Inquilab Logo Happiest Places to Work

فتح مکہ: حق آگیا، باطل نابود ہوگیا اور باطل کو مٹنا ہی تھا!

Updated: March 21, 2025, 12:56 PM IST | Shibli Nomani | Mumbai

اعلان کردیا گیا کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے گا یا ابوسفیان کے ہاں پناہ لے گا یا دروازہ بند کرلے گا یا خانہ ٔ کعبہ میں داخل ہوجائے گا، اس کو امن دیا جائے گا۔

After the conquest of Mecca, the Prophet Muhammad entered the Kaaba and purified it of idols, which numbered 360. Photo: INN.
فتح مکہ کے بعد آپؐ کعبہ شریف میں داخل ہوئے اور اسے بتوں سے پاک کیا جن کی تعداد ۳۶۰؍ تھی۔ تصویر: آئی این این۔

جانشین ابراهیم (عليهما الصلوٰة و السلام ) کا سب سے مقدم فرض توحید ِخالص کا احیاء اور حرم کعبہ کو آلائش سے پاک کرنا تھا، لیکن قریش کے پے درپے حملوں اور عرب کی مخالفت عام نے پورے اکیس برس تک انہیں اس فرض سے روکے رکھا۔ صلح حدیبیہ کی بدولت اتنا ضرور ہوا کہ چند روز کیلئے امن و امان قائم ہو گیا اور دلدادگان حرم ایک دفعہ یادگار ابراہیمی کو غلط اندازِ نظر سے دیکھ آئے لیکن معاہدہ حدیبیہ بھی قریش سے نہ نبھ سکا۔ حلم و عفو وتحمل کی حد ہو چکی۔ اب وقت آگیا تھا کہ آفتاب حق حجاب ہائے حائل کو چاک کر کے باہر نکل آئے۔ 
صلح حدیبیہ کی بنا پر قبائل عرب میں خزاعہ آنحضرتﷺ کے حلیف ہو گئے تھے اور ان کے حریف بنو بکر نے قریش سے مخالفت کا معاہدہ کر لیا تھا۔ ان دونوں حریفوں میں مدت سے لڑائیاں چلی آتی تھیں۔ اسلام کے ظہور نے عرب کو ادھر متوجہ کیا تو وہ لڑائیاں رک گئیں اور اب تک رکی رہیں کیونکہ قریش اور عرب کا سارا زور اسلام کے مقابلہ میں صرف ہو رہا تھا۔ صلح حدیبیہ نے لوگوں کو مطمئن کیا تو بنو بکر سمجھے کہ اب انتقام کا وقت آگیا۔ دفعتاً وہ خزاعہ پر حملہ آور ہوئے اور رؤسائے قریش نے علانیہ ان کو مدد دی۔ عکرمہ بن ابی جہل، صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو وغیرہ نے راتوں کو صورتیں بدل کر بنو جبر کے ساتھ تلواریں چلائیں۔ خزاعہ نے مجبور ہو کر حرم میں پناہ لی۔ بنو بکر رک گئے کہ حرم کا احترام لازم ہے مگر ان کے رئیس اعظم نوفل نے کہا ’’یہ موقع دوبارہ ہاتھ نہیں آسکتا‘‘، غرض عین حدود حرم میں خزاعہ کا خون بہایا گیا۔ 
حضور پاک محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ دفعتاً یہ صد ابلند ہوئی: اے خدا! میں محمد ؐ کو وہ معاہدہ یاد دلاؤں گا جو ہمارے اور ان کے قدیم خاندان میں ہوا ہے۔ اے پیغمبر خداؐ ہماری اعانت کرو اور خدا کے بندوں کو بلاؤ، سب اعانت کے لئے حاضر ہوں گے۔ 
معلوم ہوا کہ خزاعہ کے چالیس ناقہ سوار جن کا پیش رو عمرو بن سالم ہے، فریاد لے کر آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعات سنے تو آپؐ کو سخت رنج ہوا تاہم آپؐ نے قریش کے پاس قاصد بھیجا اور تین شرطیں پیش کیں کہ ان میں سے کوئی منظور کی جائے: (۱) مقتولوں کا خوں بہا (قصاص) دیا جائے (۲) قریش بنوبکر کی حمایت سے الگ ہو جائیں اور (۳) اعلان کر دیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔ 
قرطہ بن عمر نے قریش کی زبان سے کہا : ’’صرف تیسری شرط منظور ہے ‘‘ لیکن قاصد کے چلے جانے کے بعد قریش کو ندامت ہوئی۔ انہوں نے ابو سفیان کو سفیر بنا کر بھیجا کہ حدیبیہ کے معاہدہ کی تجدید کرا لائیں۔ ابوسفیان نے مدینہ آکر حضورؐ کی خدمت میں درخواست کی۔ بارگاہ رسالت سے کچھ جواب نہ ملا۔ 
ابو سفیان نے حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کو بیچ میں ڈالنا چاہا لیکن سب نے کانوں پر ہاتھ رکھا، ہر طرف سے مجبور ہو کر جناب فاطمہ ز ہراؓ کے پاس آیا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ پانچ برس کے بچے تھے۔ ابو سفیان نے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا: ’’اگر یہ بچہ اتنا زبان سے کہہ دے کہ میں نے دونوں فریقوں میں بیچ بچاؤ کرا دیا تو آج سے عرب کا سردار پکارا جائیگا۔ ‘‘ جناب سیدہؓ نے فرمایا: ’’بچوں کو ان معاملات میں کیا دخل ؟‘‘ بالآخر ابو سفیان نے حضرت علیؓ کے ایما سے مسجد نبویؐ میں اعلان کر دیا کہ میں نے معاہدہ ٔحدیبیہ کی تجدید کر دی۔ ابو سفیان نے مکہ میں جاکر لوگوں سے یہ واقعہ بیان کیا تو سب نے کہا کہ یہ نہ صلح ہے کہ ہم اطمینان سے بیٹھ جائیں، نہ جنگ ہے کہ لڑائی کا سامان کیا جائے۔ 
آنحضرتؐ نے مکہ کی تیاریاں کیں، اتحادی قبائل کے پاس قاصد بھیجے کہ تیار ہو کر آئیں۔ احتیاط کی گئی کہ اہل مکہ کو خبر نہ ہونے پائے۔ 
حضرت حاطبؓ بن ابی بلتعہ ایک معزز صحابی تھے۔ انہوں نے قریش کو مخفی خط لکھ بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ آپؐ کو اس واقعہ کی اطلاع ہو گئی۔ حضرت علیؓ ( اور حضرت زبیر ؓ، حضرت مقدادؓ اور حضرت ابو مرثدؓ غنوی ) کو بھیجا کہ قاصد سے خط چھین لائیں۔ خط آنحضرتؐ کی خدمت میں پیش ہوا تو تمام لوگوں کو حاطب کے افشائے راز پر حیرت ہوئی۔ حضرت عمر بے تاب ہو گئے اور عرض کیا کہ حکم ہو تو ان کی گردن اڑا دوں ؟ لیکن جبین رحمتؐ پر شکن نہ تھی۔ ارشاد ہوا: عمر! تم کو کیا معلوم ہے کہ خدا نے اہل بدر کو مخاطب کر کے کہہ دیا ہے کہ تم سے مواخذہ نہیں ہے۔ 
حضرت حاطبؓ کے عزیز و اقارب اب تک مکہ میں تھے اور ان کا کوئی حامی نہ تھا اس لئے انہوں نے قریش پر احسان رکھنا چاہا کہ اس کے صلہ میں ان کے عزیزوں کو ضرر نہ پہنچائیں گے۔ انہوں نے آپؐ کے سامنے عذر پیش کیا اور آپؐ نے قبول فرمایا۔ 
غرض ۱۰؍ رمضان ۸؍ ہجری کو لشکر نبویؐ نہایت عظمت و شان سے مکہ معظمہ کی طرف بڑھا۔ دس ہزار آراستہ فوجیں رکاب میں تھیں ۔ قبائل عرب راہ میں آکر ملتے جاتے تھے۔ مرالظہر ان پہنچ کر لشکر نے پڑاؤ ڈالا اور فوجیں دور دور تک پھیل گئیں۔ یہ مقام مکہ معظمہ سے ایک منزل یا اس سے بھی کم فاصلہ پر ہے۔ 
 آنحضرتؐ کے حکم سے تمام فوج نے الگ الگ آگ روشن کی جس سے تمام صحر اوادیٔ ایمن بن گیا۔ فوج کی آمد کی بھنک قریش کے کانوں میں پڑ چکی تھی۔ تحقیق کیلئے انہوں نے حکیم بن حزام، ابو سفیان اور بدیل بن ورقا کو بھیجا۔ خیمہ ٔ نبویؐ کی دربانی پر جو دستہ متعین تھا اس نے ابوسفیان کو دیکھ لیا، حضرت عمرؓ جذبہ ٔ انتقام کو ضبط نہ کر سکے، تیز قدمی سے آگے بڑھے اور بارگاہِ رسالتؐ میں آکر عرض کیا کہ کفر کے استیصال کا وقت آگیا۔ لیکن حضرت عباسؓ نے جاں بخشی کی التجا کی۔ حضرت عمرؓ نے دوبارہ عرض کیا۔ حضرت عباسؓ نے کہا: عمرؓ ! اگر یہ شخص تمہارے قبیلہ کا آدمی ہوتا تو تم اس قدر سخت دلی نہ کرتے۔ حضرت عمرؓ نے کہا: آپ یہ نہ فرمائیں، آپ جس دن ایمان لائے تھے مجھ کو جو مسرت ہوئی تھی خود میرا باپ خطاب اسلام لاتا تو مجھ کو اس قدر خوشی نہ ہوتی۔ 
ابو سفیان کے تمام پچھلے کارنامے اب سب کے سامنے تھے اور ایک ایک چیز اس کے قتل کی دعوے دار تھی۔ اسلام کی عداوت، مدینہ پر بار بار حملہ، قبائل عرب کا اشتعال، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خفیہ قتل کرانے کی سازش… ان میں سے ہر چیز اس کے خون کی قیمت ہو سکتی تھی لیکن ان سب سے بالا تر ایک اور چیز عفو نبویؐ تھی۔ اس نے ابو سفیان کے کان میں آہستہ سے کہا:’’ خوف کا مقام نہیں۔ ‘‘ 
صحیح بخاری میں ہے کہ گرفتار ہونے کے ساتھ ابو سفیان نے اسلام قبول کر لیا، اس وقت گو ان کا ایمان متزلزل تھا لیکن مورخین لکھتے ہیں کہ بالآخر وہ سچے مسلمان بن گئے۔ چنانچہ غزوۂ طائف میں ان کی ایک آنکھ زخمی ہوئی اور یرموک میں وہ بھی جاتی رہی۔ 
لشکر اسلام جب مکہ کی طرف بڑھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباسؓ سے ارشاد فرمایا کہ ابو سفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جاکر کھڑا کردو کہ افواج الٰہی کا جلال آنکھوں سے دیکھیں ۔ کچھ دیر کے بعد دریائے اسلام میں تلاطم شروع ہوا۔ قبائل عرب کی موجیں جوش مارتی ہوئی بڑھیں ۔ سب سے پہلے غفار کا پرچم نظر آیا پھر جہنیہ، سلیم وغیرہ ہتھیاروں میں ڈوبے ہوئے تکبیر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے نکل گئے۔ ابو سفیان ہر دفعہ مرغوب ہو ہو جاتے تھے۔ سب کے بعد انصار کا قبیلہ اس سرو سامان سے آیا کہ آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ ابو سفیان نے متحیر ہو کر پوچھا: یہ کون سا لشکر ہے ؟
حضرت عباسؓ نے نام بتایا۔ دفعتاً سردار فوج حـضرت سعدؓ بن عبادہ ہاتھ میں علم لئے ہوئے برابر سے گزرے اور ابوسفیان کو دیکھ کر پکار اٹھے: آج گھمسان کا دن ہے، آج کعبہ حلال کردیا جائے گا۔ 
سب سے آخر میں کوکب ِ نبویؐ نمایاں ہوا جس کے پر تو سے سطح خاک پر نور کا فرش بچھتا جاتا تھا۔ حضرت زبیرؓ بن العوام علمبردار تھے۔ ابوسفیان کی نظر جمال ِ مبارک پر پڑی تو پکار اٹھے کہ ’’حضورؐ نے سنا؟ سعد بن عبادہ کیا کہتے ہوئے گئے۔ ‘‘ ارشاد ہوا کہ ’’سعد بن عبادہ نے غلط کہا۔ آج کعبہ کی عظمت کا دن ہے۔ ‘‘ یہ کہہ کر حکم دیا کہ فوج کا علم سعد بن عبادہ سے لے کر ان کے بیٹے کو دے دیا جائے۔ مکہ پہنچ کر آپؐ نے حکم دیا کہ علم نبویؐ مقام حجون پر نصب کیا جائے۔ حضرت خالد ؓ کو حکم ہوا کہ فوجوں کے ساتھ بالائی حصہ کی طرف آئیں۔ 
اعلان کردیا گیا کہ جو شخص ہتھیار ڈال دے گا یا ابوسفیان کے ہاں پناہ لے گا یا دروازہ بند کرلے گا یا خانہ ٔ کعبہ میں داخل ہوجائے گا، اس کو امن دیا جائے گا۔ تاہم قریش کے ایک گروہ نے مقابلہ کا قصد کیا اور خالدؓ کی فوج پر تیر برسائے۔ چنانچہ حضرت کرزبن جابر فہری اور حضرت جیش بن اشعر اور حضرت سلمہ بن المیلا نے شہادت پائی۔ حضرت خالدؓ نے مجبور ہوکر حملہ کیا۔ یہ لوگ ۱۳؍ لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ آنحضرتؐ نے تلواروں کاچمکنا دیکھا تو حضرت خالدؓ سے بازپرس کی، لیکن جب یہ معلوم ہوا کہ ابتدا مخالفین نے کی تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’قضائے الٰہی یہی تھی۔ ‘‘
لوگوں نے آپﷺ سے دریافت کیا کہ حضورؐ کہاں قیام فرمائیں گے ؟ آپؐ نے فرمایا مقام خیف میں ٹھہروں گا جہاں قریش نے ہمارے خلاف کفر کی تائید پر باہم عہد و پیمان کیا تھا۔ 
خدا کی شان، حرم محترم جو خلیل بت شکن کی یادگار تھا، اس کی آغوش میں ۳۶۰؍ بت جاگزیں تھے۔ آپؐ ایک ایک کو لکڑی کی نوک سے ٹھوکے دیتے جاتے تھے اور یہ پڑھتے جاتے تھے :’’حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا۔ بےشک باطل نابود ہونے والا ہے۔ ‘‘ (الاسراء: ۸۱)۔ عین کعبہ کے اندر بہت سے بت تھے جن کو قریش خدا مانتے تھے۔ آپؐ نے کعبہ میں داخل ہونےسے پہلے حکم دیا کہ سب نکلوادیئے جائیں۔ حضرت عمرؓ نے اندر جا کر جس قدر تصویریں تھیں، وہ بھی مٹادیں۔ حرم ان آلائشوں سے پاک ہوچکا تو آپؐ نے عثمان بن طلحہ سے، جو کعبہ کے کلید بردار تھے، کنجی طلب کی اور دروازہ کھلوایا۔ آپؐ، حضرت بلالؓ اور طلحہؓ کے ساتھ اندر داخل ہوئے اور نماز ادا کی۔ بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے کعبہ کے اندر تکبیریں کہیں لیکن نماز نہیں ادا کی۔ 
خطبہ ٔ فتح
شہنشاہِؐ اسلام کا یہ پہلا دربار تھا، خطبہ سلطنت یعنی بارگاہ احدیت کی تقریر خلافت ِ الٰہی کے منصب سے رسول اللہ ﷺ نے ادا کی جس کا خطاب صرف اہل مکہ سے نہیں بلکہ تمام عالم سے تھا۔ 
’’ایک خدا کے سوا اور کوئی خدا نہیں ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اس نے اپنا وعدہ سچا کیا، اس نے اپنے بندے کی مدد کی اور تمام جتھوں کو تنہا توڑ دیا۔ ہاں تمام مفاخر، تمام انتقامات، تمام خوں بہائے قدیم میرے قدموں کے نیچے ہیں، صرف حرم کعبہ کی تولیت اور حجاج کی آب رسانی اس سے مستثنیٰ ہیں۔ 
اے قوم قریش! اب جاہلیت کا غرور اور نسب کا افتخار خدا نے مٹا دیا۔ تمام لوگ آدم کی نسل سے ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں۔ ‘‘
پھر آپؐ نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی :
’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے۔ ‘‘ 
 (الحجرات:۱۳)
تمام عقائد اور اعمال کا اصل الاصول اور دعوت کا اصلی پیغام توحید ہے، اس لئے سب سے پہلے اسی سے ابتداء کی گئی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK