زمانہ ہر لحظہ نئے رنگ بدلتا ہے۔ کہیں امید کی کرن نمودار ہوتی ہے، تو کہیں مایوسی کے سائے گہرے ہوتے ہیں۔ ایسے میں انسان کی حیثیت فقط ایک تماشائی کی نہیں بلکہ ایک کردار کی ہوتی ہے، جو یا تو حالات کا رخ موڑتا ہے یا خود حالات کے تھپیڑوں میں گم ہو جاتا ہے۔
زمانہ ہر لحظہ نئے رنگ بدلتا ہے۔ کہیں امید کی کرن نمودار ہوتی ہے، تو کہیں مایوسی کے سائے گہرے ہوتے ہیں۔ ایسے میں انسان کی حیثیت فقط ایک تماشائی کی نہیں بلکہ ایک کردار کی ہوتی ہے، جو یا تو حالات کا رخ موڑتا ہے یا خود حالات کے تھپیڑوں میں گم ہو جاتا ہے۔ ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، وہاں مادہ پرستی، خود غرضی، اور بے حسی نے اپنا بسیرا کر لیا ہے۔ رشتے ناطوں کی حرمت پامال ہو چکی ہے، اور انسانی تعلقات مفادات کے ترازو میں تولے جانے لگے ہیں۔کہاں گئے وہ لوگ جو دوسروں کے دکھ درد کو اپنا دکھ سمجھتے تھے؟
آج ہم خود کو اس معاشرے میں تنہا پاتے ہیں جہاں سچ بولنا جرم، اور منافقت قابلِ تعریف ہے۔اجتماعی شعور کا فقدان، اخلاقی زوال، اور فکری بانجھ پن، اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہم بطور قوم خواب غفلت میں مبتلا ہیں۔ ہمیں نہ اپنے وجود کی قدر ہے، نہ اپنی نسلوں کی فکر۔ معاشرتی رویوں میں بگاڑ، معاشی تنگی، اور معاشی ناانصافی، سب ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے عوامل ہیں جنہیں الگ نہیں کیا جاسکتا۔
تعلیم، جو کسی بھی قوم کی ریڑھ کی ہڈی کہلاتی ہے، ہمارے ہاں محض ڈگریوں کے حصول تک محدود ہو گئی ہے۔ کردار سازی، علم کا نور، سوچنے کی صلاحیت یہ سب اب نصاب سے غائب ہیں۔ ہمارے تعلیمی ادارے وہی کچھ پیدا کر رہے ہیں جو نظام چاہتا ہے: سوال نہ کرنے والے، حکم بجا لانے والے، اور فکر سے عاری ذہن۔جہالت صرف ناخواندگی کا نام نہیں، بلکہ وہ شعور کا فقدان ہے جو ہمیں درست و نادرست کے بیچ فرق کرنے سے قاصر کر دیتی ہے۔ آج جب ہمارا طالب علم محض نمبروں کی دوڑ میں لگا ہوا ہے، تو وہ علم کی اصل روح سے محروم ہو چکا ہے۔
سیاست، جو کہ خدمت کا نام تھی، اب تجارت بن چکی ہے۔ اقتدار کی ہوس نے اصولوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔جمہوریت کے نام پر آمریت مسلط ہے، اور عوام صرف ووٹ دینے کے بعد تماشائی بن جاتے ہیں۔رہنما وہی کہلاتا ہے جو زبان دراز ہو، مگر عمل کے میدان میں صفر ہو۔ قومیں اس وقت تباہ ہوتی ہیں جب ان کے حکمراں وعدوں کی سیاست کا جادو جگاتے ہیں اور عمل سے دامن بچاتے ہیں۔
ملک کے نوجوان، جو تبدیلی کی امید ہوتے ہیں، مایوسی، بےروزگاری، اور ناانصافی کے اندھیروں میں گم ہو چکے ہیں۔ سیاسی جماعتیں صرف اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف ہیں، جبکہ قوم کے مسائل ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔
ہمیں اب خود سے سوال کرنا ہوگا:
’’کیا ہم حالات کے غلام بن کر جیتے رہیں گے؟ یا ان کو بدلنے کی جرأت کریں گے؟‘‘
ہمیں شعور بیدار کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے رویے بدلنے ہوں گے، اپنے بچوں کو صرف کتابوں کا علم نہیں بلکہ زندگی کا ہنر سکھانا ہوگا۔ ہمیں جھوٹ، دھوکہ، اور مفاد پرستی کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا۔یہی وقت ہے کہ ہم اپنے اندر وہ چراغ روشن کریں جو صدیوں کو منور کر دے۔ اگر ہم نے اب بھی آنکھ نہ کھولی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ حالات کو الزام دینا آسان ہے، مگر اُن کا مقابلہ کرنا بہادری ہے اور قومیں وہی بنتی ہیں جو بہادر ہوتی ہیں۔