• Fri, 19 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایسٹ فلینڈرز، بلجیم: صوبائی اسکولوں میں اسکارف پر پابندی منظور

Updated: December 18, 2025, 9:53 PM IST | Brussels

بلجیم کے صوبے ایسٹ فلینڈرز کی حکومت نے آئندہ تعلیمی سال سے صوبائی اسکولوں میں طلبہ کیلئے اسکارف (حجاب) پر پابندی کی منظوری دی ہے۔ اس فیصلے کے تحت مذہبی، نظریاتی اور سیاسی علامات پر پابندی ہوگی جبکہ مذہبی مضامین پڑھانے والے اساتذہ مستثنیٰ ہوں گے۔ اس اقدام کے خلاف مظاہرے شروع ہو چکے ہیں اور اساتذہ و انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے امتیازی قرار دیا ہے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

بلجیم کے سرکاری نشریاتی ادارے وی آر ٹی نے گزشتہ دن رپورٹ کیا ہے کہ ایسٹ فلینڈرز کی صوبائی حکومت نے صوبے کے زیرِ انتظام اسکولوں میں طلبہ کیلئے حجاب پر پابندی کی منظوری دے دی ہے۔ یہ پابندی آئندہ تعلیمی سال 2026-2027 سے نافذ العمل ہوگی اور اسے اسکولوں کے باضابطہ ضوابط کا حصہ بنایا جائے گا۔ اس فیصلے کے تحت صوبائی اسکولوں میں طلبہ اور اساتذہ دونوں کیلئے مذہبی، نظریاتی یا سیاسی علامات پہننے پر پابندی عائد کی جائے گی۔ تاہم، مذہب سے متعلقہ مضامین پڑھانے والے اساتذہ، جیسے اسلامیات کے اساتذہ، کو اس ضابطے سے استثناء حاصل ہوگا۔

یہ بھی پڑھئے: ٹول ٹیکس ادائیگی کے نظام کو آسان بنایا جا رہا ہے: گڈکری

خیال رہے کہ یہ فیصلہ اس سے قبل کی گئی ایسی ہی کوششوں کے برعکس سامنے آیا ہے جنہیں فلیمش وزیر برائے داخلہ امور ہلڈ کریوٹس نے طریقۂ کار کی خامیوں کے باعث روک دیا تھا۔ اس بار صوبائی حکومت نے قانونی اور انتظامی تقاضے مکمل کرنے کے بعد اس پابندی کو منظور کیا ہے۔ سیاسی سطح پر بھی اس فیصلے کی منظوری میں نمایاں تبدیلی دیکھی گئی۔ گزشتہ ووٹ میں قوم پرست جماعت ولامس بیلنگ کی فیصلہ کن حمایت شامل تھی، تاہم اس مرتبہ حکومتی اتحاد میں شامل جماعت ووروئٹ نے بھی پابندی کے حق میں ووٹ دیا، جس سے اس فیصلے کو اکثریتی تائید حاصل ہوئی۔

یہ بھی پڑھئے:بونڈی بیچ فائرنگ: آسٹریلیا میں نفرت انگیز تقاریر کے خلاف سخت قوانین کا اعلان

ایسٹ فلینڈرز کے صوبائی ایگزیکٹو رکن کرٹ موئنز نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اپنی تعلیم میں غیر جانبداری چاہتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ متنوع ہے، یہ ایک حقیقت ہے، اور ہمیں اس حقیقت سے ذمہ داری کے ساتھ نمٹنا ہوگا۔‘‘ ان کے مطابق اسکولوں کو ایسے مقامات ہونا چاہیے جہاں تمام طلبہ خود کو برابر محسوس کریں اور کسی مذہبی یا نظریاتی دباؤ کا سامنا نہ ہو۔ اس پابندی کے نفاذ سے گینٹ شہر کے رِچٹ پنٹ کیمپس جیسے اسکولوں پر نمایاں اثر پڑنے کی توقع ہے، جہاں اس وقت تقریباً ۷۰۰؍ طلبہ میں سے ۱۰۰؍ کے قریب طالبات حجاب یا اسکارف پہنتی ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ خاص طور پر مسلم طالبات کو متاثر کرے گا اور ان کے تعلیمی مواقع پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
فیصلے کے اعلان کے بعد گینٹ میں صوبائی حکومت کی عمارت کے باہر مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے۔ مظاہرین نے ’’میرا سر اسکارف، میری پسند‘‘ جیسے نعرے لگائے اور اس پابندی کو شخصی آزادی اور مذہبی حقوق کے منافی قرار دیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ لباس کا انتخاب ذاتی حق ہے اور ریاست کو اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ اساتذہ کی نمائندہ تنظیموں نے بھی اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے ضوابط کا غلط استعمال ممکن ہے، جس کے تحت ان اساتذہ کے خلاف تادیبی کارروائی کی جا سکتی ہے جو طلبہ کے حقوق کے حق میں آواز اٹھائیں گے۔ بعض اساتذہ کو خدشہ ہے کہ اس پابندی کے نفاذ سے تعلیمی ماحول میں خوف اور عدم اعتماد پیدا ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے:موبائل ری چارج مزید مہنگے ہونے والے ہیں ، اہم کمپنیوں کا اشارہ

اے سی او ڈی ایجوکیشن کے صوبائی سیکریٹری اسٹیفن ہیلوویٹ نے اس موقع پر فلیمش ہیومن رائٹس انسٹی ٹیوٹ کے ایک حالیہ فیصلے کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ صوبائی انتظامیہ نے ایک استاد کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جسے اسکارف پہننے سے منع کیا گیا تھا۔ ان کے مطابق یہ فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس طرح کی پابندیاں انسانی حقوق کے اصولوں سے متصادم ہو سکتی ہیں۔ یہ معاملہ اب بلجیم میں تعلیم، مذہبی آزادی اور ریاستی غیر جانبداری کے درمیان توازن پر ایک وسیع تر بحث کو جنم دے رہا ہے۔ جہاں حکومت اسے تعلیمی غیر جانبداری کا اقدام قرار دے رہی ہے، وہیں ناقدین اسے اقلیتی حقوق پر قدغن سمجھتے ہیں۔ آئندہ مہینوں میں اس فیصلے کے خلاف قانونی اور عوامی سطح پر مزید ردِعمل سامنے آنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK