امیر ہوں یا غریب، عالم ہوں یا جاہل، ہر ایک میں کم یا زیادہ تکبر نظر آتا ہے، ہر ایک کو اپنے نفس کا جائزہ لیتے ہوئے تکبر کو دور کرنا اور توبہ کرنا چاہئے۔
EPAPER
Updated: February 02, 2024, 1:03 PM IST | Mufti Muhammad Abd al-Mubin Nomani Qadri | Mumbai
امیر ہوں یا غریب، عالم ہوں یا جاہل، ہر ایک میں کم یا زیادہ تکبر نظر آتا ہے، ہر ایک کو اپنے نفس کا جائزہ لیتے ہوئے تکبر کو دور کرنا اور توبہ کرنا چاہئے۔
تکبر کی تعریف: خود کو اوروں سے اعلیٰ و افضل جاننا اور دوسرے کو حقیر سمجھنا تکبرہے۔ یہ ایسی قبیح اور مذموم چیز ہے جو سخت حرام اور گناہ ہے، بلکہ ہزاروں گناہوں کا سبب بھی۔ یہی وہ گناہ ہے جس نے ہمیشہ کے لئے ابلیس کو مردود بارگاہ الہٰی بنا دیا۔
تکبر صرف خدا کو ہی زیبا ہے، لہٰذا تکبر کرنے والا گویا خدا کا مقابلہ کرتا ہے۔
تکبر کی برائیاں
تکبر بہت سی برائیوں کی جڑ ہے۔ بالعموم اس سے یہ برائیاں پیدا ہوتی ہیں :
تکبر کرنے والا اپنے آگے دوسرے مسلمان بھائیوں کو حقیر وذلیل سمجھتا ہے جو ان کی ایذا کا سبب ہے اورمومن کو ایذا دینا خدا ورسول کے ایذا دینے کے مترادف ہے، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: ’’ جس نے کسی مسلمان کو (بلاوجہ) تکلیف دی، اس نے گویا مجھ کو ایذا دی اور جس نے مجھے کو ایذا دی گویا اس نے خدا کو ایذادی۔ ‘‘ متکبر آدمی سے لوگ دور بھاگتے ہیں اس سے ملنا بھی کوئی پسند نہیں کرتا۔ متکبر آدمی بے مروت اور سخت دل کا ہو جاتا ہے۔ متکبر آدمی اپنی بڑائی کو باقی رکھنے کے لئے بہت سے دوسرے ناجائز کاموں کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے۔
المختصر تکبر ایساگناہ ہے جس کی برائی پر سب متفق ہیں۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ تکبر کرنے والا تکبر تو شوق سے کرتا ہے لیکن جب بھی اس کو کہہ دیا جاتا ہے کہ تو بڑا متکبر ہے، گھمنڈی ہے، شیخی باز ہے تو ناراض بھی ہو جاتا ہے، بلکہ آگ بگولہ ہو جاتا ہے، یعنی متکبر خود بھی اس کو برائی سمجھتا ہے لیکن بچنے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ دنیا غالب ہوتی اور شیطان مسلط۔
علاج
تکبر کا علاج یہ ہے کہ دنیا کی مذمت میں جو آیات و احادیث وارد ہوئی ہیں ان کا مطالعہ کرے اور بار بار پڑھے۔ بزرگان دین اور اولیاء اللہ کی کثرت عبادت اور دنیا سے بے رغبتی کے واقعات پڑھے۔ غریبوں اوریتیموں کے سروں پر ہاتھ پھیرے۔
قرآن مجید میں تکبر کا ذکر
lابلیس نے جب اَنَا خَیْرٍمِنْہُ (میں آدم سے بہتر ہوں ) کہہ کر تکبر کی بنیاد ڈالی تو رب تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:’’ تو یہاں سے اتر جا تجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تو یہاں تکّبر کرے پس (میری بارگاہ سے) نکل جا بیشک تو ذلیل و خوار لوگوں میں سے ہے۔ ‘‘ (الاعراف:۱۳)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جنت تکبر کرنے والوں کی جگہ نہیں، جنت تو تواضع کے خوگروں کا ٹھکانا ہے۔
پھر آگے ارشاد خداوندی ہوتا ہے:’’ (اے ابلیس!) تو یہاں سے ذلیل و مردود ہو کر نکل جا، ان میں سے جو کوئی تیری پیروی کرے گا تو میں ضرور تم سب سے دوزخ بھر دوں گا۔ ‘‘ (الاعراف:۱۸)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ متکبر بارگاہ خدا کا راندہ ہوتا ہے بلکہ سب کی لعنت کا مستحق، اور یہ کہ جہنم تکبر والوں سے بھر دیا جائے گا۔
قرآن نے متکبرین کا ٹھکانا جہنم بتایا ہے: ’’تکبّر کرنے والوں کا کیا ہی برا ٹھکانا ہے۔ ‘‘ (النحل:۲۹)
’’کیا تکّبر کرنے والوں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں ہے؟‘‘ (الزمر:۶۰)
متکبر اللہ کو پسند نہیں :’’بیشک وہ سرکشوں متکبّروں کو پسند نہیں کرتا۔ ‘‘ (النحل:۲۳)
اللہ تعالیٰ کو تکبر کی چال بھی پسند نہیں :’’اور زمین میں اکڑ کر مت چل، بیشک تو زمین کو (اپنی رعونت کے زور سے) ہرگز چیر نہیں سکتا اور نہ ہی ہرگز تو بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے (تو جو کچھ ہے وہی رہے گا)ان سب (مذکورہ) باتوں کی برائی تیرے رب کو بڑی ناپسند ہے۔ ‘‘
(الاسراء: ۳۷۔ ۳۸)
قرآن میں بہت سی آیات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ جب انبیائے کرام علیہم السلام دین حق لے کر آئے تو کافروں سے انکار زیادہ تکبر ہی کی وجہ سے واقع ہوا۔ آج بھی تجربہ ہے کہ کسی متواضع، متقی اور نیک آدمی کے سامنے شریعت اسلامیہ کا کوئی مسئلہ رکھا جاتا ہے تو وہ فوراًسر تسلیم خم کر دیتا ہے اور حق بات قبول کر لیتا ہے لیکن وہی مسئلہ جب کسی متکبر اور مغرور کے پاس پیش ہوتا ہے تو جھٹ انکار کر دیتا ہے اور عقلی و منطقی جواب دے کر کنارہ کشی اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن نے اس کی منظر کشی متعدد آیات میں کی ہے۔ یہاں ایک آیت مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے:
’’ان کی قوم کے ان سرداروں اور رئیسوں نے جو متکبر و سرکش تھے ان غریب پسے ہوئے لوگوں سے کہا جو ان میں سے ایمان لے آئے تھے: کیا تمہیں یقین ہے کہ واقعی صالح (علیہ السلام) اپنے ربّ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا: جو کچھ انہیں دے کر بھیجا گیا ہے بیشک ہم اس پر ایمان رکھنے والے ہیں، متکبّر لوگ کہنے لگے: بیشک جس (چیز) پر تم ایمان لائے ہو ہم اس کے سخت منکر ہیں۔ ‘‘
(الاعراف:۷۵۔ ۷۶)
تکبر، احادیث کی روشنی میں
حضرت حارثہؓ بن وہب سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم کو جنت والوں کو نہ بتادوں (کہ کون لوگ ہوں گے) ہر وہ کمزور اور لوگوں کی نظر میں حقیر کہ اگر اللہ پر قسم کھالے تو وہ اس کی قسم پوری فرما دے۔ کیا میں تجھے جہنمیوں کے بارے میں نہ بتادوں (کہ کون لوگ ہوں گے) ہرسخت دل اور بخیل اور تکبر کرنے والا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، باب الغضب و الکبر بحوالہ بخاری و مسلم)
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو۔ اور وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہوگا۔ ( مشکوٰۃ، ترمذی)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ہی سے مروی ہے کہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں وہ شخص داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا، تو ایک شخص نے عرض کیا:آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں، اس کے جوتے عمدہ ہوں، تو کیا یہ تکبر ہے؟
اس پر سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: اللہ جمیل ہے (یعنی وہ حسن و جمال کا خالق ہے یا صفات جمیلہ وحسنہ کا مالک ہے) اور جمال کو پسند فرماتا ہے (یعنی اسے پسند ہے کہ اس کے بندے حسب توفیق حسن و جمال کا اظہار کریں ) تکبر تو حق کی مخالفت وانکار ہے اور لوگوں کو حقیر جاننا۔ (مسلم، ترمذی)