• Thu, 07 November, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

’موت ‘ زندگی کا نہیں،بلکہ دنیوی زندگی کا خاتمہ ہے

Updated: October 25, 2024, 3:41 PM IST | Dr. Zafarul Islam Islahi | Mumbai

موت ا ور متعلقہ امور کے بارے میں وارد قرآ نی آیات کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ مو ت اور بعد کے احوال کی یاد تازہ کرنے سے اصلاً مقصود یہ ہے کہ یقینی طور پر پیش آنے والے ان واقعات کو یاد کرتے ہوئے لوگوں کے قلوب خشیت و انابت الی اللہ کی کیفیت سے معمور ہوجائیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اس دارِفانی میں انسان کی زندگی بہت مختصر اور اس کے مال واسباب سے لطف اندوزی محض ایک مقررہ مدت تک کے لئے ہے۔ اسے ایک نہ ایک دن موت سے دوچار ہونا، یعنی اس دنیا سے رخصت ہوناہے۔ اللہ رب العزت نے اولین انسان حضرت آدمؑ و حضرت حوا ؑ کو زمین پر اتارتے ہی یہ اٹل حقیقت ان کے سامنے واضح کردی تھی اور گویا ان کے واسطے سے پوری بنی نوع انسان کو اس سے با خبر کر دیا تھا۔ ارشادِ الٰہی ہے :
’’ اور تمہارے لئے زمین میں ٹھکانا اور ( یہاں کے) متاع سے نفع اٹھانا ہے ایک خاص مدت تک کے لئے۔ ‘‘ (البقرۃ:۳۶)
صاحبِ معارف القرآن نے اس آیت کی تشریح میں یہ رقم فرمایا ہے: ’’ یعنی آدم و حوّا علیہما السلام کو یہ بھی ارشاد ہوا کہ تم کو زمین پر کچھ عرصہ ٹھہرنا ہے اور ایک میعاد معین تک کام چلانا ہے، یعنی زمین پر جاکر دوام نہ ملے گا، کچھ مدت کے بعد یہ گھر چھوڑنا ہوگا۔ ‘‘
اس مسلّمہ حقیقت پر روزمرہ کی واقعاتی شہادتوں کے علاوہ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ موت کا آنا اس قدر یقینی ہے کہ قرآن نے اسے ’ الیقین‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ارشاد ربّانی ہے: ’’اور امر یقینی( یعنی موت ) کے آنے تک اپنے رب کی بندگی کرتے رہو۔ ‘‘ (الحجر:۹۹)
یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ انسان کو روزانہ نیند کی صورت میں موت یاد دلائی جاتی ہے۔ رات میں سونے کو اس پہلو سے موت سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ اس حالت میں اللہ رب العزت کے حکم سے انسان کے ہوش و حواس، فہم و ادراک عارضی طور پر معطل کر دیے جاتے ہیں اور ظاہری طور پر اس پر موت طاری کردی جاتی ہے۔ غالباً اسی وجہ سے بعض علماء نے نیند کے لئے ’ وفاتِ صغریٰ‘ اور موت کے لئے ’ وفاتِ کبریٰ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اس باب میں سب سے اہم رہنمائی قرآن کریم سے ملتی ہے جس میں نیند اور موت کے تعلق کو اور روز انہ موت کی یادہانی کو اس طور پر بیان کیا گیا ہے :
’’اللہ ہی وفات دیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی ہوتی ہے ان کو بھی ان کی نیند کی حالت میں، تو جن کی موت کا فیصلہ کر چکا ہو تا ہے ا ن کو تو روک لیتا ہے اور دوسروں کو ایک وقت ِ مقرر تک کے لئے رہائی دے دیتا ہے۔ بے شک اس کے اندر بڑی نشانی ہے ان لوگوں کے لئےجو غور کرتے ہیں۔ ‘‘ (الزمر: ۴۲) 
صاحبِ تفہیم القرآن اس آیت کے قیمتی نکات کی توضیح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :

یہ بھی پڑھئے:فتاوے: شریعت نے طلاق کا حق مرد کو دیا جبکہ عورت کیلئےمطالبہ خلع وفسخ کا متبادل موجود ہے

اس ارشاد سے اللہ تعالیٰ ہر انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ موت اور زیست کس طرح اس کے دست ِ قدرت میں ہے۔ کوئی شخص یہ ضمانت نہیں رکھتا کہ رات کو جب وہ سوئے گا تو صبح کو لازماً زندہ ہی اٹھے گا۔ کسی کو بھی یہ معلوم نہیں کہ اس پر کیا آفت آسکتی ہے اور دوسرا لمحہ اس پر زندگی کا ہوتا ہے یاموت کا۔ ہر وقت سوتے میں یا جاگتے میں، گھر بیٹھے یا کہیں چلتے پھرتے آدمی کے جسم کے اندر کوئی اندرونی خرابی یا باہر سے کوئی نامعلوم آفت یکایک وہ شکل اختیار کرسکتی ہے جو اس کے لئے پیامِ موت ثابت ہو۔ (تفہیم القرآن، ج۴، ص۳۷۵ )
مزید برآں مولانا مفتی محمد شفیع ؒ نے اس آیت کی جو مختصر تشریح فرمائی ہے وہ بھی قابلِ ذکر ہے:
اس آیت میں حق تعالیٰ نے یہ بتلایا ہے کہ جان داروں کی اَرواح ہر حال، ہر وقت اللہ تعالیٰ کے زیرِتصرف ہیں۔ وہ جب چاہے ان کو قبض کرسکتا ہے اور واپس لے سکتا ہے اور اس تصرفِ خداوندی کا ایک مظاہرہ تو ہر جان دار روزانہ دیکھتا اور محسوس کرتا ہے کہ نیند کے وقت اس کی روح ایک حیثیت سے قبض ہو جاتی ہے، پھر بیداری کے بعد واپس مل جاتی ہے، اور آخر کار ایک وقت ایسا بھی آئے گاکہ بالکل قبض ہوجائے گی، پھر واپس نہ ملے گی۔ (معارف القرآن، ج ۷، ص۵۶۲)
 حقیقت یہ کہ موت کسی کی بھی ہو وہ باعث عبرت و سبق آموز ہوتی ہے۔ اسے یاد کرکے سب سے پہلا سبق جو ملتا ہے اور سب سے پہلی یاد دہانی جو ہوتی ہے وہ یہ ہے :
موت سے کس کو رستگاری ہے=آج وہ کل ہماری باری ہے
موت کی یاد میں حکمت:موت کی یاد دنیوی زندگی کے عارضی و فانی ہونے کے علاوہ ایک دو نہیں، بہت سے دیگر حقائق کی یاد دہانی کا ذریعہ بنتی ہے، بعد کے مراحل یاد دلاتی ہے اور نہایت قیمتی اسباق ساتھ لاتی ہے۔ قرآن کریم و حدیث دونوں میں یہ حقائق انسان کی عبرت کے لئے بڑی تفصیل سے واضح کئے گئے ہیں۔ قرآن کی نظر میں موت کو یاد کرنا کس قدر اہم ہے، اس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ صرف لفظ ’ موت‘ ۵۰ سے زائد آیات میں مذکور ہے اور اس سے ماخوذ یا اس پر مبنی الفاظ (افعال و اسماء) اس کے علاوہ ہیں جو سیکڑوں بار قرآن میں آئے ہیں۔ یہاں اس نکتے کی طرف توجہ دلانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں موت کے ذکر کے ساتھ ا س کے بعد کے مراحل بھی یاد دلائے گئے ہیں۔ ا ن میں اہم ترین و قابلِ تذکیر یہ ہیں : بعث بعد الموت، اللہ رب العزت کے حضور حاضری، اعمال کے بارے میں باز پرس، نتیجہ یااعمال نامہ کا ہاتھ میں آنا اور اسی کے مطابق جزا کا نصیب ہونا یا سزا سے دوچار ہونا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ’’ہر شخص کو ایک نہ ایک دن موت کا مزا چکھنا ہے‘‘۔ اس حقیقت کو قرآن مجید کی تین آیات (آل عمران :۱۸۵، الانبیاء:۳۵، العنکبوت: ۵۷) میں یاد دلایا گیا ہے اور ان تینوں آیات کے بعد جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر مجموعی نظر ڈالنے سے موت کے بعد کے اہم مراحل سامنے آجاتے ہیں۔ 
 یہ آیات ملاحظہ ہو ں۔ ارشاد ِالٰہی ہے:
’’ ہرشخص کو موت کا مزا چکھنا ہے اور یقین [کرلو کہ] تم سب یومِ قیامت پورا پورا اجر پائو گے، پس جوشخص جہنم کی آگ سے بچالیا گیا اورجنت میں داخل کیا گیا وہ در اصل کامیاب ہوا۔ ‘‘ (آل عمران :۱۸۵)
’’ ہر شخص کو موت سے دوچار ہونا ہے اور ہم تم کو برے و اچھے حالات سے آزماتے ہیں، آخر کار ہمارے ہی پاس تم سب کو لوٹ کر آنا ہے۔ ‘‘ (الانبیاء :۳۵)
’’ہر شخص کو موت کا مزا چکھنا ہے، پھر تم سب ہماری طرف لوٹائے جائو گے، اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک عمل کئے ان کو ہم جنت کی بلند و بالا عمارت میں رکھیں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، اس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ کیا ہی عمدہ اجر ہے [نیک] عمل کرنے والوں کے لئے۔ ‘‘ (العنکبوت :۵۷-۵۸) 
اسی ضمن میں یہ آیت بھی پیشِ نظر رہے:
’’ ان سے کہہ دو! جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تمہارے پاس آکر رہے گی، پھر تم اس (اللہ) کی طرف پلٹائے جائو گے جو پوشیدہ و ظاہر سب کچھ جاننے والا ہے، پس وہ تمہیں بتائے گا [اس چیز کے بارے میں ] جو کچھ [دنیا میں ] کرتے رہے ہو۔ ‘‘ (الجمعۃ:۸)
یہ اور اس نوع کی دوسری آیات ( بالخصوص آخری پارہ کی سورتوں میں مذکور آیات) پر غور وفکر سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان کو بار بار صرف موت نہیں یاد دلائی گئی ہے، بلکہ یہ نکات بھی ذہن نشیں کرائے گئے ہیں کہ دنیا کی چند روزہ زندگی میں وہ ہر لمحہ امتحان سے گزر رہا ہے، اسے ہرحال میں موت سے دوچار ہونا ہے، اور پھر اسے دوبارہ زندہ کر کے اللہ رب العزت کے سامنے حاضر کیا جائے گا اور اسی کے مطابق اس کی کامیابی و ناکامی کا فیصلہ ہوگا۔ پہلی صورت میں اسے سکون و آرام بھرا گھر( جنت) نصیب ہوگا اور دوسری صورت میں اس کا ٹھکانا ( جہنّم) نہایت تکلیف دہ اور بُرا ہوگا۔ اسی ضمن میں یہ ذکر بھی اہمیت سے خالی نہ ہوگا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے مضامین کے اعتبار سے قرآن کے اساسی علوم کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ان میں سے ایک کو ’علم تذکیر بالموت و ما بعد الموت‘ کے نام سے موسوم کیاہے۔ شاہ ولی اللہ کی یہ وضاحت بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ قرآن مجید کے نزول کا مقصد در اصل یہی علومِ پنجگانہ ہے۔ اب یہ واعظین و مذکّرین کا فریضہ ہے کہ وہ ان کی تفصیلات کو محفوظ رکھیں اور متعلقہ احادیث و آثار کے حوالے سے ان سے لوگوں کیلئے استفادہ کو آسان بنائیں۔ 
موت ا ور متعلقہ امور کے بارے میں وارد قرآ نی آیات کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ مو ت اور بعد کے احوال ( اللہ رب العزت کے سامنے حاضر ی، حساب و کتاب سے گزرنا اور عقیدہ واعمال کے مطابق جزا یا سزا کے قانونِ الٰہی کا جاری ہونا) کی یاد تازہ کرنے سے اصلاً مقصود یہ ہے کہ یقینی طور پر پیش آنے والے ان واقعات کو یاد کر تے ہوئے لوگوں کے قلوب خشیت و انابت الی اللہ کی کیفیت سے معمور ہوجائیں، انھیں اصلاحِ احوال کی فکر دامن گیر ہوجائے، وہ اللہ ربّ العزّت کی عبادت ا و ر نیک اعمال میں اپنے کو سرگرم رکھیں ، گناہوں کی طرف بڑھتے ہوئے ان کے قدم رک جائیں اور وہ نیکیوں کی طرف تیز قدم بڑھانے والے بن جا ئیں ، یعنی خوشگوار، پُر سکون اور نعمتوں سے معمور مستقر و مسکن کی طلب میں وہ سرگرداں رہیں۔ 
 یہاں اس جانب توجہ دلانا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ موت اور بعد کے مراحل کو بار بار (اور بعض مقامات پر نہایت تفصیل سے) ذکر کرکے قرآن در اصل انسانوں کے ذہن میں یہ قیمتی نکتہ ( جس کی طرف عام طور پر انسان کا ذہن بہت کم جاتا ہے ) نقش کرنا چاہتا ہے کہ ’ موت ‘ زندگی کا خاتمہ نہیں، بلکہ دنیوی زندگی کا خاتمہ ہے اور اسی کے ساتھ ایک دوسری زندگی کا آغاز ہوتا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے یعنی جسے فنا نہیں ہے۔ ممتاز اسلامی مفکر و نامور شاعر علامہ اقبال (جن کی شاعری میں جا بجا قرآنی افکار و تعلیمات کی ترجمانی ملتی ہے) کے اس شعر میں اس حقیقت کی ترجمانی نہایت موثر انداز میں ملتی ہے:
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
 ہے یہ شامِ زندگی صبحِ دوام زندگی 
یہ بھی پڑھئے:اللہ کی مدد کو دیکھنے کیلئے بصارت کی نہیں بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے

موت کو کثرت سے یاد کرو: اس میں کسی شبہے کی گنجائش نہیں کہ موت کی یاد انسان کو غفلت سے بیدار کرتی ہے اور آخرت کی تیاری کی زبردست تحریک پیدا کرتی ہے۔ موت کی یاد انسان کو فخر و مباہات، تکبر و غرور اور عیش و عشرت سے بھری زندگی سے دور رکھتی ہے اور اس کے اندر یہ احساس بیدار کرتی ہے کہ آخر کار اس دارِ فانی سے کوچ کرتے ہوئے سب کچھ ( آل و اولاد، مال و دولت، ساز وسامان، عہدہ و منصب) چھوڑ کر جانا ہے تو ان فانی چیزوں پر فخر و غرور اور اترانے کے کیا معنی؟ دنیا کے لوگوں اور دنیا کے ساز وسامان پر بھروسا کس کام کا ہے؟ 
موت کی یاد کی اہمیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے محض یاد کرنے کی نہیں، بلکہ کثرت سے یاد کرنے کی ہدایت دی ہے اور اسے دنیا کی لذّات کو ختم کرنے والی، یعنی ان کے غلط اثرات سے انسان کو محفوظ رکھنے والی شے سے تعبیر کیا ہے۔ 
 ارشادِ نبویؐ ہے: ’’لذتوں کو ختم کرنے والی، یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو۔ ‘‘
بلا شبہ ہر انسان کو موت کا اتنا ہی یقین ہے، جتنا اپنی زندگی کا یقین ہے، یہ اور بات ہے کہ بعض مرتبہ ( بلکہ اکثر وبیشتر) حرص و ہوس، نفسانی خواہشات، دنیا کی رنگ رلیوں، معاشی و سیاسی زندگی کی مصروفیات میں رہتے ہوئے وہ اس حقیقت کو فراموش کردیتا ہے یا اس کی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے اور وہ ذکر الٰہی، عبادتِ الٰہی اور دوسرے نیک اعمال سے بے پروا، یعنی آخرت کی تیاری سے غافل ہوجاتا ہے اور ایسا طرزِ عمل اختیار کرتا ہے جیسے اسے موت آنی ہی نہیں ہے۔ 
اس صورتِ حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ ارشادِ گرامی ( موت کو کثرت سے یاد کرو) کس قدر معنویت و افادیت سے بھر پور ہے۔ اسی ضمن میں اس حدیث کا نقل کرنا بہت برمحل معلوم ہوتا ہے جس میں حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ نے یہ بیان کیا ہے کہ وہ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ ایک انصار ی صحابی حاضرِ خدمت ہوئے اور سلام کرنے کے بعد انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:
’’ مومنین میں کون افضل ہے؟ آپؐ نے جواب میں فرمایا کہ جو اخلاق میں سے سب سے اچھا ہے۔ پھر انہوں نے معلوم کیا کہ اہلِ ایمان میں سب سے عقلمند کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ جو موت کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہو اور موت کے بعد کی زندگی کے لئے سب سے اچھی تیاری کرنے والا ہو۔ یہی لوگ دراصل عقل مند ہیں۔ 
 تیسری صدی ہجری کے مشہوربزرگ و صوفی حاتم اصمّ بلخی ؒ (م: ۲۳۷ھ؍ ۸۵۱ء) کے بقول موت واعظ ہونے کے لئے کافی ہے۔ بلا شبہ انسان کو غفلت سے بیدار کرنے کے لیے موت کو یاد کرنا اور یاد دلانا ایک نہایت مجرّب و نفع بخش نسخہ ہے۔ موت کی یاد میں اس لحاظ سے بھی انسان کے لئے بڑی قیمتی و کارگر نصیحت ہے کہ یہ اس کے اندرون میں اپنے حالات کو سدھارنے کی فکر پیدا کرتی ہے اور آخرت میں نفع دینے والے اعمال کی انجام دہی، یعنی شب و روز گزارتے ہوئے نیکیوں کا خزانہ جمع کرنے پر ابھارتی ہے۔ 
جنازہ و تدفین میں شرکت کی تاکید: موت کو یاد کرنے کے علاوہ وفات پانے والوں کے اولین مسکن (قبر) پر حاضری اور ان کے ذکر ِ خیر میں بھی بڑی عبرت و نصیحت ہے۔ کسی کی وفات پر جنازہ و تدفین میں شرکت کے علاوہ عام حالات میں بھی قبروں کی زیارت یا قبرستان میں حاضری کے فضائل و برکات احادیث میں بیان کیے گئے ہیں۔ ایک حدیث میں حضرت براء ابن عازبؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے منع کیا ہے۔ جن سات کاموں کا حکم دیا گیا ان میں دوسرا حکم ہے: جنازہ کے ساتھ پیچھے پیچھے جانا۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ایک حدیث میں بھی کسی مسلم کے جنازہ کے پیچھے چلنے اور نمازِ جنازہ میں شرکت کی بڑی فضیلت و برکت بیان کی گئی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ جنازہ میں شرکت، قبرستان میں حاضری اور وفات پانے والوں کیلئے دعاے مغفرت اہلِ ایمان کے باہمی حقوق میں شامل ہے اور باہمی اخوت و قرابت اور انسانی رشتوں کی پاس داری کے تقاضوں میں سے بھی ہے۔ یہ اعمالِ حسنہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات میں سے تھے، بلکہ یہاں تک روایت ہے کہ ایک دفعہ کسی وجہ سے آپؐ کو ایک شخص کی وفات کی اطلاع نہیں دی گئی، بعد میں لوگوں سے ان کا حال معلوم کرنے پر جب ان کی وفات کی خبر ملی تو آپؐ نے ان کی قبر دریافت کی، وہاں تشریف لے گئے اور نماز جنازہ ادا کی۔ اس کے علاوہ متعدد احادیث میں جنازہ و تدفین میں شرکت کی ترغیب دی گئی ہے۔ 
زیارتِ قبور اور تذکیر موت: ان سب سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس شرکت کے فرضِ کفایہ ہونے کے باوجود اس عمل کی بڑی برکت و فضیلت ہے۔ جنازہ کے علاوہ عام حالات میں بھی قبروں کی زیارت مطلوب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل دونوں سے اس کی تعلیم دی ہے۔ ارشادِ نبوی ؐہے :
’’میں نے تمہیں ( پہلے) قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، پس (اب) قبروں کی زیارت کرو، اس لئے کہ یہ دنیا میں زہد کی صفت پیدا کرتی ہے اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔ ‘‘
 وقتاً فوقتاً قبروں کی زیارت آپؐ کا معمول رہا ہے۔ اس موقعے پر بطور خاص آپؐ یہ دعا پڑھتے تھے:’’ اے اہلِ قبور آپ سب پر سلامتی ہو، اللہ ہماری اور آپ سب کی مغفرت فرمائے، آپ لوگ [ ہم سے ] پہلے جا چکے اور ہم بس آپ کے پیچھے ہیں ۔ ‘‘ مزید یہ کہ آپؐ صحابہ کرامؓ کو قبرستان میں داخل ہونے کی دعائیں بھی سکھاتے تھے۔ ان میں یہ دُعا بہت معروف ہے:’’ اے مومنوں اور مسلمانوں کی بستی والو! تم پر سلام ہو اور ہم ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں، ہم اللہ سے اپنی اور تم سب کی عافیت طلب کرتے ہیں۔ ‘‘
سونے اور بیدار ہونے، سواری پر بیٹھنے، قبرستان میں داخل ہونے، نمازِ جنازہ ادا کرنے اور قبر میں مٹّی ڈالنے کے وقت کی جو دعائیں مسنون ہیں ان سب کے الفاظ پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ ان سب سے کسی نہ کسی صورت میں موت کی تذکیر بھی مقصودہوتی ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ قبرستان میں حاضری، کچھ دیر قبروں کے پاس کھڑے رہنے اور اہلِ قبور کو یاد کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے ذاتی تذکیر ہوتی ہے۔ قبرستان میں حاضری اور قبروں کی زیارت اس لحاظ سے بھی باعث ِ عبرت ہے کہ قبر آخرت کی منازل میں سے پہلی منزل ہے۔ قرآن کریم کے مطابق ا نسان اپنی اِس منزل کی جانب رواں دواں ہے یہاں تک کہ وہ ایک روز اللہ رب العالمین کے سامنے حاضر ہوجائے گا۔ ارشادِ الٰہی ہے:
’’اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جارہا ہے اور اس سے( ایک مقررہ وقت پر) ملنے والاہے۔ ‘‘(الانشقاق :۶) 
آخرت کے سفر میں اس پہلی منزل ( قبر) کی اہمیت اُس حدیث سے بخوبی واضح ہوتی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک صحابیؓ نے حضرت عثمانؓ کو قبر کے پاس کھڑے ہوکر زار و قطار روتے دیکھا تو دریافت کیا کہ آپ جنت و دوزخ کے تذکرے پر اس قدر نہیں روتے جس قدر قبر کی زیارت پر۔ انھوں نے جواب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل فرمایا کہ :
’’قبر آخرت کی منازل میں سے پہلی منزل ہے۔ اگر کوئی اس سے [ کامیابی کے ساتھ] نجات پا گیا تو بعد کی منازل طے کرنا اس کے لیے نہایت آسان ہوگا اور اگر اس سے نجات نہ پا سکا تو اس کے بعد [ کے مراحل میں ] جو کچھ ہے وہ اس سے بہت سخت ہے۔ ‘‘
اُس حدیث سے مرحلۂ قبر کی عبرتیں و نصیحتیں مزید واضح ہو تی ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی ایسا دن نہیں گزرتا کہ قبر یہ آواز نہ دیتی ہو: ’’میں اجنبیت کا گھر ہوں، میں تنہائی کا گھر ہوں، میں مٹّی کا گھر ہوں، میں کیڑے مکوڑوں کا گھر ہوں۔ ‘‘
 حضرت عبد اللہ ابن عبیدؓ کے بیان کے مطابق جب میت کے ساتھ آنے والے واپس چلے جا تے ہیں تو سب سے پہلے قبر ان سے مخاطب ہو کر پوچھتی ہے: ’’ اے ابن آدم! کیا تو نے میرے حالات نہ سنے تھے؟ کیا تجھے میری تنگی، بدبو، ہولناکی اور کیڑوں سے نہ ڈرایا گیا تھا؟ اگر ایسا تھا تو پھر تو نے کیا تیاری کی؟‘‘
ان روایات کے پس منظر میں اُس حدیث کی اہمیت و معنویت مزید بڑھ جا تی ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک دفعہ قبرستان میں کھڑے ہوکر ہادی برحق صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے میرے بھائیو! اس (قبر) کی تیاری کرو۔ ‘‘
اس گھر کی تیاری سے مقصود اس کی پختہ تعمیر اورتزئین نہیں، بلکہ دنیوی زندگی کی تعمیر و اصلاح یا اعمالِ صالحہ سے اس کی آراستگی ہے جو اس گھر میں سکونت کو آرام د ہ و خوش گوار بنائے گی۔ یہ نکتہ اس حدیث کی روشنی میں اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر قبر میں داخل ہونے والا ایمان و عمل صالح سے مزین ہے تو قبر وسیع ہوجاتی ہے اور وہ بہترین آرام گاہ بن جاتی ہے۔ 
 اس میں شبہ نہیں کہ جنازہ میں شرکت اور قبروں کی زیارت اسی پہلی منزل کے لئے تیاری کی یاد دلاتی ہے۔ اس سے نہ صرف اپنی موت یاد آتی ہے، بلکہ موت کے بعد نصیب ہونے والے مسکن (قبر) کا منظر بھی نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے اور یہ احساس قوی ہو جا تا ہے کہ چاہے انسان کتنے عالی شان مکان یا کوٹھی، بنگلہ یا محل کا مکین ہو، آخر کار اسے اسی ٹوٹے پھوٹے، تاریک، کیڑے مکوڑوں والے مٹی کے گھر میں رہنا ہے۔ ایک دو سال نہیں ، بلکہ برسہا برس، جب تک قیامت نہ برپا ہوجائے جس کے وقت ِمقررہ کا علم صرف عالم الغیب و الشہادۃ کو ہے۔ لیکن موجودہ دور میں افسوس صد افسوس کہ اس عبرت و نصیحت کے مقام (قبرستان) میں بھی بہت سے لوگ گپ شپ، حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ اور سیاست و حکومت کے مسائل پر اظہار ِ خیال میں وقت گزار دیتے ہیں۔ کاش! ہم جب تک قبرستان میں موجود ہوں، ذکرِ الٰہی اور فکرِ آخرت میں مصروف ہوں۔ یہاں یہ واضح رہے کہ یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوگی جب پورے آداب و احترام، حضورِ قلب، انتہائی سنجید گی اور رضاے الٰہی کی طلب کے ساتھ اس مقام پر جایا جائے یا قبروں پر حاضری دی جائے اور اس موقعے کی مسنون دعائیں پڑھی جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان مقامات پر اگر کوئی سچی طلب اور سنجیدگی کے ساتھ حاضری دے تو اسے غفلت سے بیداری نصیب ہوگی اور اس پر خشیتِ الٰہی و رجوع الی اللہ کی کیفیت طاری ہوئے بغیر نہ رہے گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ قبروں کی زیارت سے موت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، آخرت کی تیاری کی فکر بڑھ جاتی ہے، اور اکتسابِ خیر کی طلب پیدا ہوتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: آخرت اور فکر ِ آخرت کی تربیت

یکہ و تنہا سفر: واقعہ یہ ہے کہ اس منظر کو یاد کرنے میں بھی بڑی عبرت ہے کہ دنیا میں انسان کے آل واولاد اور مال و اسباب ہوتے ہیں، مکانات، کھیت و باغات ہوتے ہیں اور اصحابِ ثروت کے یہاں تجوریاں یا بنک لاکر سیم و زر اور زیورات سے بھرے ہوتے ہیں، لیکن اس عارضی مستقر سے رخصت ہوتے ہوئے وہ سب کچھ پیچھے چھوڑ کر یکا و تنہا راہی ٔ ملک عدم ہوتا ہے، قبر میں خالی ہاتھ پہنچتا ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ، اللہ رب العزت کے حضور یکا و تنہا حاضر ہوگا۔ قرآن نے اس حقیقت سے بھی صاف طور پر انسان کو باخبر کردیا ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے:
’’اور سب کے سب روزِ قیامت یکا و تنہا اس کے سامنے آئیں گے۔ ‘‘(مریم: ۹۵)۔ دوسری جگہ فرمایا: ’’لو! اب تم ویسے ہی تنِ تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا کہ ہم نے تم کو پہلی مرتبہ( اکیلا) پیدا کیا تھا۔ ‘‘ ( الانعام: ۹۴) 
گھر سے قبر ستان تک کے سفر میں کون سی چیزیں میّت کے ساتھ جائیں گی، اور کون واپس آجائیں گی، اور کون اس کے ساتھ قبر میں باقی رہ جائیں گی؟ اس کی بہترین منظر کشی ایک مختصر، لیکن نہایت سبق آموز حدیث میں ملتی ہے۔ اس کے الفاظ ملاحظہ ہوں۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’تین چیزیں میّت کے پیچھے جاتی ہیں، اس کے گھروالے، اس کا مال [ملکیت کی چیزیں ؍ نوکر چاکر، اور اس کا عمل۔ پس دو چیزیں واپس آجاتی ہیں اور ایک [اس کے ساتھ ] باقی رہ جاتی ہے۔ اس کے گھر والے اور اس کے مال واپس آجاتے ہیں اور اس کا عمل باقی رہ جاتا ہے۔ ‘‘
اللہ کے ہاں جواب دہی کا احساس: بلا شبہ قبر کی یا بعد کی منازل میں متوفی کے لئے آ خرت میں نفع دینے والے محض اس کے نیک اعمال، حسنات یا نیکیوں کے خزانے ہو ں گے جو قرآن کریم کی اصطلاح میں الباقیات الصالحات کہلاتے ہیں۔ قرآن کریم میں بار بار اہلِ ایمان کو انہی باقیاتِ صالحات، یعنی باقی ر ہ کر اُخروی زندگی میں کام آنے والی نیکیوں کا خزانہ جمع کرنے، اسے بڑھانے اور اس راہ میں اللہ کی عطا کردہ جملہ صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ (البقرۃ: ۲۵، ۸۲، ۲۷۷؛ النساء: ۱۲۴، الانعام : ۱۶۰، ھود:۱۱۴، طٰہ: ۷۵، النمل: ۸۹، القصص : ۷۴، البیّنۃ :۷)
قرآن کریم میں انسان کو موت کی یاد دہانی کے ساتھ اس کے بعد قبر میں جانے اور ایک مقررہ مدت کے بعد اس سے اٹھائے جانے کو بھی یاد دلایا گیا ہے (الحج:۷، یٰسین :۵۱، الانفطار:۴، العادیات:۹، التکاثر:۲) تاکہ وہ مزید عبرت و نصیحت حاصل کرے، اپنے احوال کو درست کرلے اور نیکیاں کمانے میں مسابقت کرے۔ ان آیات میں سے ایک نہایت سبق آموز اور انسان کو غفلت سے بیدار کرنے والی آیت سورۃ الانفطار کی آیت۴؍ اور ۵؍ ہے جس کا مفہوم ہے: 
’’اور یاد کرو اس وقت کوجب قبریں کھول دی جائیں گی، [ اور]ہر شخص کو اس کا اگلا پچھلا کیا دھرا معلوم ہوجائے گا۔ ‘‘
یہ حقیقت ہے کہ موت کی یاد، دوبارہ زندہ کئے جانے کا تصور، اللہ رب العزت کے حضور حاضری اور اعمال کے لئے باز پرس کا احساس اور اس کا یقین انسان کو نیک عمل کی راہ پر ڈالتا ہے، اور بظاہر بعض مشکل عبادات کو بخوشی بجا لانے کے لئے تیار کرتا ہے اور اسے غلط حرکتوں، گناہوں اور بد دیانتی، بد عنوانی اور فریب دہی وغیرہ سے دُور رکھتا ہے۔ ان حقائق کو خود قرآن نے متعدد مقامات پر بیان کیا ہے اور انسان کو انہیں صدقِ دل سے قبول کرنے کی دعوت دی ہے۔ یہ بات بخوبی معروف ہے کہ فرض عبادات میں نماز سب سے اہم و افضل ہے۔ پورے اصول و آداب اور وقت کی پابندی کے ساتھ روزانہ پانچ بار اس کی بجا آوری ایک ِ مشکل امر ہے، لیکن یہ عمل ان لوگوں کے لئے ذرا بھی مشکل و گراں نہیں جو موت کے بعد دوبار زندہ کئے جانے اور اللہ رب العزت کے حضور حاضر کئے جانے میں یقین رکھتے ہیں۔ یہ نکتہ سورئہ بقرہ میں واضح کیا گیا ہے:
’’صبر اور نماز سے مدد لو، بے شک یہ ایک مشکل کام ہے، لیکن ان لوگوں کے لیے مشکل نہیں جو اللہ کی طرف جھکنے والے ہیں اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ آخر کا ر وہ [ایک نہ ایک دن] اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور اس کی طرف پلٹ کر جانےوالے ہیں۔ ‘‘ (البقرہ :۴۵-۴۶)
 اسی طرح ناپ تول میں کمی یا لین دین میں بددیانتی کرنے والوں کو اس قبیح عمل یا گناہ کے کام کے بڑ ے تباہ کن انجام سے متنبہ کرتے ہوئے انہیں اس طور پر خبر دار کیا گیا ہے:
’’کیا انہیں یہ خیال نہیں کہ ایک بڑے دن (یوم ِقیامت) انہیں دوبارہ اٹھایا جائے گا اور یہ وہ دن ہوگا جب لوگ رب العالمین کے رُوبرو دست بستہ کھڑے ہوں گے۔ ‘‘ (المطفّفین:۴-۶) 
یعنی اگر ان میں یہ احساس بیدار ہوجائے کہ انہیں اللہ کے حضور حاضر ہوکر اپنے عمل کا حساب دینا ہے تو وہ بد دیانتی اور گناہ کے دوسرے کاموں کے قریب جانے کی ہمت نہیں کر سکتے۔ اسی طرح یہ بھی معلوم ہے کہ نفسانی خواہشات انسان کو غلط کاموں پر ابھارتی ہیں جو انجام کے اعتبار سے اس کے لئے مہلک ثابت ہوتے ہیں، لیکن جو لوگ یومِ جزا یعنی حساب کتاب کے دن اللہ رب العزت کے سامنے کھڑے ہونے سے خوف ر کھتے ہیں وہ ان خواہشات کے پیچھے نہیں چلتے، بلکہ ان کو کنٹرول میں رکھتے ہیں ۔ اس کے نتیجے میں وہ اللہ کی نافرمانی اور گناہ کے کامو ں سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے حقیقی کامیابی سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ یہی حقیقت اس آیت سے سامنے آتی ہے:
’’ اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا تو بلاشبہ جنت اس کا ٹھکانا ہوگا۔ ‘‘ (النازعات :۴۰-۴۱ )
خوف اور اُمید کے درمیان زندگی: آخر میں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ موت کی تذکیر اور قیامت و آخرت کے واقعات یاد دلانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یا معاشرتی و معاشی زندگی کی مصروفیات کو تیاگ کر بس موت اور قبر کی زندگی کو یاد کرتا رہے اور قیامت و آخرت کا وِرد کرتا رہے۔ درحقیقت ان سب باتوں کو یاد دلانے سے مقصود یہ ہے کہ انسان اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہوئے اور روز مرہ زندگی کے مشاغل جاری رکھتے ہوئے اُخروی زندگی کی تیاری سے غافل نہ رہے اور فکر ِ آخرت سے اس کا دل و دماغ خالی نہ ہوجائے، یعنی وہ جس شعبۂ حیات سے منسلک رہے یا جن مصروفیات سے وابستہ ہو، ان میں احکامِ الٰہی و تعلیمات نبویؐ کو یاد رکھے اور انہی کے مطابق شب وروز گزارے، تاکہ اسے ابدی زندگی میں سکون و اطمینان نصیب ہو۔ 
 در اصل قرآن و سنت کی نظر میں مومن سے مطلوب یہ ہے کہ وہ دنیوی زندگی میں موت، قبر، قیامت، حضورِرب حاضری اور حساب و کتاب کا تصور تازہ رکھے اور بازپُرس کے احساس سے دل کو معمور رکھے، تاکہ اس کے اثر سے فرائض و حقوق کو ادا کرتا رہے، نیکیاں کماتا رہے اورگناہوں سے بچتا رہے۔ مزید یہ کہ یہ سب کرتے ہوئے وہ اللہ رب العزت کے فضل و کرم کا طلب گار اور اس کے بے پایاں رحم و کرم کا امید وار رہے اور ناامیدی کو پاس نہ آنے دے۔ 
یہ آیات کلام ِ پاک اہلِ ایمان کو یہی پیغام دے رہی ہیں :
’’ جان لو کہ بے شک اللہ عذاب دینے میں بڑا سخت ہے اور بے شک اللہ بہت مغفرت کرنے والا اور بہت رحم فرما نے والا ہے۔ ‘‘(المائدہ :۹۸)
’’ (اے نبیؐ ) میرے بندوں کو خبر دار کر دیجئے کہ میں بے شک بہت معاف کرنے والا ہوں اور یہ ( بھی بتا دیجئے) کہ میرا عذاب بڑا دردناک ہے۔ ‘‘ (الحجر: ۴۹-۵۰)
