اگر مسلمان قرآن کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کریں اور اسوۂ حسنہؐ کو اپنی زندگی کا نمونہ بنالیں، اور ہر فرد دین کا نمائندہ بن کر عدل، دیانت اور سچائی کے ساتھ زندگی گزارے۔
EPAPER
Updated: July 25, 2025, 3:20 PM IST | Muhammad Zubair Al Asrar | Mumbai
اگر مسلمان قرآن کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کریں اور اسوۂ حسنہؐ کو اپنی زندگی کا نمونہ بنالیں، اور ہر فرد دین کا نمائندہ بن کر عدل، دیانت اور سچائی کے ساتھ زندگی گزارے۔
اسلام ایک ایسا دین ہے جو فرد کی زندگی سے لے کر اقوام کے نظام تک، عدل، اِنصاف، خیر خواہی اور فلاحِ انسانیت کے اصول فراہم کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات ہر دور اور ہر مقام کے لیے یکساں رہ نمائی فراہم کرتی ہیں، اور دنیا میں پھیلنے والی ہر منفی سوچ اور سازش کا جواب علم، کردار اور عدل کے اصولوں پر قائم رہ کر دیتی ہیں۔ موجودہ زمانے میں اسلاموفوبیا ایک ایسی منظم کوشش ہے جو صرف مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے تک محدود نہیں، بلکہ تہذیبی سطح پر ان کی شناخت، تمدّن، دِینی حمیت اور دعوتی پیغام کو مٹانے کی ایک عالم گیر سازش بن چکی ہے۔ اس فکری یلغار کا مقصد مسلمانوں کے ایمان، عمل، دِینی شناخت، اور سماجی تشخص کو کمزور کرنا ہے، اور اُنہیں خوف، احساسِ کمتری کا شکار بنانا ہے۔
اسلاموفوبیا کے مظاہر کئی سطحوں پر سامنے آتے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا ہو یا فلمی صنعت، سوشل میڈیا ہو یا سیاسی بیانات، ہر سطح پر اسلام کو ایک ایسے مذہب کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو تشدد، انتہا پسندی اور غیر اِنسانی رویوں کا علم بردار ہے، حالاں کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اسلام کا مزاج شفقت، دعوت، عدل، اَمن اور اِنسان دوستی پر مبنی ہے۔ قرآن كريم بار بار عدل، توازن اور اِخلاص کی تعلیم دیتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اِن منفی رویّوں کے مقابلے میں قرآن كريم و سنت کی روشنی میں مؤثر اور متوازن کردار ادا کریں۔
ادے پور فائلز جیسی فلمیں چند افراد کے اَفعال کو بنیاد بنا کر پوری ملّتِ اسلامیہ کو بدنام کرنے کی ایک منظم کوشش ہیں۔ ایسی فلموں کے ذریعے ناظرین کے ذہن میں یہ تصور بٹھایا جاتا ہے کہ اسلام ایک خطرہ ہے اور مسلمان بطور مجموعی انتہا پسند ہیں۔ یہ انداز تعصّب، نفرت اور فکری بددیانتی پر مبنی ہوتا ہے۔ ان اقدامات کے پیچھے سیاسی مقاصد، مذہبی تعصّب، اور عالمی سامراجی ذہنیت کار فرما ہے جو مسلمانوں کو سماجی طور پر کمزور کر کے اُن کی دِینی وابستگی کو مٹانا چاہتی ہے۔
اسلامی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ دشمنوں نے جب بھی اسلام پر حملہ کیا، مسلمانوں نے صبر، حکمت، علم اور اعلیٰ کردار کے ذریعے ان سازشوں کا جواب دیا۔ مکّہ کے سرداروں نے رسول الله ﷺ پر جھوٹے الزامات لگائے، آپ کو جادوگر، شاعر اور دیوانہ کہا گیا، مگر آپ نے ان سب کا جواب نہ غصے سے دیا، نہ شکایت سے، آپ نے اعلیٰ اَخلاق، صبر، حِلم، اور مسلسل دعوت کے ذریعے دل جیتے۔ قرآن كريم میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’نیکی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی؛ برائی کو اس بھلائی سے دور کرو جو بہتر ہو۔ ‘‘ (سورۃ فصلت: ۳۴)
