آج کل سوشل میڈیا پر بے ادبی اور گستاخی کا سیلاب سا آیا ہوا ہے، اس پس منظر میں یہ مضمون غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔
EPAPER
Updated: July 18, 2025, 12:09 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
آج کل سوشل میڈیا پر بے ادبی اور گستاخی کا سیلاب سا آیا ہوا ہے، اس پس منظر میں یہ مضمون غوروفکر کی دعوت دیتا ہے۔
بے ادبی ایک خطرناک اخلاقی اور روحانی بیماری ہے جو آہستہ آہستہ انسان کے ضمیر، قلب اور عقل کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ یہ رویہ دراصل اس باطنی فساد کی علامت ہے جس میں انسان دوسروں کے احترام، رتبے اور مقام کو تسلیم کرنے کے بجائے خود کو محورِ کائنات سمجھنے لگتا ہے۔ نتیجے کے آئینے میں دیکھا جائے تو بے ادبی وہ زہر ہے جو معاشرتی ہم آہنگی کو بگاڑتا ہے اور فرد کو اس کی فطری انسانیت سے دور کر دیتا ہے۔ مزید برآں یہ روحانی زوال کی وہ شکل ہے جو نہ صرف فرد کی شخصیت کو بگاڑتی ہے بلکہ اجتماعی اقدار کو بھی متزلزل کر دیتی ہے۔ اسی لئےجس معاشرے میں بے ادبی عام ہو جائے، وہاں علم کا احترام، بڑوں کی عزت اور پاکیزہ اقدار کا چراغ بجھنے لگتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے بے ادبی کو محض ایک غیر مہذب طرزِ عمل نہیں سمجھا ہے بلکہ ایک سنگین اخلاقی اور روحانی جرم قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں بنیادی دلیل قرآن مجید کی وہ آیت ہے جس میں واضح طور پر یہ ہدایت دی گئی ہے کہ:
’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیِ مکرّم (ﷺ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہو جائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو۔ ‘‘ (الحجرات:۲)
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ صرف آواز بلند کرنا بھی بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے، اور اس کا انجام یہ ہے کہ انسان کے نیک اعمال ضائع ہو سکتے ہیں جبکہ وہ خود بھی بے خبر رہتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بے ادبی نہ صرف ایک ظاہری عمل ہے بلکہ یہ دل کے اندر چھپی ہوئی گستاخی کی ایک علامت بھی ہو سکتی ہے، جس کے نتائج نہایت مہلک اور ہمہ گیر ہوتے ہیں۔ بے ادبی کی قباحت کو بیان کرنے والی ایک بہت مشہور حدیث ہے، آپؐ نے فرمایا:
’’جو بڑوں کا ادب نہ کرے اور بچوں پر رحم نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں۔ ‘‘ (ترمذی)
اس حدیث سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ تمام بزرگ، علما، والدین، اساتذہ اور حتیٰ کہ عام انسانوں کے ساتھ بھی احترام کا رویہ لازم ہے۔ بے ادبی چونکہ تکبر، غرور، اور خود پسندی کی علامت ہے، جو شیطانی صفات ہیں ؛ اسی لئے شریعت نے نہایت شدت سے اس کی مذمت کی ہے اور ادب کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔
مذکورہ حدیث کے اعتبار سے جو شخص ادب سے محروم ہے، وہ گویا ایمان کی ایک اہم شاخ سے بھی محروم ہے۔ بے ادبی چاہے کسی کے ساتھ ہو وہ قابل مواخذہ عمل ہے لیکن یہ بے ادبی جب خصوصاً والدین، اساتذہ، علماء اور محسنین کے ساتھ ہو تو ایک ایسا سنگین جرم بن جاتا ہے جس کا انجام صرف آخرت کی محرومی نہیں بلکہ دنیا کی رسوائی اور ناکامی کی شکل میں بھی سامنے آتا ہے۔
اہل علم بتاتے ہیں کہ بعض بداعمالیوں کی سزا دنیا میں بھی ملتی ہے۔ بے ادبی انہی میں سے ایک ہے۔ زندگی کے مشاہدات بتاتے ہیں کہ جو لوگ اپنے محسنوں کی توہین کرتے ہیں، وہ اکثر زندگی کی راہوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں اور ان کی زندگی میں مختلف قسم کے حالات بے ادبی کے عکس کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں۔ بے ادبی گویا ایک درخت کی جڑ کاٹنے کے مترادف ہے جو آخرکار خود انسان کی بنیاد کو ہی ڈھانے کا سبب بن جاتی ہے۔
یہاں یہ نکتہ نہایت اہم ہے کہ بے ادبی کسی کے سامنے صرف ظاہری بدتمیزی، غیرمہذب الفاظ، یا گستاخانہ لہجے تک محدود نہیں ہوتی، بلکہ اس کی کئی اور شکلیں بھی ہو سکتی ہیں جنہیں اکثر لوگ محسوس نہیں کرتےمگر وہ حقیقت میں بے ادبی ہی کے دائرے میں آتی ہیں ؛ مثال کے طور پردل میں کسی کے لئے نفرت رکھنا، کسی کی قدر نہ کرنا، اس کے مقام و مرتبے کو نظرانداز کرنا، یا اس کے حقوق کو معمولی سمجھنا، یہ سب بے ادبی کی مختلف شکلیں ہیں جو انسان کے اخلاقی زوال کا سبب بنتی ہیں۔ آج کے دور میں جب دنیا ڈجیٹل روابط میں جکڑی ہوئی ہے، سوشل میڈیا ایک نیا میدان بن چکا ہے جہاں الفاظ کی حرمت، شخصیات کا احترام اور باوقار اندازِ گفتگو اکثر پسِ پشت ڈال دیئے جاتے ہیں، لوگ بے دھڑک اپنے اساتذہ، علما، بزرگوں، حتیٰ کہ والدین کے خلاف بھی بسا اوقات تبصرے اور پوسٹس کرتے ہیں، یا ان کی باتوں پر مذاق اڑاتے ہیں، جو کھلی بے ادبی ہے، چاہے وہ براہ راست کہی گئی ہو یا ’’مزاح‘‘ اور ’’تنقید‘‘ کے پردے میں۔ ایسے افراد شاید وقتی شہرت حاصل کر لیں یا اپنے خیالات کا اظہار کر کے خوش ہو جائیں لیکن اس بات سے غافل ہوتے ہیں کہ نادانستہ طور پر اپنے اخلاق، روحانیت اور تقدیر کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔
مذکورہ اسلامی تعلیمات سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ زبان، قلم اور اب سوشل میڈیا پر بھی وہی الفاظ استعمال کئے جائیں جن میں ادب، احترام اور شائستگی ہو، کیونکہ ایک معمولی جملہ یا تبصرہ بھی انسان کو اللہ کی ناراضگی اور خلقِ خدا کی نظر میں ذلت تک پہنچا سکتا ہے۔ یاد رکھیں ! جو قومیں ادب و احترام کو اپنا شعار بناتی ہیں، وہ عزت، علم اور برکت کی معراج پر پہنچتی ہیں اور جو اسے چھوڑ دیتی ہیں، وہ نہ صرف دنیا میں ذلیل ہوتی ہیں بلکہ آخرت میں بھی انہیں سخت خسارے کا سامنا ہوتا ہے۔ اس لئے وقت کا تقاضا ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر ادب کی عظمت کو سمجھیں، اپنی زندگی کے ہر دائرے میں اس کو نافذ کریں اور خاص طور پر سوشل میڈیا جیسے جدید ذرائع میں بھی شائستگی، حکمت اور احترام کے اصولوں کی پاسداری کریں :
ادب ہی سے انسان انسان ہے
ادب جو نہ سیکھے وہ حیوان ہے