• Wed, 22 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

باصلاحیت افراد کی حوصلہ افزائی قوموں کی ترقی کا باعث بنتی ہے

Updated: October 04, 2025, 3:37 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi

اسلام اپنے درمیان موجود گوہر نایاب کو پہچاننے، سراہنے اور بروئے کار لانے کی تعلیم دیتا ہے، اسوۂ نبویؐ میں اس کی مثالیں بھی موجود ہیں جن سے ہم مستفید ہو سکتے ہیں۔

The future of the nation depends on talented individuals, so they should be encouraged and given opportunities. Photo: INN
امت کے مستقبل کا انحصار باصلاحیت افراد پر ہوتا ہےاس لئے ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جانی چاہئے اور انہیں مواقع بھی دینا چاہئے۔ تصویر: آئی این این

یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ اپنے بندوں کو مختلف صلاحیتوں اور خوبیوں سے مزین کرتا ہے، تاکہ وہ دنیا میں اپنی ایک منفرد پہچان قائم کریں اور اپنی صلاحیتوں کے ذریعے دوسروں کیلئے نفع رساں بنیں۔ انسان کی یہی خصوصیات اس کی اصل دولت اور وقعت ہیں، جو اللہ کی عطا سے وابستہ ہیں اور انہی کے ذریعے وہ اپنی دنیوی و اُخروی کامیابی کا سامان کرتا ہے۔ اس سنت ِ الٰہی کی سب سے اعلیٰ اور روشن مثال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہے۔ اللہ رب العزت نے آپؐ کو بے شمار گوناگوں صفات و کمالات سے نوازا اور پھر خود قرآنِ مجید میں آپؐ کی عظمت و شان کو بیان فرما کر آپؐ کی تعریف بھی کی۔ قرآن میں آپؐ کے اخلاق کو ’’عظیم‘‘ قرار دیا گیا، آپؐ کو ’’رحمۃ للعالمین‘‘ قرار دیا گیا اور آپؐ کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت بتایا گیا۔ 
یہاں سے یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ جب خالقِ کائنات خود اپنے بندے کو خوبیوں سے نواز کر اس کی مدح و ثنا فرماتا ہے تو یہ دراصل انسانوں کے لئے ایک ابدی سبق ہے کہ وہ بھی ایک دوسرے کی صلاحیتوں اور خوبیوں کو پہچانیں اور ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ کسی کی خوبی کا اعتراف اور اس کی تعریف دراصل اللہ کی اس عطا کو ماننا ہے جو اس نے اپنے بندے کو بخشی ہے۔ نبی کریمؐ نے اسی نہج پر اپنے صحابہ کرامؓ کی تربیت فرمائی کہ جس صحابی میں جو خوبی اور خصوصیت تھی، آپؐ نے نہ صرف اس کو سراہا بلکہ اس کی بھرپور حوصلہ افزائی بھی فرمائی اور پھر اسی خوبی کے مطابق اس سے کام لیا۔ مثلاً حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ایثار و صدق کو نمایاں فرمایا اور انہیں امت کے لئے سب سے زیادہ قابلِ اعتماد قرار دیا، یہاں تک کہ غارِ ثور میں اپنی رفاقت کے لئے انہی کو منتخب فرمایا۔ 
حضرت عمرؓ کی غیر معمولی جرأت و شجاعت کو دیکھتے ہوئے دعا فرمائی کہ ’’اے اللہ! عمر کے ذریعے اسلام کو طاقت عطا فرما‘‘ (بخاری) اور بعد میں ان کی قوتِ فیصلہ اور عدل کو امت کیلئے سرمایہ بنایا۔ اسی طرح حضرت عثمانؓ کی سخاوت کو امت کے سامنے پیش کیا جب انہوں نے بئرِ رومہ اللہ کی راہ میں وقف کر دی۔ (سیرت ابن ہشام) حضرت علیؓ کے علم و فہم کو سراہتے ہوئے فرمایا: ’’میں علم کا شہر ہوں اور علیؓ اس کا دروازہ ہیں۔ ‘‘ (مستدرک حاکم) حضرت خالد بن ولیدؓ کے بارے میں اعلان فرمایا: ’’یہ اللہ کی تلوار ہے۔ ‘‘ (بخاری) اور جہاد و معرکہ آرائی کے میدان ان کے سپرد کئے۔ 
 اسی طرح حضرت ابوعبیدہؓ کو ’’امت کا امین‘‘ کہا (سیرت ابن ہشام) ، حضرت معاذ بن جبلؓ کو ’’حلال و حرام کا سب سے بڑا عالم قرار دیا‘‘ (تاریخ طبری)اور حضرت بلالؓ کی اذان کو دین کی علامت بنا دیا۔ (سیرت ابن ہشام)
یہ اور ایسی کئی مثالیں تاریخ اسلام میں درج ہیں جو اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں کہ آپ ؐکی تربیت کا ایک بڑا اصول یہ تھا کہ ہر صحابی کی خوبی کو پہچان کر اسے نہ صرف تسلیم کیا جائے بلکہ اسے امت کی خدمت اور دین کی سربلندی کے لئے بہترین طور پر بروئے کار بھی لایا جائے۔ 
افسوس ناک امر یہ ہے کہ آج کی امت اپنی اصل قوت کو پہچاننے سے قاصر ہے، حالانکہ یہی قوت اس کے اندر پائی جانے والی بے شمار باصلاحیت شخصیات کی شکل میں موجود ہے۔ تاریخ کا یہ اصول ہے کہ جب کسی قوم کے اہلِ فکر و دانش، اربابِ فن اور اصحابِ ہنر کو ان کے مقام کے مطابق قدر و منزلت نہیں دی جاتی اور ان کی صلاحیتوں کو مثبت سمت میں بروئے کار نہیں لایا جاتا تو وہ صلاحیتیں یا تو مایوسی کی زد پر آ جاتی ہیں یا پھر غیر مؤثر سرگرمیوں میں ضائع ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ انسانی معاشرہ فرد کی انفرادیت اور اس کے جوہر سے ہی ارتقاء پاتا ہے۔ جب یہ جوہر دبائے جاتے ہیں تو معاشرہ جمود اور زوال کا شکار ہو جاتا ہے۔ آج ہماری بدقسمتی یہی ہے کہ امت کے بڑے طبقے نے ان روشن دماغوں کے لئے نہ تو حوصلہ افزائی کا نظام قائم کیا ہے اور نہ ہی ان کے لئے ایسا پلیٹ فارم فراہم کیا ہے جہاں وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کو امت کی تعمیر و ترقی کے لئے صرف کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس استعداد تو ہے لیکن کارکردگی نہیں، علم تو ہے لیکن عمل نہیں، اور افراد تو ہیں مگر قیادت کا فقدان ہے۔ بالآخر یہ خلا امت کو فکری و عملی سطح پر ایک ایسے بحران میں مبتلا کر دیتا ہے جس سے نکلنے کے لئے پھر صدیوں کی محنت درکار ہوتی ہے۔ 
اس سے بھی زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ملت میں ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو باصلاحیت اور با ہنر افراد کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کے حوصلے پست کرنے اور ان کا راستہ روکنے میں مصروف رہتا ہے۔ ایسے لوگ مثبت سوچ کے بجائے حسد، تعصب اور تنگ نظری کا شکار ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص اپنے علم، قابلیت یا تخلیقی ہنر کے ذریعے آگے بڑھتا ہے اور معاشرے کے لئے کوئی کارآمد خدمت انجام دینا چاہتا ہے تو یہ طبقہ بجائے اس کے کہ اس کی ستائش کرے اور اس کا ہاتھ تھام کر اسے اور آگے بڑھنے کا موقع دے، الٹا اس کی کمزوریوں کو اچھالتا ہے، اس کی نیت پر شک کرتا ہے اور اس کی کامیابی کو کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ رویہ دراصل اس بات کی علامت ہے کہ ہم اجتماعی طور پر اپنی اصل ترقی کی راہ میں خود رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ مثلاً اگر کسی علاقے میں کوئی نوجوان اپنی علمی محنت یا سماجی خدمات کے ذریعے نمایاں ہوتا ہے تو بجائے اس کے کہ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے، بعض لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ’’یہ تو شہرت کے پیچھے ہے‘‘ یا ’’یہ اپنی بڑائی جتانا چاہتا ہے۔ ‘‘ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ نوجوان دل برداشتہ ہو کر یا تو اپنی رفتار سست کر دیتا ہے یا پھر مکمل طور پر خاموش ہو جاتا ہے، اور اس طرح امت ایک قیمتی سرمایہ کھو بیٹھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ طرزِ عمل نہ صرف افراد کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ پورے معاشرے کی اجتماعی قوت کو بھی زوال کی طرف دھکیل دیتا ہے، کیونکہ کسی قوم کی ترقی ہمیشہ باصلاحیت افراد کی عزت افزائی اور ان کے لئے سازگار ماحول فراہم کرنے سے وابستہ ہوتی ہے۔ 
  یہ سوچنا ہم سب کے لئے ناگزیر ہے کہ امت کے مستقبل کا انحصار ان ہی باصلاحیت افراد پر ہے جنہیں آج ہم یا تو نظرانداز کر رہے ہیں یا ان کی راہوں میں کانٹے بچھا رہے ہیں۔ اگر ہم نے سنت ِنبویؐ کی روشنی میں انہیں پہچانا، ان کی ہمت بندھائی اور ان کے لئے سازگار ماحول فراہم کیا تو یہی افراد ہماری قوم کے زوال کو عروج میں بدل سکتے ہیں۔ لیکن اگر ہم نے اپنی بے حسی اور تنگ نظری پر اصرار کیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی اور آنے والی نسلیں ہمیں قصوروار ٹھہرائیں گی کہ ہمارے پاس گوہر نایاب موجود تھے لیکن ہم نے انہیں ضائع کر دیا۔ 
 ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حسد اور تنگ دلی کے بجائے اخلاص اور وسعتِ قلبی کو اپنائیں، باصلاحیت افراد کی عزت و قدر کریں اور ان کے ساتھ کھڑے ہو کر ملت کی نشاۃ ثانیہ کی بنیاد رکھیں، کیونکہ یہ صرف افراد کی نہیں بلکہ پوری امت کی بقا اور ترقی کا سوال ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK