یو این نے نوٹ کیا کہ اسی طرح کی ایک پابندی، جو دس سال سے کم عمر کی لڑکیوں پر لاگو تھی، کو آسٹریا کی آئینی عدالت نے ۲۰۲۰ء میں مسلم طالبات کو غیر متناسب طور پر نشانہ بنانے پر مسترد کر دیا تھا۔
EPAPER
Updated: December 16, 2025, 9:03 PM IST | Geneva
یو این نے نوٹ کیا کہ اسی طرح کی ایک پابندی، جو دس سال سے کم عمر کی لڑکیوں پر لاگو تھی، کو آسٹریا کی آئینی عدالت نے ۲۰۲۰ء میں مسلم طالبات کو غیر متناسب طور پر نشانہ بنانے پر مسترد کر دیا تھا۔
اقوام متحدہ (یو این) کے دفتر برائے انسانی حقوق نے آسٹریا کے حجاب پر پابندی کے نئے قانون پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم نے سوال کیا کہ کیا یہ اقدام بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ واضح رہے کہ آسٹریا میں تمام اسکولوں میں ۱۴؍ سال سے کم عمر طالبات کے اسکارف پہننے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ آسٹریائی حکومت نے صنفی مساوات کو فروغ دینے اور بچوں کے تحفظ کے اقدام کا حوالہ دیتے ہوئے اس قانون کا دفاع کیا۔ تاہم، یو این نے نوٹ کیا کہ اسی طرح کی ایک پابندی، جو دس سال سے کم عمر کی لڑکیوں پر لاگو تھی، کو آسٹریا کی آئینی عدالت نے ۲۰۲۰ء میں مسلم طالبات کو غیر متناسب طور پر نشانہ بنانے پر مسترد کردی تھی۔
یہ بھی پڑھئے: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت سے فلسطینیوں کے حق خودارادیت کی توثیق کی
یو این ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر کی ترجمان مارٹا ہرٹاڈو نے اناطولیہ نیوز ایجنسی کو بتایا کہ پابندی کا جواز ابھی بھی واضح نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”کسی کے مذہب یا عقائد کو ظاہر کرنے کی آزادی پر صرف وہی پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں جو قانون کے ذریعے مقرر ہو اور عوامی تحفظ، نظم و ضبط، صحت یا اخلاقیات یا دوسروں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کیلئے ضروری ہو۔“
ہرٹاڈو نے مزید کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ طالبات کے حجاب پہننے سے سلامتی، صحت یا دوسروں کے حقوق کو کیسے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ اگر پابندیاں کسی جائز مقصد کو بھی حاصل کرنا چاہتی ہو، تو انہیں بین الاقوامی قانون کے تحت سخت تناسب کے معیارات پر پورا اترنا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ”یہاں تک کہ اگر پابندیوں کا جواز کسی جائز مقصد سے پیش کیا جائے، تو بھی یہ اقدام مقصد کے متناسب ہونا چاہئے۔ انسانی حقوق کمیٹی نے مکمل پابندیوں کو غیر معقول قرار دیا ہے۔“
یہ بھی پڑھئے: غلط شناخت کے سبب سڈنی میں پاکستانی نژاد شہری کو جان سے مارنے کی دھمکیاں
خودمختاری کے دلائل پر تشویش
یو این دفتر برائے انسانی حقوق نے ان دلائل کے خلاف بھی خبردار کیا جو اس پابندی کو لڑکیوں کی خودمختاری کے تحفظ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ہرٹاڈو نے کہا کہ ایسی دلیلوں سے خواتین اور لڑکیوں کی مرضی کو کمزور کرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ ”حجاب پہننے کے فیصلوں کے بارے میں خواتین یا لڑکیوں کی آوازوں کو نظر انداز کرنے والے دلائل کو کچھ لوگ خواتین کی مرضی اور رضامندی کی صلاحیت کو نظر انداز کرنا سمجھتے ہیں۔“ دفتر کا کہنا ہے کہ وہ قانون کے نفاذ اور متاثرہ بچوں کے حقوق پر اس کے اثرات کی نگرانی جاری رکھے گا۔
یہ بھی پڑھئے: آسٹریلیا: شوٹنگ کے بعد سوشل میڈیا پر فیک نیوز، جشن کو مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا
واضح رہے کہ آسٹریا کے نئے قانون کے تحت، پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے طالبات کو پہلے اسکول حکام اور ان کے والدین یا سرپرستوں کی شرکت کے ساتھ ملاقاتوں میں شرکت کرنا ہوگی۔ بار بار عدم تعمیل کی صورت میں چائلڈ اینڈ یوتھ ویلفیئر سروسیز کو مطلع کیا جا سکتا ہے اور بالآخر والدین یا سرپرستوں پر ۸۰۰ یورو (تقریباً ۸۵ ہزار ۶۰۰ روپے) تک کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