زندگی کی راہوں میں انسان کبھی اپنے قریب ترین لوگوں سے نباہ کرتا ہے اور کبھی اجنبی چہروں سے معاملہ کرتا ہے۔
زندگی کی راہوں میں انسان کبھی اپنے قریب ترین لوگوں سے نباہ کرتا ہے اور کبھی اجنبی چہروں سے معاملہ کرتا ہے۔ ان روابط کے درمیان اس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اور اس کے کئے گئے وعدے دراصل اس کے باطن کا آئینہ ہوتے ہیں۔ مگر بعد میں جب انسان گفتار کے درخت سے برگِ صداقت توڑ کر مکر و فریب کے جھونکے میں بہہ جاتا ہے اور اس طرح اپنی بات اور وعدہ سے مکر جاتا ہے تو وہ صرف اخلاقی کمزوری کا شکار نہیں ہوتا بلکہ اپنی روحانی ساخت میں بھی دراڑ ڈال لیتا ہے۔ اپنی بات سے پیچھے ہٹنا اور وعدہ خلافی کرناانسان کی شخصیت کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے اور مذہبی پیمانے پر یہ اس کے کردار کے وزن کو بھی ہلکا کر دیتی ہے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس مادی اور مفاد پرست دور میں بہت سے لوگ اپنی بات سے پھر جانے کو معمولی عمل سمجھ بیٹھے ہیں، حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کے خلاف واضح ہدایات موجود ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو حکم دیتا ہے کہ اپنے عہدوں کو پورا کرو (المائدہ:۱) ، اور ایک اور مقام پر فرمایا کہ’’ عہد کو پورا کرو، بے شک عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘ (بنی اسرائیل:۳۴) رسولِ اکرم ﷺ نے وعدہ خلافی کو منافق کی علامت قرار دیا اور فرمایا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں (جن میں سے ایک یہ ہے کہ )اور وہ جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
مذکورہ آیات و حدیث کے تناظر میں جہاں بڑے اور باقاعدہ کئے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کی قباحت واضح ہوتی ہے، وہیں یہ حقیقت بھی اپنی پوری سنگینی کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ عام گفتگو میں کہی گئی بات سے مکر جانا بھی اسی زمرہ میں شامل ہے۔ انسان کے لبوں سے نکلنے والا ہر لفظ دراصل اس کی نیت، اس کی اخلاقی ذمہ داری اور اس کے کردار کی گواہی ہوتا ہےاسلئے خواہ وعدہ رسمی ہو یا کسی روزمرہ کے معاملے میں کی گئی ایک سادہ سی بات، اس سے پھر جانا امانت ِ گفتار کی خلاف ورزی ہے۔
اس پس منظر میں ایک نہایت افسوسناک اور حیرت انگیز رویہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو حالات کا رخ دیکھ کر اپنی واہ واہی کے لئے بات کر دیتے ہیں، خواہ اس بات میں کوئی حقیقت ہو یا نہ ہو۔ ان کے نزدیک کلمات کا کوئی وزن نہیں ہوتا؛ گویا زبان ایک کھیل اور بیان ایک وقتی نمائش ہو۔ بعد میں جب ان سے بازپرس کی جاتی ہے تو انتہائی سادگی کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم نے تو یوں ہی کہہ دیا تھا۔ یہ طرزِ فکر دراصل شخصیت کی سطحیت اور کردار کے خلا کی علامت ہے۔ کیونکہ انسان کی قدرو قیمت اسی میں ہے کہ اس کا لفظ، اس کی نیت، اور اس کی سچائی ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔اس حوالے سے ہماری ایک نمایاں کمزوری یہ بھی ہے کہ ہم مستقبل کے لئے کچھ مثبت، بامقصد کام کرنے کا عزم اپنی بات سے تو ظاہر کر دیتے ہیں، مگر جیسے ہی حالات ہماری توقعات کے برخلاف ہو جاتے ہیں، ہم اپنی ہی کہی ہوئی بات کی ہوا نکال دیتے ہیں۔ حالانکہ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ ’’پھر جب تم پختہ ارادہ کر لو، تو اللہ پر بھروسا کرو۔‘‘ (آلِ عمران:۱۵۹)
اس تعلیم میں یہ پیغام پوشیدہ ہے کہ انسان کے قول، اس کے ارادے اور اس کے عمل کے درمیان ہم آہنگی ہونی چاہئے؛ کیونکہ جو شخص عزم کے باوجود پسپا ہو جاتا ہے وہ دراصل اپنے کردار کی بنیاد خود کمزور کرتا ہے، جبکہ سچا ارادہ اللہ کے بھروسے کے ساتھ عمل کا تقاضا کرتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض لوگ اب اس حد تک گفتار کی بے وزنی میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ (مثال کے طور پر)محض ٹالنے کے لئے کہتے ہیں: ’’ایک گھنٹے بعد مَیں آپ سے ملوں گا‘‘ حالانکہ دل میں اُن کا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہوتا۔ جب قول اور نیت میں تضاد پیدا ہو جائے تو انسان کی بات اپنی معنویت کھو دیتی ہے اور سامنے والا شخص بھی اس کے ہر لفظ پر شک کرنے لگتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مضبوط انسان کی پہچان قول میں دیانت ہے؛ کیونکہ وہ زبان جو حقیقت سے خالی ہو، وہ ارادہ جو کمزور پڑ جائے، اور وہ وعدہ جو صرف وقتی سہارا بنے، یہ سب انسان کی شخصیت سے وقار اور مضبوطی چھین لیتے ہیں۔ معاشرہ انہی کمزوریوں سے ٹوٹتا ہے اور اسی بے وزنی سے اعتماد کی عمارت گرنے لگتی ہے۔ اس لئے اسلام کا ہم سے ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی زبان کو سچائی کا امین بنائیں، اپنے ارادے کو استقامت سے جوڑیں اور اپنے وعدے کو اپنی شناخت کا حصہ بنائیں۔