کلام الٰہی ہماری رہ نمائی اس جانب کرتا ہے کہ حکمت، بردباری اور مخلصانہ دعوت کے ذریعے جواب دینا چاہئے۔ صرف احتجاج سے بات مکمل نہیں ہوتی، جب تک کہ ہم علمی، تعلیمی، سماجی اور دعوتی میدان میں سنجیدہ اور مسلسل کوشش نہ کریں۔ مسلمان نوجوان اپنے دین کی سچائی کو شعوری طور پر سمجھیں، قرآن كريم و سنت رسولﷺ کا علم حاصل کریں، اور اسلام کی عظمت کو اپنے قول و عمل سے دنیا کے سامنے پیش کریں۔
قرآن كريم نے ہمیں واضح طور پر متنبہ کیا ہے کہ اہلِ ایمان کے راستے میں آزمائشیں آئینگی:
’’کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم (یونہی بلا آزمائش) جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ تم پر تو ابھی ان لوگوں جیسی حالت نہیں بیتی جو تم سے پہلے گزر چکے، انہیں تو طرح طرح کی سختیاں اور تکلیفیں پہنچیں اور انہیں (اس طرح) ہلا ڈالا گیا کہ پیغمبر اور ان کے ایمان والے ساتھی پکار اٹھے کہ اﷲ کی مدد کب آئے گی؟ آ گاہ ہو جاؤ کہ بیشک اﷲ کی مدد قریب ہے۔ ‘‘(سورۃ البقرۃ: ۲۱۴)
اسلاموفوبیا کا اصل علاج مسلمانوں کے اجتماعی کردار میں ہے۔ ہمیں درج ذیل میدانوں میں متحرک ہونا چاہئے:
(۱) دِینی تعلیم کا فروغ، تاکہ نئی نسل دین کے ساتھ شعوری تعلق قائم کرے۔
(۲) عصری علوم میں مہارت، تاکہ علمی میدان میں امت کا وقار بحال ہو۔
(۳) میڈیا کی طاقت کو مثبت پیغام کے لئے اِستعمال کرنا۔
(۴) قانونی اداروں سے رجوع اور آئینی حقوق کا بھرپور اِستعمال۔
(۵) بلا تفریق ملک کے ہر شہری کے ساتھ حسنِ عمل، تاکہ فضا میں تناؤ کی جگہ اعتماد پیدا ہو۔
حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم لوگ ہر ایک کے پیچھے دوڑنے والے نہ بنو یعنی اگر ایسا نہ بنو کہ لوگ ہمارے ساتھ بھلائی کریں تو ہم بھی بھلائی کریں اور اگر ہمارے اوپر ظلم کریں تو ہم بھی ظلم کریں، بلکہ اپنے آپ کو اس بات پر آمادہ کرو کہ اگر لوگ تمہارے ساتھ احسان کریں تو تم بھی احسان کرو، اور اگر بدسلوکی کریں تو تم ظلم نہ کرو۔ ‘‘ (ترمذی)
نبی کریمؐ کا یہ اسوہ حسنہ معاشرے میں اعلیٰ کرداری کی دعوت دیتاہے کہ برائی کا جواب برائی سے نہ دیا جائے بلکہ صبر، دعوت، حلم اور حکمت کے ساتھ انسانوں کے دلوں کو جیتا جائے۔
اسلام نے دعوت، تعلیم، تبلیغ، اور تعلقات کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کی ترغیب دی ہے۔ ہم وطنوں، برادران وطن اور سماج کے تمام طبقات سے خیر خواہی، رواداری اور حسنِ سلوک سے پیش آنا چاہئے۔ فرمایا گیا:
’’اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بیشک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ ‘‘ (سورہ الممتحنۃ:۸)
قرآن کی تعلیمات ہمیں دعوت دیتی ہیں کہ ہم لوگوں کے ساتھ اِنصاف کریں، خواہ وہ کسی بھی مذہب یا قوم سے تعلق رکھتے ہوں۔ نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان ہمیشہ یاد رہنا چاہئے: ’’بہترین انسان وہ ہے جو انسانوں کیلئے سب سے زیادہ فائدہ مند ہو۔ ‘‘ (الجامع الصغير للسيوطي)
آخری بات یہ ہے کہ مسلمان اگر قرآن کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کریں، سیرۃ النبیؐ کو اپنی زندگی کا نمونہ بنائیں اور ہر فرد دین کا نمائندہ بن کر عدل، دیانت، سچائی اور اِنصاف کے ساتھ زندگی گزارے، تو اسلاموفوبیا جیسی تمام سازشیں بے اثر ہو جائیں گی، اور دنیا اسلام کی سچائی، شفافیت اور فطری تعلیمات سے ضرور متاثر ہوگی۔