دن بہ دن خراب ہوتی صورتحال میں ضروری ہے کہ آپسی اختلافات کے وقت قرآن وحدیث کی صبر اور اولوالعزمی کی تعلیمات کو یاد رکھیں۔
EPAPER
Updated: November 28, 2025, 4:50 PM IST | Dr. Mujahid Nadvi | Mumbai
دن بہ دن خراب ہوتی صورتحال میں ضروری ہے کہ آپسی اختلافات کے وقت قرآن وحدیث کی صبر اور اولوالعزمی کی تعلیمات کو یاد رکھیں۔
انسان کو ایک سماجی جانور کہاجاتا ہے، اس لئے کہ وہ ایک انسانی سماج، ایک بستی میں رہتا ہے اور یہ فطری بات ہے کہ جب انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ گھل مل کر زندگی گزارتا ہے تو ان میں آپس میں اختلاف بھی ہوتا ہے، لڑائی بھی ہوتی ہے اور ایک دوسرے سے الجھ بھی جاتے ہیں۔ اس وجہ سے انسان کو تکلیف پہنچتی ہے۔ اب یہ سب دیکھ کر اگر انسان چاہے کہ وہ دوسرے انسانوں سے دورکسی الگ تھلگ مقام پر چلاجائے اور وہاں جا کر زندگی گزارے تو نہ تو یہ عام طور پر ممکن ہے، اور نہ ہی اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔ اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ انسان ایک دوسرے سے مل کررہیں، اور آپس میں جو تکلیف ان کو ایک دوسرے سے پہنچے اس پر صبرکریں۔
سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا:’’ وہ مومن جو لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے، اور ان کی ایذاء پر صبر کرتا ہے، تو اس کا ثواب اس مومن سے زیادہ ہے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے، اور ان کی ایذاء رسانی پر صبر نہیں کرتا ۔‘‘ یہاں پرلوگوں کے ساتھ مل جل کررہنے اور ان کی جانب سے ملنے والی تکلیف پر صبر کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔
آج کے دور میں لوگوں کی جانب سے ملنے والی ایذاء پر صبر کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس لئے کہ آئے دن ایسی خبریں نظر سے گزرتی رہتی ہیں کہ معمولی سی بات، ایسی بات جس کو آسانی سے نظر انداز کیا جاسکتا تھا، اس پر دو لوگ یا دو گروہ آپس میں الجھ پڑے اور اس میں ایک یا کئی لوگوں کی جانیں چلی گئیں، یاکوئی اس طرح زخمی ہوگیا کہ زندگی بھر کے لئے اپاہج بن گیا، مزید برسہا برس پولیس تھانوں اور عدالتوں کا چکر ایک الگ مصیبت ہوتی ہے۔ اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ جتنا ممکن ہوسکے غیر ضروری آپسی اختلافات، لڑائی جھگڑوں اور بحث مباحثے سے خود کو دور رکھیں۔
جب نبی کریمؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور اس کے بعد آپؐ نے پہلے خاموشی کے ساتھ اور پھر علی الاعلان حق کی جانب لوگوں کو دعوت دی تو مشرکین نے آپؐ کی اورایمان لانے والے صحابہ کرامؓ کی زندگی اجیرن کردی ۔نبی کریمؐ اس وقت دفاعی حالت میں تھے۔اسلام کے ماننے والے ابتدائی دور میں تھے۔ اس ماحول میں اللہ عزوجل کی جانب سے یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ ’’ تمہارے لئے تمہارا دین ہے، میرے لئے میرا دین۔‘‘ نبی کریمؐ کو اور آپؐ کے صحابہؓ کو کس قدر تکلیف دی گئی اور کس طرح ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے گئے، اس کے باوجود صورتحال کے تقاضے کے تحت کسی قسم کا ردعمل سامنے نہیں آتا ہےسخت جواب دینے کی اکا دکا مثالوں کے علاوہ، گویا کہ اہل حق نے ہر ظلم کو برداشت کرنے کی ٹھان لی تھی۔
اس طرح کی باتیں برداشت کرنے کیلئے ہمت ، حوصلے اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے کہ یہ جسمانی طاقت نہیں بلکہ جذباتی طاقت ہوتی ہے جس کے دم پر انسان اس طرح کی صورتحال میں خاموشی اختیار کرتا ہے جو سب لوگوں کو میسر نہیں آتی ۔ اسی بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:’’اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے، اور برائی کو بہتر (طریقے) سے دور کیا کرو سو نتیجتاً وہ شخص کہ تمہارے اور جس کے درمیان دشمنی تھی گویا وہ گرمجوش دوست ہو جائے گا۔اور یہ (خوبی) صرف اُنہی لوگوں کو عطا کی جاتی ہے جو صبر کرتے ہیں، اور یہ (توفیق) صرف اسی کو حاصل ہوتی ہے جو بڑے نصیب والا ہوتا ہے۔‘‘ (الفصلت:۳۴۔۳۵)
مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ جب دو انسان آپس میں اس طرح الجھ پڑتے ہیں تو دونوں کی اپنی اپنی انرجی، وقت، صلاحیت سب ضائع ہوتے ہیں۔ اگر وہ اس طرح آپس میں الجھنے کی بجائے اسی قوت و توانائی اور وقت کو مثبت کاموں میں خرچ کریں تو یقیناً دونوں کو اس کا نہ صرف یہ کہ فائدہ پہنچے گا بلکہ وہ اس طرح کے اختلافات کے نقصان سے بھی محفوظ ہوجائیں گے۔ سورۃ الفرقان میں اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے: ’’اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں۔‘‘ (الفرقان:۶۳)
اس لئے کہ یہ بات چیت ہی ہے جس کےذریعہ شیطان سب سے پہلے اختلافات اور لڑائی جھگڑے کی چنگاری ڈال دیتا ہے اور پھر جذبات کو خوب بھڑکاتا ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۵۳؍ میں اللہ عزوجل نے فرمایا: ’’اور آپ میرے بندوں سے فرما دیں کہ وہ ایسی باتیں کیا کریں جو بہتر ہوں، بیشک شیطان لوگوں کے درمیان فساد بپا کرتا ہے، یقیناً شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔‘‘
مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے معار ف القرآن میں امام قرطبیؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ’’اس آیت میں مسلمانوں کو آپس میں خطاب کرنے کے متعلق ہدایت ہے کہ باہم اختلاف کے وقت سخت کلامی نہ کیا کریں کہ اس کے ذریعہ شیطان آپس میں جنگ وفساد پیدا کردیتا ہے۔‘‘
نبی کریمؐ نے عملی طور پر اس کی تصویر بھی پیش کردی ہے۔ حیات ِ طیبہ میں بے شمار مواقع آئے جب دعوت ِ حق کے منکرین نے آپؐ کو برابھلا کہا لیکن آپؐ نے خاموشی اختیار کی۔ مشہور واقعہ ہے کہ یہود جب آپؐ سے ملنے آئے تو انہوں نے السّام علیکم کہا۔ جس کے معنی ہوتے ہیں تم پر موت طاری ہو۔ حضرت عائشہؓ جب ان کو برابھلاکہنے لگیں توآپؐ نے ان کو منع کیا اورفرمایا کہ میں نے بھی تو ان کو وعلیکم کہہ دیا۔ یعنی تم پربھی وہی طاری ہو۔ یہ بہترین مثال ہے کہ کس طرح آپؐ نے اپنی زبان سے کوئی غلط لفظ کہے بغیر یہود کو ان کی ہی زبان میں جواب دے دیا۔ اسی طرح آپؐ نے فرمایا: ’’میں اس شخص کے لئے جنت میں ایک گھر کا ضامن ہوں جو حق پر ہونے کے باوجودلڑائی جھگڑا ترک کر دے۔‘‘
درحقیقت ہمیں اپنی عملی زندگی میں اسلامی تعلیمات کو برتنےکی اشد ضرورت ہے۔ اس لئے کہ آج ہمارے محلے ہوں، ہم سفر یا حضر میں ہوں، کسی خوشی کے موقع کی تقریب ہو یا بچوں کا آپس میں کھیل کود ، اکثر لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہونے لگے ہیں۔ انسانی مزاج گویا کہ کوئی آتش فشاں بن چکا ہے جو بات بات پر پھٹ پڑتے ہیں۔ دن بہ دن خراب ہوتی اس صورتحال میں ہمارے لئے ضروری ہے کہ آپسی اختلافات کے وقت قرآن وحدیث کی صبر اور اولوالعزمی والی ان تعلیمات کو یاد رکھیں۔ اس لئے کہ بسا اوقات یہ غصہ صرف چند منٹ کا ہوتا ہے لیکن اس سے بعض اوقات صرف کسی کی جان ہی نہیں جاتی بلکہ کئی لوگوں کے گھر برباد ہوجاتے ہیں۔