Inquilab Logo Happiest Places to Work

سیرت النبیؐ میں یکسوئی اور ثابت قدمی جیسی خصوصیات کا عملی نمونہ موجود ہے

Updated: March 21, 2025, 12:27 PM IST | Dr Nabil al-Azami | Mumbai

احکام الٰہی کی روشنی میں ایک اسلامی معاشرہ قائم کرنا آپؐ کی زندگی کا واحد مقصد تھا جس کیلئے آپ ؐ نے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیں۔ اپنے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کا یہ عزم ہی تھا، جو آپؐ کو غارِحرا میں کئی کئی دن تک غوروفکر میں مشغول رکھتا تھا

Cave of Hira in Mecca, where the first revelation was revealed to the Prophet Muhammad. Pilgrims to the Holy Mosque make every effort to reach this place. Photo: INN.
مکہ مکرمہ میں واقع غارِ حرا جہاں آپؐ پر پہلی وحی کا نزول ہوا۔ زائرین حرم اس مقام تک پہنچنے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

بامقصد اور روشن مستقبل کے حصول کا عزم اور اس کا عملیت پسندانہ تصور کسی فرد یا ادارہ کا ’وژن‘ (بصیرت)کہلاتا ہے۔ نظریہ ایک راہ نما ہدایت نامے کی طرح ہوتا ہے، جس کی مدد سے اس بات کا تعین کیا جاسکتا ہے کہ انسان کس سمت میں جانا چاہتا ہے اور کس طرح کی دُنیا بسانے کا خواہش مند ہے؟ لیڈرشپ کی خصوصیات میں سے یہ ایک بڑی اہم خصوصیت ہے کیوں کہ اگر لوگ اپنی جدوجہد کے مقاصد اور اس کے متوقع نتائج سے ناواقف ہوں تو اکثر و بیشتر وہ بددلی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ 
ایک عظیم لیڈر کا وژن عام لوگوں سے کہیں زیادہ وسیع ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حالات اور واقعات کو بہتر طور پر سمجھ کر ان کے بارے میں زیادہ مؤثر طریقے سے رائے دے سکتا ہے اور ان سے نمٹنے کے لئے موزوں ترین حکمت عملی اختیار کرسکتا ہے۔ لیڈر کی سوچ میں بڑی وسعت ہوتی ہے۔ اسی لئے وہ مسائل اور حالات کو الگ زاویے سے دیکھتا ہے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایسے طریقے اختیار کرسکتا ہے، جو عام لوگوں کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتے۔ کامیاب ترین ادارے اپنے وژن اور مشن ہی کی بدولت لوگوں کے لئے پُرکشش ٹھہرتے ہیں۔ 
سوال پیدا ہوتا ہے کہ وژن میں ایسی کون سی طاقت ہے، جس کی بدولت حالات و واقعات کا رُخ موڑا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسان میں فطری طور پر یہ خواہش موجود ہوتی ہے کہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد ہو اور وژن اس خواہش کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ نامور محقق ڈینیل پنک کا کہنا ہے: ’’کسی مہارت پر عبور، خودمختاری اور مقصد وہ تین عوامل ہیں جو انسان کو کسی کام پر آمادہ کرنے کا محرک بنتے ہیں۔ ‘‘
 اسلام اسے فطرت کا نام دیتا ہے جو اللہ کی طرف سے انسان کو ودیعت کی جاتی ہے۔ اس لئے جب کسی وژن کی صورت میں انسان کو اپنی زندگی کا مقصد مل جاتا ہے، تو وہ اسے پورا کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیتا ہے۔ بعض اوقات کسی کا پیش کردہ نظریہ زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کرپاتا، یا لوگ اس سے غیرمتفق ہوتے ہیں۔ اکثریت کی توجہ اور حمایت حاصل کرنے کیلئے یہ بات لازم ہے کہ قائد کا تجویز کردہ نظریہ لوگوں کے جذبات، ان کی اقدار اور ترجیحات سے ہم آہنگ ہو۔ 
حکمت عملی کی تشکیل
عام طور پر لیڈرشپ کی ابتدا ایک وژن سے ہوتی ہے، جسے عملی جامہ پہنانے کیلئے پہلے مطلوبہ اقدار کا تعین کیا جاتا ہے اور پھر ان سے ہم آہنگ ایک مؤثر حکمت ِ عملی تیار کی جاتی ہے۔ اس کے بعد ایک تفصیلی ایکشن پلان بنایا جاتا ہے جس پر عمل درآمد کے دوران میں ’عمل درآمد کے مرکزی معیارات‘ (Key Performance Indicators - KPI) کی مدد سے کارکردگی کی جانچ پرکھ کی جاتی ہے۔ تاہم، اس سے زیادہ کارآمد طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ایسی ہمہ گیر نوعیت کی اقدار کا تعین کرلیا جائے، جنہیں فروغ دینا مقصود ہے اور پھر ان اقدار سے ہم آہنگ ایک ایسا نصب العین یا نظریہ متعارف کروایا جائے، جس کے حصول کے لئے ایک جامع حکمت عملی کی مدد سے عملی منصوبے بنائے جاسکیں۔ 
اداروں کی سطح پر حکمت ِ عملی کو سمجھنے کیلئے ایک عرصے تک کسی ادارے کو مطلوبہ سمت میں رواں رکھنا اور اسے وسعت دینا حکمت ِ عملی کے زمرے میں آتا ہے۔ مارکیٹ کی ضروریات، فریقین کی توقعات اور دیگر چیلنجوں سے نمٹنے میں ایک عمدہ حکمت عملی، ادارے کیلئے مددگار ثابت ہوتی ہے۔ حکمت عملی کو اکثر شطرنج کے پیچیدہ کھیل سے تشبیہ دی جاتی ہے کیوں کہ اس میں بھی گہری سوچ بچار کے بعد موقع کی مناسبت سے اگلا قدم اُٹھایا جاتا ہے۔ 
پیغمبرانہ بصیرت
یکسوئی، اُولوالعزمی اور ثابت قدمی، لیڈرشپ کی نمایاں خصوصیات ہیں، جن کا بہترین عملی نمونہ سیرت النبیؐ میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی روشنی میں ایک اسلامی معاشرہ قائم کرنا آپؐ کی زندگی کا واحد مقصد تھا، جس کو حقیقت میں بدلنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیں۔ آپؐ کو کبھی کسی نے غیرتعمیری کام میں وقت ضائع کرتے نہیں دیکھا بلکہ آپؐ ہمیشہ کسی تعمیری کام میں مصروف ہی نظر آئے۔ 
سورئہ تکویر کی چھبیسویں آیت کا مفہوم ہے: ’’پھر تم لوگ کدھر چلے جارہے ہو؟‘‘ یہ سوال ہر انسان کے لئے ہے کہ وہ سوچے کہ اس زندگی کا مقصد کیا ہے، وہ کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اور کس مقام پر پہنچنے کا خواہشمند ہے؟
قرآن کریم کے اس منطقی سوال کا بہترین جواب سیرۃ النبیؐ ہے۔ آپؐ سے عقیدت اور محبت کا اصل تقاضا یہ ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال و افعال کا بغور مطالعہ کریں، ان کی وجوہ اور نتائج کا تجزیہ کریں اور ان کی مناسبت سے اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کی سمت متعین کرنے کی کوشش کریں، کیوں کہ غوروفکر اور تحقیقی اندازِ فکر اپنائے بغیر ایک اعلیٰ وژن تخلیق نہیں کیا جاسکتا۔ 
بعثت سے پہلے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں کسی بھی قسم کی لاپروائی دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ اس کے برعکس آپؐ اپنی ایمان داری اور جذبۂ خدمت کی وجہ سے مشہور تھے۔ زندگی میں کسی بامعنی مقصد کا حصول اور اپنے لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کا عزم ہی تھا، جو آپؐ کو غارِحرا میں کئی کئی دن تک غوروفکر میں مشغول رکھتا تھا۔ اسی دوران میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی زندگی کو سمت بخشی اور آپؐ کی لیڈرشپ کے انداز کا تعین ہوا۔ یہ تمام حضرت عائشہؓ کے الفاظ میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتداء بہت عمدہ اور سچّے خوابوں سے ہوئی۔ پھر آپؐ تنہائی پسند ہوگئے اور کئی کئی دن غارِحرا میں عبادت میں مشغول رہنے لگے۔ اس دوران میں آپؐ وقتاً فوقتاً صرف اشیائے ضروریہ لینے کیلئے حضرت خدیجہؓ کے پاس واپس تشریف لاتے اور پھر واپس جاکر عبادت میں مصروف ہوجاتے تھے۔ یہ سلسلہ پہلی وحی کے نزول تک جاری رہا۔ جب حضرت جبریل امینؑ سورئہ علق کی پہلی پانچ آیات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے: ’پڑھو، اپنے ربّ کے نام سے‘۔ اس کے بعد آپؐ سیدھے حضرت خدیجہؓ کے پاس اس حال میں تشریف لائے کہ آپؐ پر شدید لرزہ طاری تھا۔ آپؐ کے کہنے پر حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو کمبل اوڑھایا۔ جب آپؐ کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو آپؐ نے حضرت خدیجہؓ کو سب رُوداد سنائی اور اپنے اضطراب کا ذکر کیا۔ جس پر وہ بولیں : ’’آپؐ ہرگز غمگین نہ ہوں، بخدا! اللہ کبھی آپؐ کی بے قدری نہیں ہونے دے گا۔ آپؐ رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں، سچ بولتے ہیں، غریب اور نادار لوگوں کی مدد کرتے ہیں، اپنے مہمانوں کے ساتھ فراخ دل ہیں اور مصیبت زدوں کو سہارا دیتے ہیں۔‘‘ اس واقعے کے ذریعے یہاں پر یہ توجہ دلانا مقصود ہے کہ اللہ کی وحدانیت پر ایمان لاکر خود کو اس کی رضا کے تابع کرلینا اسلام کا پہلا سبق اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وژن اور مشن کی بنیاد ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ رَدعمل صرف ایک غم گسار رفیق کی جانب سے کی جانے والی دلجوئی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ اسلامی اقدار کا پہلا تعارف بھی ہے۔ انسان کے کردار، عادات اور اعمال کا کوئی بھی پہلو اس کی بیوی سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا، لہٰذا یہ بیان اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں آپؐ کے پیغمبرانہ اوصاف کی گواہی موجود ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے کسی مافوق الفطرت قوت یا کسی معجزے کا حوالہ نہیں دیا بلکہ آپؐ کے اعلیٰ کردار، عزیز و اقارب کے ساتھ حُسنِ سلوک، خدمت خلق اور ایمان داری کی بناپر آپؐ کے بیان کی تصدیق کی۔ 
جب اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ حق کا پیغام عام لوگوں تک پہنچانا شروع کر دیں تو آپؐ نے کوہِ صفا پر چڑھ کر مکہ والوں کو پکارا۔ جب سب جمع ہوگئے تو آپؐ نے ان سے سوال کیا: ’’اگرمیں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کی دوسری جانب سے گھڑسواروں کا ایک دستہ تم پر حملہ کرنے آرہا ہے تو کیا تم میری بات پر یقین کرو گے؟‘‘ ان سب نے کہا: ’’ہاں، کیوں کہ آپؐ ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ ‘‘ اس پر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’مجھے اللہ نے تم لوگوں کو تنبیہ کرنے کے لئے بھیجا ہے تاکہ تم ایک خدا پر ایمان لائو اور اسی کی عبادت کرو اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو نہ میں اس دُنیا میں تمہیں اس کی سزا سے بچا سکتا ہوں اور نہ آخرت ہی میں۔ ‘‘ حضورؐ نے قریش کو تاکید کی کہ وہ اقرار کریں کہ اللہ ایک ہے اور محمد ؐ اس کے رسول ہیں، اور ساتھ ہی یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ ایمان لانے والوں کے لئے بڑا اجر ہے۔ 
توحید کا یہ تصور انسانیت کی فلاح کے نظریے سے جڑا ہوا ہے۔ یہ، دُنیا میں پائی جانے والی ناانصافیوں اور استحصال کے خاتمے اور انسانی حقوق اور عزّتِ نفس کی حفاظت کے مشن کا نقطۂ آغاز ہے۔ تمام اخلاقی بُرائیوں میں مبتلا، دولتمند اور طاقتور اہل مکہ کے لئے یہ ایک کھلا چیلنج تھا، جسے اُنہوں نے یکسررَد کر دیا۔ یہاں تک کہ ابولہب نے شدید طیش کے عالم میں آپؐ کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا (نعوذ باللہ)۔ اس کے باوجود آپؐ نے دعوتِ حق کا کام جاری رکھا اور متعدد مواقع پر اپنے عمل کے ذریعے مسلمانوں کو پیغام دیا کہ اپنے نظریے کی خاطر ڈٹ جائیں اور اس کی خاطر ہرقربانی دینے کے لئے تیار رہیں۔ 
اسی جذبے کے بل پر غزوئہ بدر میں مٹھی بھر مسلمان، کفّار کی کئی گنا بڑی فوج سے ڈرنے کے بجائے ان کے مقابلے پر ڈٹ گئے اور اہل ایمان، غزوئہ خندق میں بھوک کی شدت برداشت کرتے رہے۔ ان تمام موقعوں پر ان کی ہمت بندھائے رکھنے میں ان کے محبوب ترین لیڈرؐ کا ہاتھ تھا۔ آپؐ نے جنگ کے ہرمرحلے میں دیگر مسلمانوں کے شانہ بشانہ حصہ لیا۔ یہ آپؐ کے وژن کی کامیابی ہی تھی، جس کی وجہ سے آخرت میں کامیابی، رضائے الٰہی اور جنّت کا حصول ہر مسلمان کا محبوب ترین مقصد بن گیا۔ 
(مضمون کا دوسرا حصہ آئندہ ہفتے ملاحظہ کیجئے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK