قرآن و حدیث کی واضح رہنمائی کے باوجود معاشرے میں بے اعتدالیاں نظر آتی ہیں۔ بہت سے لوگ توکل علی اللہ کو اپنی تن آسانی کیلئے جواز بنا لیتے ہیں حالانکہ توکل کیلئے یقین اور اپنی استطاعت کے مطابق اسباب ووسائل کا استعمال بھی ضروری ہے۔
حضرت ہاجرہؓ کی بندگی و فرماں برداری اور توکل و سعی کے مثالی واقعہ کی یادگار کے طور پر اللہ تعالیٰ نے سعی کے سات چکروں کو ہر حج و عمرہ کرنے والے پر و اجب کردیا ہے۔ تصویر:آئی این این
اللہ عزیز و حکیم پر بھروسا ہر مسلمان کے عمل اور سعی کی بنیاد ہے۔ وہ رحیم و کریم ہے۔ اپنی رحمت اور اپنے علم سے ہر چیز پر چھایا ہوا ہے ( سورہ غافر: ۷)، جو چاہتا ہے کرتا ہے ( سورہ البروج: ۱۶)، وہ جب کسی کام کو کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے حکم سے وہ کام فوراً ہوجاتا ہے۔ اسی کے ہاتھ میں ہر چیز کی حکمرانی اور بادشاہی ہے اور اسی کی طرف سب کو لوَٹ کر جانا ہے (سورہ یٰسین: ۸۲۔۸۳)، وہ اپنے ہر کام پر غالب ہے (سورہ یوسف:۲۱)، نفع و ضرر کا مالک ہے، اس کے حکم و قضا کو کوئی رد کرنے والا نہیں ۔ (سورہ انعام:۱۷۔۱۸، سورہ یونس: ۱۰۷، سورہ الزمر:۳۸)۔
اس طرح کی آیات، جو پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہیں، ان کو دیکھنے کے بعد ہر مومن کو اس بات پر اطمینان ِ قلب حاصل ہوجاتا ہے کہ ہمیں اپنے سارے معاملات میں صرف اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہئے۔ وہ ہمارے لئے کافی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ (اللہ) اسے کافی ہے۔‘‘ (الطلاق:۳)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
’’کہہ دیجئے، مجھے اللہ کافی ہے، اسی پر توکل کرنے والے بھروسہ کرتے ہیں۔‘‘ (الزمر:۳۸)
اللہ پر توکل کے ساتھ ہی اپنے امکان کی حد تک سعی و جدوجہد بھی ضروری ہے ورنہ اللہ تعالیٰ نے جو ذہنی و جسمانی صلاحیتیں دے رکھی ہیں اور میدان عمل میں کامیابی کے جو امکانات پیدا کررکھے ہیں ان کا صحیح استعمال نہ کرنےسے ان نعمتوں پر رب کریم کی ناشکری ہوتی ہے۔
اس سلسلے میں اکثر بے اعتدالیاں ہوجاتی ہیں۔ قرآن و حدیث کی واضح رہنمائی کے باوجود مسلم معاشرے میں بھی یہ بے اعتدالیاں نظر آتی ہیں۔ بہت سے لوگ توکل علی اللہ کو اپنی تن آسانی کے لئے جواز بنا لیتے ہیں۔ دنیا و آخرت میں فلاح پانے کیلئے اس دارالامتحان میں اللہ کے بندے کی طرح زندگی گزارنے کیلئے اپنے امکان کی حد تک سعی اور جدوجہد کی جو اہمیت ہے اسے نظرانداز کردیتے ہیں۔
دوسرے بہت سے لوگ اپنی سعی و جدوجہد ہی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں۔ نعمتیں جو اللہ کی طرف سے انہیں آزمائش کے طور پر ملی ہوتی ہیں ان کو محض اپنے ذاتی فضل و کمال کا ثمرہ سمجھنے لگتے ہیں اور ان نعمتوں کو منعم حقیقی، اللہ رب العزت کی مرضی کے مطابق نہیں استعمال کرپاتے۔ قرآن کی واضح ہدایات ہیں مثلاً : ’’اور قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو اور محتاجوں اور مسافروں کو بھی (دو) اور (اپنا مال) فضول خرچی سے مت اڑاؤ، بیشک فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے۔‘‘ (سورہ الاسراء:۲۶۔۲۷)۔ وہ ان احکامات کے باوجود فضول خرچی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ نام و نمود کے لئے خرچ کرتے ہوئے تکبر میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ جن کو مال و اولاد میںاپنے سے کمتر پاتے ہیں ان کے مقابلے میں اپنے کو بڑا سمجھتے ہیں اور یہ نہیں خیال کرتے کہ ان کی ابتداء تو مٹی سے ہے، اس کے بعد انہیں جو بھی صلاحیتیں اور نعمتیں ملی ہیں وہ ان کے رب کی عطاکردہ ہیں اور ان کی آزمائش کیلئے دی گئی ہیں۔ (الانعام:۱۶۵)
ایسے لوگ اپنی تدابیر اور اپنی ذہنی و جسمانی قوتوں کو اپنی ذاتی برتری سمجھنے لگتے ہیں گویا وہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں گی۔ حقیقت ان کی سمجھ میں اس وقت آتی ہے جب اللہ کے حکم سے کوئی آفت آتی ہے اور وہ ساری صلاحیتیں اور تدابیر ان کو خسارے سے نہیں بچا پاتیں۔ (سورہ الکہف: ۳۲؍تا۴۴) ، القصص: ۷۶؍تا ۸۲، الزمر:۴۹؍تا ۵۲) یا پھر موت آکر ان لذتوں اور آسائشوں کو منقطع کردیتی ہے اور انہیں اللہ کے حکم کے تحت سب کچھ چھوڑ کر جانا پڑتا ہے۔ (سورہ الانعام:۹۳۔۹۴، الواقعہ: ۸۳؍تا۸۳)
اس سلسلے میں قرآن کی وضع کردہ راہ اعتدال کو حضور اقدسؐ نے اپنے قول و عمل سے پوری طرح واضح کردیا ہے۔ یہاں پر کچھ مثالیں پیش کی جارہی ہیں:
صفاو مروہ کے درمیان سعی
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
’’بیشک صفا اور مروہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ہیں، چنانچہ جو شخص بیت اﷲ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے (درمیان) چکر لگائے، اور جو شخص اپنی خوشی سے کوئی نیکی کرے تو یقیناً اﷲ (بڑا) قدر شناس (بڑا) خبردار ہے۔‘‘ (البقرہ:۱۵۸)
حج و عمرہ میں صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا واجب ہے۔ اس کی ابتداء کے بارے میں احادیث (صحیح بخاری، ج۴، حدیث۵۸۳، فتح الباری، ج ۷، ص۲۱۰) کی روشنی میں جو تفصیلات سامنے آتی ہیں ان میں اللہ کی بندگی، اس پر توکل اور اپنے امکان کی حد تک سعی کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کو جب اللہ کا حکم ہوا کہ اپنے شیرخوار بچے (حضرت اسماعیلؑ) اور بیوی حضرت ہاجرہؓ کو مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں بسا دو تو وہ فوراً حکم کی تعمیل میں چل نکلے اور اللہ کی رہنمائی میں، اُنہیں حرم مکہ میں بیت اللہ کے پاس لا چھوڑا۔ جب واپس جانے لگے تو بیوی حضرت ہاجرہؓ ان کے پیچھے دوڑیں کہ آپ ہمیں اس بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟ بار بار پوچھنے کے باوجود حضرت ابراہیم ؑ نے کوئی جواب نہیں دیا تو انہوں نے خود ہی پوچھا کہ کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟ حضرت ابراہیمؑ نے کہا : ’ہاں۔‘ یہ سن کر نیک بیوی نے کہا : پھر آپ بے شک جائیے، اللہ ہمیں نظرانداز نہیں کرے گا۔ انہیں اللہ کی ذات پر پورا بھروسا تھا، چنانچہ اپنے فرزند اسماعیل کو لے کر وہیں بیٹھ گئیں جہاں ابراہیم ؑ چھوڑ گئے تھے۔
بچے (حضرت اسماعیلؑ) کو دودھ پلاتی رہیں لیکن جب ساتھ کا پانی ختم ہوگیا تو پریشانی بڑھی۔ بچہ بھی پیاس سے تڑپنے لگا تو یہ دیکھنے کے لئے کہ شاید کہیں پانی نظر آجائے یاکچھ لوگ نظر آجائیں جن سے کچھ مدد پہنچے، پہلے صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر دیکھا۔ اس سے اتر کر پھر مروہ کی پہاڑی پر چڑھیں۔ اس طرح پانی کی تلاش میں صفا و مروہ کے درمیان دوڑتی رہیں۔ نہ اس جگہ سے کہیں دور ہٹیں جہاں ابراہیمؑ اللہ کے حکم کے مطابق چھوڑ گئے تھے اور نہ ہی اس سعی اور کوشش میں کوئی کمی کی جسے وہ اللہ کی مرضی کی پابند رہتے ہوئے اپنے امکان کی حد تک کرسکتی تھیں۔
بالآخر سات چکر کے بعد دریائے رحمت زم زم کی صورت میں ابل پڑا جس کا فیض آج تک جاری ہے اور ان شاء اللہ ہےہمیشہ جاری رہے گا۔ ساتھ ہی بندگی و فرماں برداری ، توکل و سعی کے اس مثالی واقعہ کی یادگار کے طور پر اللہ تعالیٰ نے سعی کے سات چکروں کو ہر حج و عمرہ کرنے والے پر و اجب کردیا۔