• Fri, 28 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

غلطیوں پر نصیب کے نام کا پردہ ڈالنا خود فریبی ہے

Updated: November 28, 2025, 4:56 PM IST | Muhammad Toqeer Rahmani | Mumbai

شادی بیاہ کے معاملات میں خودساختہ رسوم اور نسلی تکبر وغیرہ کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

If marriage has become difficult in our society, it is not a result of Islam, but of our self-imposed customs, ethnic arrogance, and false social respect. Picture: INN
اگر ہمارے معاشرے میں نکاح مشکل ہوگیا ہے تو یہ اسلام کا نہیں، ہماری خودساختہ رسوم، نسلی تکبر اور جھوٹی معاشرتی عزت کا نتیجہ ہے۔ تصویر:آئی این این
رات کا سناٹا تھا، مدینہ کی گلیاں سوئی ہوئی تھیں، مگر ایک دل تھا جو جاگ رہا تھا،ایک عورت کا دل، جس پر تنہائی کی چوٹیں مسلسل برس رہی تھیں۔ درد سے بھری ہوئی اس کی آواز نے خاموشی کی فصیلیں توڑ دیں۔ اس نے لرزتی ہوئی سانسوں کے ساتھ وہ اشعار پڑھے جن کا مفہوم یہ تھا:’’اگر اللہ کا خوف نہ ہوتا، اور قیامت کے دن حساب کا ڈر نہ ہوتا… تو آج رات اس چارپائی کے کونوں میں ہل چل ہوتی۔‘‘ یہ کوئی عام لفظ نہیں تھے؛ یہ ایک تڑپ تھی، ایک بیٹی کی، ایک بیوی کی، ایک انسان کی۔ یہ اشعار ایک دل کی چیخ تھے جو صبر کے بوجھ تلے دب چکا تھا۔ یہ آواز امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروقؓ کے کانوں تک پہنچی تو ان کا دل دہل اٹھا۔ وہ وہی عمرؓ تھے جن کے ایک اشارے سے سلطنت کا نقشہ بدل جاتا تھا، مگر ایک مظلوم دل کی کراہ نے انہیں بے چین کر دیا اور  دیر تک سوچتے رہے کہ یہ امت کی ماؤں اور بیٹیوں کا حال ہے، اور میں ان کا امیر ہوں!  
پھر وہ حکم نہیں تھا، وہ درد کی ترجمانی تھی؛ وہ قانون نہیں تھا، وہ رحمت کی تصویر تھی؛ وہ سیاست نہیں تھی، وہ انسانیت کی حفاظت تھی۔ انہوں نے فرمایا: ’’کوئی شوہر اپنی بیوی سے تین ماہ سے زیادہ دور نہ رہے!‘‘ یہ فیصلہ اُس حکمراں کا نہیں تھا جو تخت پر بیٹھا ہو۔ یہ اس شخص کا فیصلہ تھا جو امت کے دکھوں کا بوجھ اپنے سینے میں لئے پھرتا تھا۔ عمرؓ کی نگاہ میں حدودِ سلطنت سے بڑھ کر ایک عورت کے دل کا ٹوٹ جانا بڑا جرم تھا۔   (مصنّف عبدالرزاق اور تاریخ الخلفاء) 
انسان کی زندگی ایک مسلسل سفر ہے،ایسا سفر جس کے ہر پڑاؤ کے اپنے مطالبات، اپنے امکانات اور اپنی آزمائشیں ہیں۔ جیسے جیسے انسان عمر کی دہلیزوں پر قدم رکھتا ہے، اس کے اندر خواہشات کی لہریں بھی انگڑائیاں لیتی ہیں اور ذمہ داریوں کا بوجھ بھی بڑھتا ہے۔ اگر ان مطالبات کو ان کے وقت پر پورا نہ کیا جائے، تو فطرت اپنا حق کسی نہ کسی صورت میں ضرور وصول کرتی ہے؛ اور جب فطرت تاوان لیتی ہے تو وہ منطق یا معاشرت کی رعایت نہیں کرتی۔ جوانی انسانی وجود کی وہ منزل ہے جہاں امنگیں اپنی بلندی پر ہوتی ہیں، جذبے اپنے شباب پر، اور خواہشات اپنی شدت پر۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں ایک طرف انسان کے اندر روحانیت کا نور بھی جگمگاتا ہے، اور دوسری طرف نفس کی گرم لہریں بھی سر اٹھاتی ہیں۔خواہشات کو محض روک دینے سے نہیں، ان کا صحیح مصرف مہیا کرنے سے انسان پاکیزگی کے مقام تک پہنچتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں شریعتِ مطہرہ، حکمتِ انسانی اور تجربۂ زندگی تینوں ایک ہی بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ  وقت پر شادی کرو۔ قرآن میں نکاح کو نہ صرف پسندیدہ عمل کہا گیا بلکہ بلوغت کے بعد اس کی عملی ترغیب دی گئی۔ احادیث میں واضح الفاظ ہیں کہ اگر نکاح کے اسباب موجود ہوں تو دیر کرنا روحانی نقصان کا نہیں بلکہ سماجی المیے کا سبب بنتا ہے؛ کیونکہ فطرت کے بہاؤ کے خلاف بند باندھ کر معاشرے کو پاکیزہ نہیں رکھا جاسکتا۔
ہمارے معاشرے میں ایک عجیب تضاد پایا جاتا ہے۔ والدین اپنی اولاد سے بے پناہ محبت بھی کرتے ہیں اور انہی کے ہاتھوں اولاد کی عملی زندگی کی راہیں بھی مسدودہوتی ہیں۔ ’’خاندان سے باہر رشتہ نہیں‘‘ یہ جملہ ایک طرزِ فکر نہیں بلکہ نسلی تکبر کا سایہ ہے جو رفتہ رفتہ ظلم کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ لڑکیاں اور لڑکے نہیں، بلکہ اکثر والدین اپنی ضد اور اَنا کے اسیر ہوتے ہیںیہاں تک کہ بہت سی لڑکیاں اندر ہی اندر ٹوٹ جاتی ہیں۔ پھر جب کبھی کسی لڑکی سے کوئی غلط قدم اٹھ جاتا ہے تو لوگ اسے بدکردار کہتے ہیں، مگر اصل بدکردار وہ رسمیں ہیں جو اسے اس سمت دھکیلتی ہیں۔ اور اس سب کے بعد والدین کا جملہ بڑا عجیب ہوتا ہے: ”نصیب ہی ایسا تھا! “نہیں! نصیب ایسا نہ تھا، نصیب کے نام پر اپنی غلطیوں کا پردہ ڈالنا تقدیر فہمی نہیں، خود فریبی ہے۔ دوسری بڑی وجہ ’’کریئر پہلے، شادی بعد میں‘‘ کا فلسفہ ہے۔ اس فلسفے میں کوئی برائی نہیں اگر انسان خواہشات اور فطری تقاضوں پر بھی نظر رکھے۔ لیکن جب کریئر کی دوڑ میں عمر پگھلتی چلی جائے، تو نہ مناسب رشتہ باقی رہتا ہے اور نہ نامناسب۔ زندگی کا وہ وقت جس میں انسان فطری طور پر رشتہ چاہتا تھا  وہ گزر چکا ہوتا ہے اور پھر تنہائی صرف تنہائی نہیں رہتی ایک وجودی سوال بن جاتی ہے۔
یہ ایک مسلم اصول ہے کہ جبلّت کو بے مصرف چھوڑنے سے فساد پیدا ہوتا ہے۔ فطرت کو اگر جائز راستہ نہ دو تو وہ ناجائز راستہ تلاش کر لیتی ہے، یہ قانون صرف انسان کا نہیں، پوری کائنات کا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے بہتا ہوا پانی اگر راستہ نہ پائے تو اپنی دیوار توڑ لیتا ہے، ویسے ہی انسان کی خواہش اگر راستہ نہ پائے تو یا تو انسان اندر سے ٹوٹ جاتا ہےیا پھر معاشرہ بیرونی برائیوں کا شکار ہو جاتا ہے،  زنا عام ہوتا ہے، نسلیں خلط ملط ہوتی ہیں، ذہنی بیماریاں بڑھتی ہیں اور خاندانی نظام بکھر جاتا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جسے شریعت نے صدیوں پہلے واضح کر دیا تھا۔ اسلام نے کبھی شادی کو ایک روحانی بوجھ نہیں بنایا، بلکہ اس کو انسانی فطرت اور سماجی پاکیزگی کا ذریعہ قرار دیا ۔ اگر ہمارے معاشرہ میں نکاح مشکل ہو گیا  ہے تو یہ اسلام کا نہیں، ہمارے بناوٹی رسوم، نسلی تکبر اور جھوٹی معاشرتی عزت کا نتیجہ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK