت کرنا اور کسی خاص فرد کیلئے مادی نفع حاصل کرنا نہ ہو، وہ سب کے سب اوقاف میں داخل ہیں۔ اس سے اس موضوع کی وسعت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ 
وقف بِل کیوں قابل قبول نہیں ؟
  موجودہ حکومت نے جو ۱۹۹۵ء کے قانون میں ترمیمی بل پیش کیا ہے، وہ وقف کو محفوظ کرنے کے بجائے اس کو غیر محفوظ بنانے کی منصوبہ بند سازش ہے؛ اس لئے کہ اس ترمیم کے مطابق:
 (۱) وقف بذریعہ استعمال کو ختم کر دیا گیا ہے یعنی وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء میں یہ بات درج ہے کہ اگر طویل عرصے سے کوئی جائیداد بطور مسجد، درگاہ یا قبرستان استعمال میں ہے اور مذہبی اور خیراتی مقاصد کیلئے ہے تو اس کو وقف جائیداد تسلیم کیا جائے گا۔ اب وقف بذریعہ استعمال کے خاتمہ سے یہ ہوگا کہ جو مسجد، مدرسہ، درگاہ یا قبرستان صدیوں سے اس مقصد کیلئے استعمال ہو رہا ہے، اگر مال گزاری ریکارڈ میں ان کا اندراج نہیں ہے تو ریاستی حکام اس پر ناجائز قبضہ کر سکتے ہیں، اور اس کی وجہ سے مسجدوں اور دیگر اوقاف پر فرقہ وارانہ دعوے اور اختلافات بھی بڑھ جائینگے؛ حالاں کہ ہندو مذہبی مقامات کیلئے اسی اصول کو تسلیم کیا گیا ہے اور جو جگہ یا عمارت عرصہ سے مذہبی مقاصد کے لئے استعمال ہو رہی ہے، اس کو اسی حیثیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ 
 (۲) سنٹرل وقف کونسل میں غیر مسلم نمائندوں کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے، اور مسلمان نمائندوں کی تعدا بڑی حد تک کم کر دی گئی ہے، پہلے صرف ایک غیر مسلم وقف کونسل کا رُکن ہو سکتا تھا، اب ان غیر مسلم اراکین کی تعداد بحیثیت رکن وبحیثیت عہدہ ۱۳؍ ہو سکتی ہے، اوردو غیر مسلم اراکین تو لازماًشامل ہوں گے۔
 پہلے ریاستی وقف بورڈ میں صرف ایک غیر مسلم اس کا چیئر پرسن ہو سکتا تھا، جبکہ باقی سارے اراکین مسلمان ہوتے تھے اور انتخاب کے ذریعہ آتے تھے، اب بورڈ کے ۷؍ اراکین غیر مسلم ہو سکتے ہیں اور دو اراکین کا غیر مسلم ہونا لازمی ہے، نیز اراکین کو وقف بورڈ منتخب نہیں کرے گا؛ بلکہ ریاستی حکومت نامزد کرے گی۔
 (۳) یہ شرط تھی کہ وقف بورڈ کا چیف ایگزیکٹیو افسر مسلمان ہوگا، اب اس شرط کو بھی ہٹا دیا گیا ہے، اب اس کے بجائے ریاستی حکومت کوئی غیر مسلم چیف ایگزیکٹیو افسر بھی مقرر کر سکتی ہے، اور اس عہدہ کیلئے وقف بورڈ کی سفارش بھی ضروری نہیں ہوگی۔
 غرض کہ مسلمانوں کی نمائندگی کو خاص طور پر اس طرح نشانہ بنایا گیا ہے کہ لازمی مسلم اراکین کی تعداد کم کر دی گئی ہے، اور لازمی غیر مسلم اراکین کو شامل کر دیا گیا ہے، اور چیف ایگزیکٹیو افسر کے مسلمان ہونے کی شرط بھی ختم کر دی گئی ہے۔ یقیناً یہ تجاویز دستور ہند کی دفعہ (۲۶) کے بالکل منافی ہیں، جس میں کہا گیا ہے:
 ’’ اس شرط کے ساتھ کہ امن عامہ، اخلاق عامہ اور صحت عامہ متأثر نہ ہوں، ہر ایک مذہبی فرقے یا اس کے کسی طبقے کو حق ہوگا، (الف) مذہبی امور کا انتظام خود کرنے کا (ب) منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کے مالک ہونے اور اس کو حاصل کرنے کا اور (ج) ایسی جائیداد کا قانون کے بموجب انتظام کرنے کا۔‘‘
 اس طرح عملاً وقف بورڈ غیر مسلم انتظامیہ کے تحت چلا جائے گا، جو نہ وقف کے احکام شرعیہ سے واقف ہونگے، نہ ان کی اس سے اعتقادی وابستگی ہوگی اور نہ ان کو اس سے کوئی ہمدردری ہوگی؛ اس لئے یہ بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ مسلمانوں سے وقف کو چھیننے کی ناپاک کوشش ہے۔
 اس کے برعکس اترپردیش، کیرالا، کرناٹک اور تامل ناڈو جیسی ریاستوں میں ایسے قانون موجود ہیں، جن کے مطابق ہندو جائیدادوں کا انتظام صرف ہندو ہی کر سکتے ہیں، بہار اینڈومینٹ ایکٹ کے تحت تین بورڈ قائم ہیں، ہندو اینڈومینٹ بورڈ، شوتمبر جین اینڈومینٹ بورڈ اور ڈگمبرجین اینڈومینٹ بورڈ، ان بورڈوں کے اراکین لازمی طور پر ہندو ہی ہوں گے، گرودوارہ پربندھک کمیٹی کے اراکین بھی لازمی طور پر سکھ فرقےمیں سے ہونگے مگر وقف؟ یہ تو عجیب تبدیلی کی جارہی ہے!
(جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK