Inquilab Logo

حج : مفہوم اور آداب

Updated: June 07, 2024, 4:47 PM IST | Zamirul Hasan Khan Falahi | Mumbai

حج دین اسلام کا آخری اور پانچواں رکن ہے، جو ہر اس شخص پر فرض ہے جو مکہ تک جانے آنے کی استطاعت رکھتاہے۔

Hajj is the guarantor of the unity of the Ummah. Photo: INN
حج امت کی وحدت کا ضامن ہے۔ تصویر : آئی این این

حج دین اسلام کا آخری اور پانچواں رکن ہے، جو ہر اس شخص پر فرض ہے جو مکہ تک جانے آنے کی استطاعت رکھتاہے۔ اس کیلئے عمر کی کوئی قید نہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’حج کی جزا جنت ہے۔ ‘‘ ایک دوسری حدیث میں ہے:’ ’حج سے انسان گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے گویا وہ آج ہی پیدا ہوا ہے۔ ‘‘ 
 اگر یہ حقیقت نگاہوں کے سامنے ہوتو کون ہے جو اس فریضے کی ادائی میں کوتاہی اور غفلت کی جرأت کرسکے؟
سفر حج سے پہلے
سفر حج کی تیاری میں امت افراط و تفریط کا شکار نظرآتی ہے۔ عام طور سے وہ کام کئے جاتے ہیں، جن کا روح حج سے کوئی تعلق نہیں، دعوتیں ہوتی ہیں، جشن منائے جاتے ہیں، سماج میں چرچا ہوتاہے اور نہ جانے کیا کیا ہوتا ہے۔ ان تمام چیزوں سے بچتے ہوئے جو کام کرنے کے ہیں ان کی طرف توجہ نہیں ہوتی یا بہت کم ہوتی ہے۔ 
 ہونا یہ چاہئے کہ آدمی سفر حج سے قبل توبہ کرے، اس بات کا پختہ عہدکرے کہ اب معصیت کاارتکاب نہیں ہوگا، جو کچھ ہوا اس پر ندامت کے ساتھ استغفار ہو، اس عہد کے بعد ہی بندہ، خدا کے گھر میں حاضر ہونے کے لائق اور اس کی بے کراں رحمت کا حقدار ہوسکتاہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اسوۂ ابراہیمی ؑ میں ہمارے لئے سبق ہے کہ آزمائشوں میں ثابت قدم رہیں

ایک اور کام جو اس موقع پر یاد رکھنا چاہئے وہ اخلاص نیت ہے۔ اخلاص ہر کام کے لئے شرط ہے۔ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے یہ نیت بہت ضروری ہے کہ یہ سفر صرف اللہ کے لئے ہے۔ پھر وہ اِس بات کاپختہ ارادہ کرے کہ وہ ارضِ مقدس پرکسی گناہ کا ارتکاب نہیں کرے گا، سنت رسول کی سچی توقیر کرے گا اور اپنے آپ کو اطاعت و عبادت میں مشغول رکھے گا۔ وہ کسی دُنیوی کام میں وقت ضائع نہیں کرے گا اور لڑائی جھگڑے سے دور رہے گا، جب وہ شہر رسولؐ کی زیارت کو جائے تو دل میں صرف ایک شہر اور ایک مسجد کی زیارت کا شوق نہ ہو بلکہ نیت یہ ہو کہ رسولؐ خدا سے ملاقات کیلئے جارہاہے۔ 
اسی طرح مسجد نبویﷺ اور روضہ اطہر کی زیارت صرف زیارت نہ ہو بلکہ درحقیقت آپؐ سے ملاقات کا شوق ہو۔ وہ شوق جو صحابہ کرامؓ کے اندر تھا۔ سیدنا بلالؓ کے بارے میں آتاہے کہ حالت نزع میں جب ان کی شریک حیات کی زبان سے ہائے مصیبت نکلا تو فرمایا: یہ مت کہو بلکہ خوش ہوجاؤ کہ میں اپنے حبیبؐ اور ان کے اصحاب سے ملنے جارہاہوں۔ یہ شوق ہر بندۂ مومن کے دل میں ہونا چاہئے۔ 
 ایک صحابی کے بارے میں آتاہے کہ ان کی ماں مدینے سے دورسخت بیمار تھیں، وہ ان کی عیادت کے لئے جانا چاہتے تھے لیکن جب جب اس ارادے سے نکلتے، واپس آجاتے، کئی روز کے بعد بیوی نے پوچھا کہ کیا بات ہے، آپ جاتے ہیں اور لوٹ آتے ہیں۔ فرمایا: مجھے اندیشہ ہے کہ میں مدینے سے نکلوں اور مدینے سے باہر چشم رسولؐ سے دورموت کا فرشتہ آجائے۔ 
ایک شخص مسجد نبویؐ کی زیارت کے شوق میں نکلتاہے، عمدہ لباس پہنتاہے، اسے خوشبو سے معطرکرتاہے مگر جب درمسجد پر پہنچتاہے تو دروازہ بند ہوچکا ہوتا ہے۔ کہنے والا کہتاہے کہ جاؤ جاکر سوجاؤ یا کوئی اور کام کرلو، جب مسجد کھل جائے تو آنا۔ وہ بے چین ہوکر چیخ اٹھتاہے کہ کیا میرے لئے یہ جائز و درست ہوسکتاہے کہ میں مدینہ آکر بھی اللہ کے رسولؐ سے پہلے کسی اور سے ملوں یا کوئی دوسرا کام کروں ؟ یہ کہہ کر وہ وہیں بیٹھ جاتا ہے اور مسجد کے کھلنے کا انتظار کرتاہے۔ اِس دوران اُس کی آنکھ لگ جاتی ہے، کافی دیر کے بعد جب اچانک آنکھ کھلتی ہے تو رونے لگتاہے اور سوچتاہے کہ رسولؐ خدا کو اس تاخیر کاکیا جواب دوں گا؟ کیا یہ کہوں گا کہ نیند آگئی تھی؟ یہ جذبہ اور یہ تڑپ ہرزائر کے اندر ہونی چاہئے۔ روضۂ مبارک پر پہنچ کر سچی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ وہاں کھڑے ہوکر عہد بندگی کی تجدید ہو، مصمم ارادہ کے ساتھ سنت رسولؐ کی اتباع کا سچا اور پکا عہد ہو، ساتھ ہی توبہ و استغفار ہو کہ یہ وہ مقام ہے جہاں ایمان کو تازگی ملتی ہے۔ 
احرام کیاہے؟ فقط دو ﴾کپڑے، وہ بھی بغیر سلے۔ یہ لباس یاد دلاتاہے کہ دُنیا اور عیش دنیا کچھ نہیں۔ اس لئے انسان کو ہرتکبر اور بڑائی کو بھول کر خدا کے سامنے جھک جانا چاہیے۔ یہی اسلام ہے۔ موت کو یاد کرنا چاہئے کہ یہ لباس کفن سے بہت مشابہ ہے اور زبان پر یہ کلمات جاری ہوجائیں :
’’اے اﷲ، سلطنت کے مالک! تُو جسے چاہے سلطنت عطا فرما دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تُو جسے چاہے عزت عطا فرما دے اور جسے چاہے ذلّت دے، ساری بھلائی تیرے ہی دستِ قدرت میں ہے۔ ‘‘(آل عمران:۲۶)
اللہ سے ملاقات کی سچی تڑپ ہو، دور سے جوں ہی کعبے پر نظر پڑے یہ آیت نگاہوں کے سامنے آجائے: إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ (آل عمران۹۶) (مکمل آیت کا ترجمہ: بے شک لوگوں کے واسطے جو سب سے پہلا گھر مقرر ہوا یہی ہے جو مکہ میں برکت والا ہے اور جہان کے لوگوں کے لیے راہ نما ہے)۔ 
 برکتوں کا گھر، انسانیت کا مرکز اور توحید کی علامت کو دیکھتے ہی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجائیں، مسجد حرام میں داخل ہو، اللہ کا قول :’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لئے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا‘‘ (البقرہ:۱۲۵) کو یاد کرے، محسوس ہو کہ واقعی خانہ کعبہ پر پڑنے والی ہر نظر، شوق میں اضافہ کررہی ہے۔ پھر مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز کی نیت باندھ کر اس فرمان الٰہی کا پیکر بن جائے کہ ’ واتخذو من مقام ابراھیم مصلی‘ کہ عبادت کا اصل مقام یہی ہے، پھر دعا کرے :
’’پروردگار! اس گھر کے شرف، تعظیم وتکریم اور امن و وقار میں اضافہ کر اور جو اس کی زیارت کرے یا حج وعمرہ کرے اسے بھی عزت و تکریم اور شرف وبلندی عطا کر۔ ‘‘
اسی فداکاری وجاں نثاری کے عالم میں تکبیر و تہلیل میں مست صفا ومروہ کی سعی کرے، آٹھ ذی الحجہ کو منیٰ روانہ ہوجائے، قیام شب کے بعد اگلے روز عرفہ کا رخ کرے، وہاں امام کا خطبہ سنے اور اللہ کے حضور زار و قطار روئے، گڑگڑاکر دعائیں مانگے اور گزشتہ زندگی کے گناہوں کی معافی مانگے، قیامت کے منظر اور اس کی ہولناکی کو یاد کرے کہ عرفات کا یہ منظر قیامت کی یاد دلاتاہے اور اتنی دیر کیلئے انسان کو آخرت کی یاد میں محوکردیتا ہے۔ یہ وہ دن ہوتاہے جب اللہ تعالیٰ اپنے مقرب فرشتوں سے کہتاہے: ’’دیکھو میرے بندوں کو، ہر طرف سے آکر میرے لئے جمع ہوئے ہیں، گواہ رہو مَیں نے ان کی مغفرت کردی۔ ‘‘
پھر تکبیر و تلبیہ کے ساتھ مزدلفہ میں ذکرو دعا میں مصروف ہوجائے۔ اگلے دن صبح سویرے رمی جمرات سے فارغ ہوکر کعبہ کا رخ کرے، طواف کرے، پروانہ وار خانۂ خدا کے گرد گھومے اور شمع و پروانہ کے شاعرانہ تخیل کو حقیقت کا پیرہن دے، اس کے بعد قربانی کرے، سرکے بال منڈوائے اور اپنے عجزوانکسار کا اظہار کرے۔ 
 حج امت کی وحدت کا ضامن ہے کہ اس کا ہر رکن شہادت دیتاہے کہ خدا ایک، کعبہ ایک، رسول ایک، دین ایک اور لباس ایک ہے، اس کے ماننے والوں کو بھی ایک ہونا چاہئے۔ یہ اخلاقی و تربیتی کورس بھی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK