یو این کی خصوصی نمائندہ برائے تشدد نے منگل کو پاک حکومت سے عمران خان کی ”غیر انسانی اور غیر باوقار“ حراستی شرائط کے حوالے سے خدشات کو دور کرنے کیلئے فوری اور مؤثر کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔
EPAPER
Updated: December 17, 2025, 5:01 PM IST | Islamabad
یو این کی خصوصی نمائندہ برائے تشدد نے منگل کو پاک حکومت سے عمران خان کی ”غیر انسانی اور غیر باوقار“ حراستی شرائط کے حوالے سے خدشات کو دور کرنے کیلئے فوری اور مؤثر کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہ ملنے کے بعد منگل کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر مظاہرین نے دوبارہ احتجاج شروع کر دیا۔ انتظامیہ کے ملاقات کی اجازت نہ دینے کے بعد حکام پر خان کو غیر قانونی تنہائی میں رکھے جانے اور حقوق کی خلاف ورزیوں کے نئے الزامات عائد کئے جارہے ہیں۔
عمران خان کی طبیعت کے متعلق کوئی تازہ خبر نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال اب بھی کشیدہ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے حامی اس مسئلے کو پاکستان میں آئینی حقوق اور عدالتی اختیار کے امتحان کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ پیر کو خان کی بہن علیمہ خان کے ساتھ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے جیل کی طرف پیدل مارچ کیا اور حکام کی طرف سے خاندانی ملاقاتوں کی اجازت نہ ملنے تک پرامن احتجاج جاری رکھنے کا عزم کیا۔ انہوں نے ملک کے طاقتور افراد کے گروہ (اسٹیبلشمنٹ) پر الزام لگایا کہ عدالت کے حکم کے باوجود خان کو ”خطرناک اور غیر قانونی“ تنہائی میں رکھا گیا ہے۔
علیمہ خان نے جیل کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سوال کیا، ”کیا تنہائی کی قید بھی قانونی ہے؟ کیا عمران خان دہشت گرد ہیں؟“ انہوں نے براہ راست پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ”اس ملک میں اب کوئی قانون نہیں، اب یہاں صرف عاصم منیر کا قانون چلتا ہے۔“ انہوں نے خبردار کیا کہ طویل تنہائی سے خان کی ذہنی صحت کیلئے سنگین خطرات پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے: برلن، جرمنی: فلسطینیوں سے یکجہتی کیلئے ’’ٹارچ لائٹ مارچ‘‘
خان کی بہن اور بیٹوں کا بیان
اس ماہ کے شروع میں، خان کی دوسری بہن عظمیٰ خان کو ان سے ملاقات کی اجازت دی گئی تھی۔ انہوں نے بعد میں بتایا کہ خان کی جسمانی صحت مستحکم ہے لیکن انہیں مکمل تنہائی کے ذریعے ”ذہنی تشدد“ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ انہیں اپنا سیل چھوڑنے یا کسی سے بات چیت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں جب عمران خان کے بیٹوں قاسم خان اور سلیمان خان نے اسکائی نیوز کو انٹرویو دیا تو یہ معاملہ بین الاقوامی توجہ کا مرکز بن گیا۔ خان کے بیٹوں نے الزام لگایا کہ ان کے والد کو ”ڈیتھ سیل“ میں انسانی رابطے کے بغیر رکھا جا رہا ہے اور ذہنی طور پر ٹارچر کیا جارہا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ انہیں خوف ہے کہ شاید وہ ”انہیں دوبارہ کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔“ جیل کے حالات کو ”ناگوار“ قرار دیتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ خان کو صاف پانی تک رسائی نہیں دی جارہی ہے اور انہیں سنگین طور پر بیمار قیدیوں کے قریب رکھا گیا ہے۔ خان کے بیٹوں نے عالمی لیڈران سے مداخلت کی اپیل کی اور کہا کہ ”ان کے باہر نکلنے کا راستہ دیکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔“
یہ بھی پڑھئے: اسرائیل کی غزہ میں امن منصوبے کی خلاف ورزیوں کی جانچ کی جا رہی ہے
اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے نے پاکستان کو خبردار کیا
اقوام متحدہ (یو این) کی خصوصی نمائندہ برائے تشدد، ایلس جِل ایڈورڈز نے منگل کو پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ پی ٹی آئی سربراہ کی ”غیر انسانی اور غیر باوقار“ حراستی شرائط کے حوالے سے خدشات کو دور کرنے کیلئے فوری اور مؤثر کارروائی کرے۔ انہوں نے کہا کہ ”میں پاکستانی حکام سے مطالبہ کرتی ہوں کہ وہ یقینی بنائیں کہ خان کی حراستی شرائط بین الاقوامی اصولوں اور معیارات کی مکمل تعمیل کرتی ہیں۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ”رپورٹس کے مطابق، ۲۶ ستمبر ۲۰۲۳ء کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کئے جانے کے بعد سے، عمران خان کو ضرورت سے زیادہ مدت کیلئے تنہائی کی قید میں رکھا گیا ہے، جہاں انہیں دن میں ۲۳ گھنٹے اپنے سیل تک محدود رکھا جاتا ہے اور بیرونی دنیا تک ان کی رسائی بہت محدود کردی گئی ہے۔ ان کے سیل کو مبینہ طور پر کیمرے کی مستقل نگرانی میں رکھا گیا ہے۔“ ایڈورڈز نے خبردار کیا کہ یہ معاملہ، تشدد اور دیگر غیر انسانی یا تذلیل آمیز سلوک سے جڑا ہو سکتا ہے۔
پاکستانی حکومت کا مؤقف
پاکستانی حکومت نے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے۔ اسکائی نیوز نے وزیر اعظم شہباز شریف کے ترجمان مشرف زیدی کے حوالے سے بتایا کہ انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ خان کو قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ زیدی نے دعویٰ کیا کہ خان کو اگست ۲۰۲۳ء سے اب تک جیل میں تقریباً ۸۶۰ دن مکمل ہوچکے ہیں اور انہیں اب تک تقریباً ۸۷۰ ملاقاتوں کا موقع دیا گیا ہے، جو فی ہفتہ ایک ملاقات کے معیاری الاؤنس سے کہیں زیادہ ہے۔