وحدت ِ الٰہی سے لے کر خواتین کے لئے وراثت میں حصہ تک تعلیمات ِ نبویؐ ایک ایسا منبع ہے جس سے ہر زمانہ، ہر دَور اور ہر طبقہ کے لوگ روشنی حاصل کرسکتے ہیں۔
EPAPER
Updated: September 05, 2025, 3:58 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
وحدت ِ الٰہی سے لے کر خواتین کے لئے وراثت میں حصہ تک تعلیمات ِ نبویؐ ایک ایسا منبع ہے جس سے ہر زمانہ، ہر دَور اور ہر طبقہ کے لوگ روشنی حاصل کرسکتے ہیں۔
قرآن مجید نے آپ ﷺ کو تمام عالم کے لئے رحمت قرار دیا ہے: وَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ (الانبیاء : ۱۰۷) اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ آپ ﷺ کی انقلاب انگیز تعلیمات پوری انسانیت کے لئے نفع اور خیر و فلاح کی ضامن ہیں ۔ پیغمبر اسلامؐ کی انقلابی شخصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن نے کہا ہے کہ آپ کے ذریعہ آئے ہوئے دین کو اللہ تعالیٰ غلبہ عطا کریں گے :لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّیْنِ كُلِّهٖ (التوبۃ : ۳۳) یہ صرف دعویٰ نہیں بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ آپؐ کے ذریعہ دنیا میں جو فکری انقلاب آیا اور اس کے نتیجہ میں ترقی اور انصاف کے راستے کھلے، وہ پیغام محمدیؐ کے غلبہ کی واضح مثال ہیں۔ پیغمبر اسلامؐنے جس صالح انقلاب سے دنیا کو بہرہ ور کیا اور آپ ﷺکی صحبت بافیض نے ذرہ کو آفتاب بنادیا، اکبر اِلٰہ آبادی نے اس کا خوب نقشہ کھینچا ہے :
دُر فشانی نے تری، قطروں کو دریا کردیا
دل کو روشن کردیا، آنکھوں کو بینا کردیا
خود نہ تھے جو راہ پر، اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا !
یوں تو آپ ﷺکے ذریعہ زندگی کے ہر شعبہ میں دُور رس تبدیلیاں آئیں ؛ لیکن ان میں سے چند پہلوؤں کا ذکر خاص طور پر ضروری معلوم ہوتاہے: ان میں پہلی بات یہ ہے کہ آپ ؐنے انسانیت کو ’ وحدتِ اِلٰہ ‘ کا تصور دیا۔ خدا کو ایک ما ننا بظاہر ایک سادہ سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن بمقابلہ الحاد و انکار اور شرک و مخلوق پرستی کے یہ ایک انقلابی عقیدہ ہے، خدا کا انکار انسان کو غیرذمہ دار، گناہوں کے بارے میں جری اور مادہ پرست بنا دیتا ہے کیونکہ اسے جواب دہی کا کوئی خوف نہیں ہوتا اور دُنیا اس کے لئے محض عشرت کدۂ حیات ہوتی ہے۔ اﷲ کے ایک ہونے کے تصور سے انسانیت کی تکریم اور اس کا اعزاز متعلق ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اس کی پیشانی غیراﷲ کے سامنے جھکنے سے ماوراء ہے اور خدا نے اس کو پوری کائنات پر فضیلت بخشی ہے۔ عقیدۂ توحید نے انسانیت کو اوہام پرستی سے نجات دلائی کیونکہ توحید پر ایمان رکھنے والا اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مخلوق اسے نفع و نقصان پہنچانے سے عاجز ہے۔ توحید کا عقیدہ انسان کے اندر خدا کی محبت اورخدا کا خوف پیدا کرتا ہے اور وہ دنیا کو عشرت کدہ سمجھنے کے بجائے امتحان گاہ سمجھ کر پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہے؛ اس لئے توحید کا عقیدہ انسانیت کے لئے بہت بڑی نعمت اورسامان رحمت ہے جو رسولؐ اﷲ کے ذریعہ انسانیت کو حاصل ہوا ہے۔
آپ ﷺ کی دوسری اہم تعلیم ’’ انسانی وحدت ‘‘ کا تصور ہے۔ آپؐ کی بعثت سے پہلے دنیا کی قریب قریب تمام تہذیبوں اور مذاہب میں انسان اور انسان کے درمیان فرق کرنے اور کچھ لوگوں کے پیدائشی طورپر معزز اور کچھ لوگوں کے حقیر ہونے کا تصور موجود تھا۔ یہودی جو تھے وہ اسرائیلی اورغیر اسرائیلی میں امتیاز کرتے تھے اور جو لوگ حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسل سے ہوں ، ان کو پیدائشی طورپر افضل و برتر جانتے تھے اور آج بھی ان کا یہی تصور ہے۔ ایران کے لوگوں کا خیال تھا کہ جولوگ بادشاہ کی نسل سے ہیں، وہ خدا کے خاص اور مقرب بندے ہیں ؛ بلکہ خدا کا کنبہ ہیں ۔ کم و بیش یہی حال دنیا کے مختلف علاقوں اور مختلف قوموں میں تھا۔
رسول اﷲ ﷺ نے ان حالات میں انسانی وحدت کا تصور پیش کیا اور پیدائشی طورپر افضل وبرتر اور حقیر وکہتر ہونے کے تصور کو رد فرمادیا۔ آپ ﷺ نے صاف اعلان کیاکہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر محض رنگ و نسل کی وجہ سے کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے؛ بلکہ فضیلت کا معیار انسان کا تقویٰ اور اس کا عمل ہے۔ اس اعلان نے عرب کے معزز قبائل اور حبش و روم کے بلالؓ و صہیبؓ کو ایک صف میں کھڑا کردیا؛ بلکہ یہ عجمی نژاد غلام جو کبھی حقارت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے، زعماء عرب کے لئے وجہ ِ رشک بن گئے اور حضرت عمر فاروقؓ جیسے فرمانروا بھی انہیں ’’ سردار ‘‘ کے لفظ سے مخاطب کرنے لگے۔ یہ آپؐ ہی کی تعلیمات کا نتیجہ ہے کہ اسلام کے پھیلنے کے ساتھ ہی تفریق و امتیاز کی زنجیریں کٹنے لگیں، انسانی مساوات کے نعرے ہرسو بلند ہوئے اوردنیا کی مظلوم و مقہور قوموں کو پیدائشی غلامی سے آزادی نصیب ہوئی۔ اگر کہیں کسی انسانی گروہ نے اپنی شقاوت اور جور و جفا سے اس ظلم کے سلسلہ کو جاری بھی رکھا، تو ان کو ہر طرف سے طعن و تشنیع کے الزام سننے پڑے اورمظلوموں کو ان کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا موقع فراہم ہوا۔ یہآپؐ کی رحمت عامہ کا ایسا شاندار اور مثالی پہلو ہے کہ کوئی صاحب بصیرت چاہے بھی تو نظر انداز نہیں کرسکتا۔
اس وحدت انسانی کے تصورنے زندگی کے تمام شعبوں پر اپنا اثر ڈالا، تما م لوگوں کیلئے ہر طرح کے پیشہ کا دروازہ کھل گیا اور پیشوں کی تحقیر و تذلیل کا تصور ختم ہوا، اس کے نتیجہ میں علم کی روشنی عام ہوئی اورہر ایک کیلئے تعلیم کا دروازہ کھلا، سماجی زندگی میں ہر ایک کیلئے باعزت طریقہ پر زندگی بسر کرنے کاموقع فراہم ہوا، جرم و سزا کے باب میں انصاف کا قائم کیا جانا ممکن ہوا، اور ہر ایک کیلئے اپنی تہذیب اور اپنی روایات کا تحفظ ممکن ہوسکا۔
اس انسانی وحدت کے تصور نے ایک نمایاں اثر سیاسی نظام پر بھی ڈالا۔ اسلام سے پہلے پوری دنیا کے سیاسی اُفق پر ملوکیت کا تصور چھایا ہوا تھا اور اس کے مقابلہ میں کوئی اور نظام سیاست عملاً موجود نہیں تھا۔ ظہور اسلام کے وقت جتنی معلوم طاقتیں تھیں، وہ سب ملوکیت کی نمائندہ تھیں۔ روم، ایران، حبش، یمن وغیرہ میں بادشاہت تھی، ہندوستان اور چین کے علاقوں میں بھی چھوٹے بڑے راجا تھے، غرض پوری دنیا بادشاہت کے آمرانہ نظام اور پنجہ ٔ استبداد کے تحت تھی، یہاں تک کہ یونان کے فلاسفہ نے جس جمہوریت کا نقشہ پیش کیا تھا، اس میں بھی ’’اَشراف ‘‘کی حکومت کا تصور تھا اور اقتدار میں عام لوگوں کی شرکت کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
اسلام نے انسانی وحدت اور مساوات کا جو تصور پیش کیا، اس نے خاندانی بنیاد پر حکومت واقتدار کے ارتکاز اور فرمانروائی کے تصور کو پاش پاش کردیا اور جمہوریت کے تصور نے غلبہ حاصل کرلیا۔ آپ ﷺنے عملی طورپر بھی اس کی مثال قائم فرمائی، متعدد بار جب آپؐ مدینہ سے باہر تشریف لے گئے تو حضرت عبداللہ بن اُم مکتوم ؓکو یہاں کا عارضی گورنر بنایا۔ جس فوج میں قریش کے معزز سردار تھے، ان پر آپؐ نے ایک آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ کو سپہ سالار بنایا۔ چنانچہ آج صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیا میں جمہوری نظام قائم ہے، جو اسلام کے تصور خلافت سے مستعار اور اپنی بعض خامیوں کے باوجود انسانی وحدت و مساوات کا علمبردار ہے، یہاں تک کہ آج یا تو بادشاہت کا وجود ہی نہیں ہے، یا ہے تو محض دستوری اورعلامتی بادشاہت ہے، اور اگر کہیں جبراً آمرانہ ملوکیت باقی ہے تو وہ پوری دنیا کی نگاہ میں قابل تحقیر اورلائق ملامت ہے۔
تعلیماتِ محمدیؐ کا تیسرا اہم پہلو علم کی حوصلہ افزائی ہے۔ آپؐ جس سماج میں تشریف لائے، وہاں لوگ اس بات کو سرمایۂ افتخار سمجھتے تھے کہ وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے، وہ بہت ہی فخر کے ساتھ اپنے ’’ اُمّی ‘‘ ہونے کی بات کہتے تھے۔ آپ ﷺ نے تعلیم و تعلم کی حوصلہ افزائی کی اور علم کو بلا امتیاز و تفریق ہر طبقہ کے لئے عام فرمایا۔ پھر آپؐ نے علم کے معاملہ میں دین و دنیا کی کوئی تقسیم نہیں کی؛ بلکہ ہر وہ علم جو انسانیت کیلئے نفع بخش ہو، خداسے اس کی دُعاء کی اور فرمایا کہ علم و حکمت کی جو بات جہاں سے مل جائے، اس کی طرف اسی طرح لپکنا چاہئے، جیسے انسان اپنی گم شدہ چیز کے لئے لپکتا ہے : (ترمذی، ابواب العلم، حدیث نمبر : ۲۶۸۱) آپ ﷺ نے مسلمان بچوں کو بدر کے غیر مسلم قیدیوں سے تعلیم دلائی اور مدینہ میں یہودیوں کی درس گاہ ’’بیت المدارس ‘‘ میں تشریف لے گئے، جس سے علم کے معاملہ میں آپؐ کی فراخ قلبی اور کشادہ چشمی کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس سے نہ صرف یہ کہ علم کا دور دورہ ہوا ؛ بلکہ غیر سائنٹفک فکر کی جگہ سائنٹفک فکر کا غلبہ ہوا، اور توہمات کی زنجیریں کٹ گئیں ، شرک میں چوں کہ مخلوقات کو معبود کا درجہ دیا جاتا ہے اورجو معبود ہو، اس کی عظمت اور اس کا احترام تحقیق و تجسس میں مانع بن جاتا ہے؛ اس لئے وہ علمی ترقی اور تحقیق وسائنس کے ارتقاء میں رکاوٹ بن جاتی ہے، توحید چوں کہ مخلوقات کے معبود ہونے کی نفی کرتی ہے؛ اس لئے کائنات کی تما م اشیاء پر غور و فکر، بحث و تحقیق اور تفحص و تجسس کا راستہ کھلتا ہے۔ انسان علم میں جتنا آگے بڑھتا جائے اور کائنات کے حقائق پر جو پردے پڑے ہوئے ہیں ، ان کو جس قدر اُٹھاتا جائے، وہ اسی قدر توہمات سے آزاد ہوتا جائے گا۔
چوتھے، اسلام سے پہلے اہل مذاہب نے دین اور دنیا کا بٹوارہ کر رکھا تھا اور دین و دنیا کی اس تقسیم کی وجہ سے بعض انسانی گروہ قانون فطرت کے خلاف بغاوت پرآمادہ تھے۔ نکاح کو بری بات سمجھا جاتا تھا، قرب خداوندی کے لئے تجرد کی زندگی ضروری قرار دی جاتی تھی اور مرد وعورت کے فطری تعلق کو بہرصورت گناہ باور کیا جاتا تھا، کسب ِمعاش کی محنتوں کو دین داری کے مغائر اور رضائے خداوندی میں رکاوٹ گمان کیا جاتا تھا، یہا ں تک کہ رہبانیت کے غلبہ کا یورپ میں ایک ایسا دور بھی گزرا ہے کہ لوگ نہانے، دھونے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اورخوشبو استعمال کرنے کو بھی للہیت کے خلاف سمجھتے تھے۔ مذہب کے متبعین میں بھی اس طرح کا تصور عام تھا۔ رسول ﷺ کی رحمت کا ایک اہم باب رہبانیت کے اس تصور کا خاتمہ ہے۔ آپ ﷺ نے تعلیم دی کہ اﷲ تعالیٰ کے احکام کی حدود میں رہتے ہوئے دنیا سے نفع اُٹھانا بھی دین کا ایک حصہ ہے۔ ’ دین ‘ دنیا سے نفع اُٹھانے میں حلال و حرام کی تمیز کا نام ہے نہ کہ دنیا کو ترک کردینے کا؛ چنانچہ آپؐ نے نکاح کرنے کا حکم دیا، اس کو اپنی اور انبیاء کی سنت قرار دیا اور تجرد کی زندگی کو ناپسند فرمایا، کسب معاش کو ایک اہم فریضہ قرار دیا اور اس کی حوصلہ افزائی فرمائی، صفائی ستھرائی کی تعلیم دی اور کوئی ایسا حکم نہیں دیا جو انسانی فطرت سے متصادم ہو؛ بلکہ انسانی فطرت میں جو تقاضے اور داعیے رکھے گئے ہیں ، ان سب کو جائز رکھا گیا اور ان کے لئے مناسب حدود مقرر کردی گئیں ۔
پانچویں ، عورتوں کو عزت و احترام کا مقام عطا کرنا اور انسانی سماج میں ان کی قدردانی کو یقینی بنانا بھی آپ ﷺکا ایک اہم کارنامہ ہے۔ اسلام کی آمد سے قبل دنیا میں عورت کو گناہ کا دروازہ اور نحوست کا سبب سمجھا جاتا تھا۔ ان کے بارے میں تصور تھا کہ وہ شادی سے پہلے باپ کی اور شادی کے بعد اپنے شوہر کی ملکیت ہوتی ہے، وہ چوں کہ خود ایک مملوکہ شئے ہے؛ اس لئے اس کو مالک ہونے کا حق نہیں تھا؛ اسی لئے اس کو حصۂ میراث نہیں ملتا تھا، عرب کے بعض قبائل میں تو لڑکیاں زندہ دفن کر دی جاتی تھیں ، اس بات میں بھی اختلاف تھا کہ کیا عورت کا شمار انسانوں میں ہے ؟
ان حالات میں آپ ﷺ دنیا میں تشریف لائے اور بتایا کہ مرد و عورت ایک ہی ماں باپ سے پیدا ہونے والی دو صنفیں ہیں ، (النساء : ۱)۔ پہلے حضرت حواء علیہا السلام کی طرف گناہ کی نسبت کی جاتی تھی مگر قرآن نے اس داغ کو صاف کیا : ’’آدم (علیہ السلام) سے اپنے رب کے حکم (کو سمجھنے) میں فروگزاشت ہوئی۔ ‘‘ (طٰہٰ: ۱۲۱) اور اس کا اصل محرک شیطان کو قرار دیا : ’’شیطان نے انہیں اس جگہ سے ہلا دیا اور انہیں اس (راحت کے) مقام سے جہاں وہ تھے الگ کر دیا۔ ‘‘(البقرۃ : ۳۶) عورت کو بیٹی، بیوی اور ماں کی حیثیت سے مردوں سے بڑھ کر درجہ دیا، ان کو نکاح کرنے، اپنے مال میں تصرف کرنے، تعلیم حاصل کرنے، اپنے خیالات کا اظہار کرنے، شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ کسب ِمعاش کرنے وغیرہ کی اجازت دی اور انہیں معاشرہ میں عزت کا مقام دیا۔
انیسویں صدی کے وسط تک مغربی ملکوں میں عورت کو حق میراث نہیں ملتا تھا، برادرانِ وطن کے یہاں ۱۹۵۰ء تک عورت کو حق میراث حاصل نہیں تھا؛ لیکن اسلام نے اول دن سے بیٹی کو اپنے والدین کے، ماں کو اپنی اولاد کے اور بیوی کو اپنے شوہر کے ترکہ میں سے لازمی وارث بنایا اوربعض حالات میں دوسری خاتون رشتہ داروں کو بھی میراث میں حق دیا، یہاں تک کہ اسلام نے نکاح کیلئے عورت کی رضامندی کو شرط قرار دیا۔ جدید ترقی یافتہ دُنیا میں آج عورتوں کے حقوق یاان کی آزادی کا جو نعرہ لگایا جارہا ہے، یہ سب رسولؐ اللہ کی انقلاب انگیز تعلیمات کا نتیجہ ہے۔
اس لئے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ ﷺ کی ذات صرف مسلمانوں کے لئے نہیں ؛ بلکہ پوری انسانیت اور تمام عالم کے لئے رحمت بیکراں ہے۔