 مزید یہ کہ قرآن نے اہلِ ایمان کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ وہ اللہ رب العزت کی حمد و تسبیح اور عبادت میں مصروف رہتے ہیں اور خوف و رجا کے ساتھ اپنے رب کو پکارتے رہتے ہیں۔ (السجدۃ:۱۶) حقیقت یہ ہے کہ مومن کی زندگی اِن دونوں کیفیات ( خوف و رجا) کے درمیان گزرتی ہے۔ وہ اسی حالت میں رہتے ہوئے شب وروز بسر کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ ربّ کریم کے یہاں سے بلاوا آجاتا ہے اور وہ اس عارضی مستقر سے رخصت ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ بھی پیش نظر رہے کہ اگر کوئی دنیوی زندگی میں موت، قیامت و آخرت کو یاد کرکے اللہ رب العزت کا خوف دل و دماغ میں سما لے گا تو نامعلوم کتنے خوف سے نجات پائے گا اور ابدی زندگی میں اسے ایسی اطمینان بھری کیفیت نصیب ہوگی کہ جس میں نہ غم ہوگا، نہ رنج، نہ کوئی تشویش ہوگی اور نہ گھبراہٹ کا گزر ہوگا۔ متعدد آیات میں یہ خوش خبری ایمان و عملِ صالح سے مزین زندگی گزارنے والوں کو سنائی گئی ہے، دیکھئے یہ آیات: (البقرہ : ۳۸، ۶۲، ۲۶۲، ۲۷۴، المائدہ: ۶۹، الانعام:۴۸، الاعراف : ۴۹، الاحقاف :۱۳)
 واقعہ یہ ہے کہ اس عارضی زندگی میں اگر کوئی موت کو یاد کرکے اللہ تعالیٰ کا خوف اپنے اوپر طاری کرلے اور صراط مستقیم اختیار کرکے دائمی زندگی میں ہر طرح کے خوف و غم سے نجات پا جائے تو یہ گھاٹے کا نہیں، بلکہ سراسر نفع کا سودا ہوگا۔ اس کے برخلاف جو لوگ موت اور اس کے بعد کے مراحل کو بھلا کر تکذیب وانکار اوراللہ اور اُس کے بندوں کے حقوق کی پامالی کی ڈگر پر چلتے رہتے ہیں، آخر کا ر اس کے انجامِ بد سے دوچار ہوں گے اور عذابِ جہنم میں گرفتار ہوجائیں گے۔ ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ لوگ یہ اعتراف کریں گے کہ یہ ان کی بہت بڑی بھول تھی، ورنہ انہیں آج یہ برے دن دیکھنے نہ پڑتے۔ حقیقت یہ کہ یہ بے وقت کا اعتراف اور پچھلی زندگی کی غفلتوں کی یادیں ان کے کچھ کام نہ آئیں گی۔ یہ آیتِ کریمہ آخرت کی مناظر کشی کرتے ہوئے اسی حقیقت سے پردہ اٹھا رہی ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے:
’’جو جنت میں ہوں گے وہ مجرموں سے پوچھیں گے، تمہیں کیا چیز دوزخ میں لے گئی؟ وہ کہیں گے ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیں تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے، اور حق بات کے خلاف باتیں بنانے والوں کے ساتھ ہم بھی باتیں بنانے لگے تھے اور روزِ جزا کو جھٹلاتے تھے، یہاں تک کہ یقینی چیز(موت) ہمارے پاس آدھمکی۔ ‘‘ 
( المدّثّر : ۴۰؍تا۴۷) 
مختصر یہ کہ موت اور اس کے بعد کے مراحل کو یاد کرنے میں ہم سب کے لئے عبرت و نصیحت ہے۔ یہاں یہ بھی واضح رہے کہ قرآن و حدیث میں موت اور اس کے بعد کے مراحل کو باربار یاددلانا محض برائے یاد دہانی نہیں، بلکہ برائے عبرت ہے۔ متعلقہ آیات و ا حاد یث کے مطابق ان سے عبرت پزیری ہمارے لئے انتہائی نفع بخش ہے، لہٰذا اس سے غافل نہیں رہنا چاہئے۔ ان سب سے کیا مقصود ہے؟ یہی کہ موت و حیات کے خالق و مالک کی یاد کی طرف متوجہ کرنا، اس کے حقوق یاد دلانااور اپنی اصلاح کی فکر کرنا، اس لئے کہ کسی کو کچھ پتا نہیں کہ کب، کس مقام پر اور کس طریقے سے اس کی زندگی کا سلسلہ تمام ہوجائے، اور روزِ جزا اللہ رب العزت کے سامنے حاضری کے لئے تیاری نہ ہونے کی صورت میں کفِ افسوس ملنا پڑے یا وقت موعود کو مؤخر کرنے کی تمنا کرنی پڑے، جبکہ قرآن کا صاف اعلان ہے کہ انسان کی یہ تمنا پوری ہونے والی نہیں۔ (الاعراف: ۵۳؛ المومنون :۹۹-۱۰۰، ۱۰۷-۱۰۸، المنافقون : ۱۰۔ ۱۱)
موت اور بعد کے احوال کی خود کو اور دوسروں کو یاد دلانا چاہئے کہ آخری وقت کے آنے سے پہلے ہم اپنے آپ کو تیار کرلیں اور اس گھڑی کے آنے سے پہلے پہلے نصیحت حاصل کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں کہ جب موت سامنے ہونے یا قیامت برپا ہونے اور اعمال نامہ ملنے پر ہم نصیحت پکڑیں گے اور نیک عمل کرنے کی کچھ مہلت چاہیں گے تو اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، اس لیے کہ وقت نکل چکا ہوگا۔ ارشاد الٰہی ہے:
’’ اس دن انسان کی سمجھ میں آجائے گا اور 
اس وقت سمجھ میں آنے سے کیا حاصل ہوگا۔ ‘‘ (الفجر : ۲۳ )
حدیث میں اس شخص کو دانش مند کہا گیا ہے جو دنیا میں رہتے ہوئے نفس کو قابو میں رکھے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کر تا رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان حقائق کو سمجھنے، انہیں دل ودماغ میں نقش کرنے اوران کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK