Inquilab Logo Happiest Places to Work

صحیح ایمان کیلئے دل اور زبان کی حفاظت کیجئے!

Updated: August 18, 2023, 12:45 PM IST | Sheikh Ahmed Taleb Hameed | Mumbai

فرمایا گیا کہ آدمی کا ایمان تب تک درست نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل درست نہ ہوجائے اور دل تب تک صحیح نہیں ہوسکتا جب تک زبان ر است پر نہ آجائے

In the gatherings of knowledge, Halal and Haram rules and issues are clarified and people get information about commands and prohibitions.Photo. INN
علم کی مجلسوںمیں حلال و حرام اور احکام ومسائل کی وضاحت ہوتی ہے،اور لوگ اوامر و نواہی کے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں۔ تصویر:آئی این این

’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عور تیں پھیلائیں ، اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو، بے شک اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔‘‘ (النساء:۱)
 ’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو تاکہ وہ تمہارے اعمال کو درست کرے اور تمہارے گناہ معاف کر دے، اور جس نے اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کی اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔‘‘ (الاحزاب:۷۰۔۷۱)
 مسلمانو! بے شک سب سے سچا کلام اللہ کی کتاب اور سب سے اچھا طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے۔ سب سے بُری چیز دین میں ایجاد کردہ چیزیں ہیں اور دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم تک لے جانے والی ہے۔
 سیدنا ابرہیم علیہ السلام کا قصہ قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے۔ وہ نہایت صاف و شفاف دل کے انسان تھے اور بت پرستی سے دور تھے او ر اُنہیں پورا یقین تھاکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے پاس جو قلب ِ سلیم کے ساتھ جائے گاوہی کامیاب و کامران ہوگا۔
 اللہ کے بندو! یقیناً روئے زمین پر بسنے والوں میں سے کچھ لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے برتن ہیں ، اور پروردگار کے برتنوں سے مراد اس کے نیک بندوں کے دل ہیں ، ان میں سے اللہ سبحانہ کو زیادہ محبوب وہ ہیں جو نہایت رقیق اور نرم ہیں ۔ نیکوکار لوگوں کے دل نیک اعمال سے جوش مارتے ہیں ، اور فاسق و فاجر لوگوں کے دل بُرے اعمال سے جوش مارتے ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کے ارادوں اور مقاصد کو دیکھ رہا ہے، تم بھی اپنے ارادوں پر نظر رکھو کیونکہ انسان کے اعمال اس کے دل کے ارادے کے ہی تابع ہوتے ہیں ۔
 اور اللہ تعالی کے ہاں مقبول برتن ( یعنی دل) وہ ہیں جو نہایت مضبوط، باریک و ملائم اور صاف و شفاف ہوں ۔ مضبوط ہونے سے مراد یہ ہے کہ اطاعت ِ الٰہی میں مضبوط ہوں ، باریک ہونے سے مراد یہ ہے کہ ذکرالٰہی کے وقت ان پر رقت طاری ہو جائے اور صاف و شفاف ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے منع کردہ اور نا پسندیدہ کاموں کی آلودگی سے بالکل پاک وصاف ہوں ۔ اور زبانیں دلوں کی عکاس ہیں ، ان کی طہارت و سلامتی کی نشانی یہ ہے کہ بغیر کسی اکتاہٹ و بیزاری کے یہ مسلسل ذکر الٰہی میں مصروف رہیں ۔ ارشادِ باری تعالی ہے:
 ’’ زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کیلئے بہت نشانیاں ہیں جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں ) پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے ۔‘‘ (آل عمران: ۱۹۰۔۱۹۱)
  اس (دل) سے ہی علم سیکھا اور سکھایا جاتا ہے اور اللہ کے دین سے متعلق سمجھ بوجھ حاصل کی جاتی ہے ، جیسا کہ نبیؐ اکرم نے ارشاد فرمایا: جب جنت کے باغیچوں کے پاس سے تمہارا گزر ہو تو چر لیا کرو، پوچھا گیا کہ جنت کے باغیچوں سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ذکر الٰہی کی مجلسیں اور حلقے۔
  اس سے مراد علم کی مجلسیں ہیں جن میں حلال و حرام اور احکام و مسائل کی وضاحت ہوتی ہے، اور وہاں موجود لوگ اللہ تعالیٰ، اس کے اسماء و صفات اور اس کے اوامر و نواہی کے متعلق معلومات حاصل کرتے ہیں ۔ کسی مال والے کو اپنے مال کے ضائع ہونے کی اس قدر تکلیف نہیں ہوتی جس قدر ایک زندہ دل کو اپنے معمولات ِ عبادت مثلاً نماز، تلاوت اور ذکر واذکار کے چھوٹ جانے کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے۔جس خوش نصیب کو بیداری و ہوشیاری نصیب ہو گئی وہ اپنے وقت کی حفاظت پر بہت حریص پایا جائے گا اور مقروض آدمی کی طرح اپنے چلتے ہوئے سانسوں پر بھی اپنے نفس کا محاسبہ کرے گا۔ وہ اپنے اقوال وافعال کو درست کرے گا اور رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر ان میں اخلاص پیدا کرنے کی پوری کوشش کرے گا۔ جو شخص اپنے قلبی لگاؤ کو اپنے رب کی طرف پھیر دیتا ہے اور دلی خواہشات اور تمناؤں کو اکٹھا کر کے اپنے مالک و مولا کے در پر رکھ دیتا ہے تو اس کا پروردگار اس کیلئے کافی ہو جاتا ہے، جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے آخرت کو ہی اپنا مطمح نظر بنالیا تو اس کے بکھرے معاملات کو اللہ تعالیٰ سمیٹ دے گا، اس کے دل کو آسودگی سے بھر دے گا، اور دنیا اس کے پاس ذلیل ورسوا ہو کر آئے گی۔‘‘
  ارشادِ باری تعالیٰ کو یاد رکھئے کہ: ’’ دین کے لحاظ سے اس سے بہتر کون ہے جس نے اپنا چہرہ اللہ کے تابع کر دیا، جب کہ وہ نیکی کرنے والا ہو اور اس نے ابراہیم ؑ کی ملت کی پیروی کی، جو ایک (اللہ کی) طرف ہو جانے والا تھا اور اللہ نے ابراہیم کو خاص دوست بنالیا۔ اور اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز کا احاطہ کرنے والا ہے۔‘‘
(النساء: ۱۲۵۔ ۱۲۶)
 مومنو! تم میں سے ہر شخص اپنے پروردگار سے ہی امیدیں لگائے اور اپنے گناہوں سے خائف رہے۔ انسان کے گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہوتے جب تک اس کے اعمال درست نہ ہوں اور اس کے اعمال اس وقت تک درست نہیں ہو سکتے جب تک اس کے اقوال درست نہ ہوں ۔ بے شک تقویٰ ہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے زبانیں سیدھی رہتی ہیں ۔
  نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کسی آدمی کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا، جب تک اس کا دل درست نہیں ہوتا اور کسی کا دل اس وقت تک صحیح نہیں ہوسکتا، جب تک اس کی زبان ر است پر نہیں آجاتی اور ایسا شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے شرور سے اُس کا ہمسایہ محفوظ نہیں ہوتا۔
 صادق و مصدوق (نبی) اکرم ﷺ نے ہمیں خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ: جب ابن آدم صبح کرتا ہے تو (جسم کے) سارے اعضاء زبان کے سامنے عاجزی کے ساتھ التجا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر۔ ہم تجھ سے جڑے ہوئے ہیں ۔ اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔
 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 ’’ جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ہم اِس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی ۔یہ ہے سامان ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے۔ اور اُس شخص کی بات سے اچھی بات اور کس کی ہو گی جس نے اللہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں مسلمان ہوں ۔‘‘ 
(الفصلت:۳۰؍تا۳۳) 
 اے اللہ! ہم تجھ سے دین و دنیا کے ہر معاملے میں ثابت قدمی اور رشد و بھلائی کے کام انجام دینے میں عزم و حوصلے کا اور تجھ سے تیری رحمت کو واجب کرنے والی چیزوں کا اور ان اسباب کا سوال کرتے ہیں جو تیری مغفرت کو (ہمارے لئے ) لازمی بنادیں اور ہم تیری نعمتوں کے شکر اور اچھے طریقے سے تیری عبادت کرنے کا بھی سوال کرتے ہیں اور ہم تجھ سے قلب سلیم اور سچی زبان کا سوال کرتے ہیں اور ہر اُس خیر کا بھی سوال کرتے ہیں جو تیرے علم میں ہے اور ہر اس شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں جو تیرے علم میں ہے۔(حرم نبویؐ میں دیا گیا ایک خطبہ)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK