Inquilab Logo

قرآن مجید: وہ شمع کیا بجھے جسےروشن خدا کرے

Updated: March 19, 2021, 12:19 PM IST | Yasir Assad

سورہ فاتحہ سے سورہ ناس تک جو کچھ ہے وہ رب العالمین کا کلام ہے اور اسکی حفاظت کا بے نظیر نظام بھی اسی کا قائم کردہ ہے

Quran Reading - Pic : INN
قرآن شریف ۔ تصویر : آئی این این

انسانوں کی ہدایت ورہنمائی کے لئے اللہ نے جو وسائل اختیار فرمائے ان میں سے ایک صحیفوں کا نزول تھا، جو انبیائے کرام کے توسط سے انسانوں تک پہنچے۔ سابقہ کتابوں کی آخری کڑی قرآن مجید ہے جو پچھلی کتابوں پر کئی لحاظ سے برتری کا حامل ہے۔ ان صحیفوں کا زمانہ محدود تھا، ان سے استفادہ کرنے والے محدود تھے، جب ان کی ضرورت ختم ہوگئی تو ان  میں لوگوں نے اپنے موافق تبدیلیاں کیں، نتیجہ یہ ہوا کہ حق وباطل کا امتیاز مٹ گیا، اور سب کچھ تاریخ کی گرد میں گم ہوگیا۔
 جو کتاب سب سے آخر میں نازل کی گئی اس کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اللہ پاک نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے، جیسا کہ سورہ حجر کی آیت  نمبر۹؍ میں فرمایا ہے:’’بے شک ہم نے ہی  اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘ قرآن کی یہ بے مثال حفاظت اسلام کو ایک سچا دین باور کراتی ہے اور سب کو غور وفکر کی دعوت دیتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی عظمت یہ ہے کہ اس نے سابقہ کتابوں کی تردید نہیں کی بلکہ سب کی تصدیق کی کہ واقعی یہ کتابیں اللہ کی طرف سے تھیں اور برحق تھیں گوکہ اب وہ حقیقی شکل میں موجود نہیں۔ 
 آیات ِ قرآنی بھی وقتاً فوقتاً انگشت نمائی کی گئی، مگر کمال کی بات یہ ہے کہ آج تک کسی نے بھی، خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم، اس کے اللہ کا کلام ہونے سے انکار نہیں کیا، گویا ساری انسانیت اس بات پر متفق ہے کہ یہ ساڑھے چودہ سو برس قبل  عرب میں مکہ شہر  کی ایک ممتاز شخصیت  محمد (ﷺ)   کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔  محمد ﷺ نے اسے کہاں سے لیا، یا آپﷺ کے پاس کہاں سے آیا، اس بارے میں لوگ مختلف ہوئے ہیں۔ اس کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں، یا تو یہ مانا جائے کہ یہ محمد ﷺ نے اپنی طرف سے بنا کر پیش کیا ہے یا پھر کسی استاذ اور معلم کے پاس سے سیکھ کر حاصل کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان پہلی بات کی سختی سے تردید کرے گا، اور یہ تردید جذباتی بنیاد پر نہیں بلکہ صریح عقل کا فیصلہ ہے، کیسے ہے آئیے غور فرمائیں:
 اگر یہ کتاب محمد ﷺ کی ذاتی کتاب ہوتی تو گویا آپ کا دعویٔ  نبوت اللہ کی طرف سے نہیں بلکہ خود کو بلند کرنے اور منوانے کا دعویٰ تھا، ایسے حالات میں آپؐ جو کتاب پیش کرتے اس میں سابقہ کتابوں کی تعریف یا تصدیق بالکل موجود نہ ہوتی، بلکہ سب کا انکار ہوتا۔
 اس کتاب کے اندر بہت سارے واقعات پچھلی قوموں کے ہیں، اگر یہ کتاب عقلی بنیاد پر آپ ﷺ نے تیار کی ہوتی تو عقل کے سہارے پچھلی قوموں کے واقعات کا تذکرہ ممکن نہ تھا، خصوصاً جب اسے پیش کرنے والا شخص اُمّی لقب ہو۔ 
 اگر اس کتاب کے مصنف خود محمد ﷺ ہوتے، تو اس میں ایسی آیتیں نہ ہوتیں جن میں خود آپ ﷺ کو کئی معاملات میں انتباہ دیا گیا ہے،  مثلاً سورہ تحریم کے اندر فرمان ہے:’’ اے نبیؐ جس چیز کو اللہ نے آپ کے لئے حلال کردیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟‘‘ سورہ عبس کا واقعہ مشہور ہے کہ قریش کے با اثر لوگوں کی محفل میں نبی ﷺ کے پاس ابن ام مکتوم آئے تو آپ کے چہرے پر شکنیں آگئیں، اللہ تعالیٰ نے فوراً تنبیہ فرمائی : ’’ان کے چہرۂ (اقدس) پر ناگواری آئی اور رخِ (انور) موڑ لیا، اس وجہ سے کہ ان کے پاس ایک نابینا آیا (جس نے آپ کی بات کے دوران  ٹوکا)، اور آپ کو کیا خبر شاید وہ (آپ کی توجہ سے مزید) پاک ہو جاتا۔‘‘ 
 سورہ انفال میں  مشرک کے لئے استغفار  پر آپؐ کی تنبیہ ہوئی کہ (نبی اور مومنوں کے لئے جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کریں) غرض اس جیسی متعدد آیتیں ہیں جن میں نبی اکرم ﷺ  کے ذریعے پیش آنے والے چند فیصلوں پر من جانب الٰہی تنبیہ فرمائی گئی ہے۔ کیا یہ معقول بات ہے کہ کوئی مصنف، نبوت کا مدعی خود کے ذریعے اپنی باتوں پر خدا کی تنبیہ کا ذکر کرے گا؟
 پھر آئیے یاد کرتے ہیں اس وقت کو جب ایک غزوہ سے واپسی پر نبی اکرم ﷺ کی سب سے محبوب بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگائی گئی تھی،  سارے مسلمان پریشان تھے، مگر رسول اکرم ﷺ کی پریشانی ان سب سے سوا تھی، اضطراب کی یہ کیفیت کوئی ایک دو دن نہیں، ایک دو ہفتے نہیں بلکہ پورے ایک ماہ رہی تب کہیں جاکر حضرت عائشہؓ کی برأت پر آیتیں نازل ہوئیں،  اگر یہ قرآن اور اس کی آیتیں نبی اکرمﷺ خود بناتے تو پھر اس طویل تاخیر اور اضطراب کی کوئی وجہ نہیں رہتی، آپؐ اگلے ہی دن اپنافیصلہ سنا سکتے تھے۔ 
 نبوت کا جھوٹا مدعی اپنے فضائل بیان کرنے کے لئے عبارتوں اور جملوں کا پہاڑ کھڑا کردیتا ہے، اس کے برعکس قرآن مجید کی آیتوں میں جگہ جگہ نبی اکرم ﷺ بزبان خداوندی اپنی عاجزی کا اظہار فرمارہے ہیں، مثلاً سورہ اعراف میں ہے ’’آپ کہہ دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا، اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہا ہو، اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کرلیتا اور کوئی نقصان مجھ کر نہ پہنچتا۔‘‘ سورہ کہف کی آخری آیت ہے ’’آپ کہہ دیجئے کہ میں تو تم جیسا ہی انسان ہوں، ہاں میری جانب وحی کی جاتی ہے۔‘‘ غرض اس موضوع پر بھی آپ کو بہت ساری آیتیں مل جائیں گی جن میں کبر وغرور، فخر ومباہات اور اپنے آپ کو عظیم ثابت کرنے کے بجائے خود نبی اکرم ﷺ نے علم غیب، نفع نقصان کی ملکیت وغیرہ سے اپنے آپ کو مبرا کرکے فقط اللہ کی طرف  رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ 
 بات صرف ماضی کے واقعات کی نہیں، مستقبل کی پیشین گوئیاں بھی قرآن اور نبی کی صداقت کو واضح کرتی ہیں، خصوصاً ابتدائے اسلام میں جب مسلمان  انتہائی کسمپرسی کی حالت میں تھے، انہیں مستقبل میں عظیم الشان غلبے کی بشارت دی گئی، وہ جن احوال سے گزر رہے تھے ان کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ ایک دن وہ اسی سرزمین کے حاکم ہوں گے۔ بالآخر غلبے کی یہ ساری پیشین گوئیاں ایک ایک کرکے پوری ہوئیں، یہی نہیں، بلکہ اس کے بعد جب جب مسلمان مظلوم ومقہور ہوئے یہ قرآنی آیتیں ان کا حوصلہ بنیں، اور بالآخر وہ سر بلند ہوئے۔ خوب مثال دی اللہ تعالیٰ نے کہ ’’اب جھاگ تو ناکارہ ہوکر چلا جاتا ہے لیکن جو لوگوں کو نفع دینے والی چیز ہے وہ زمین میں ٹھہری رہتی ہے۔‘‘
 یہی قرآن ہمیں جنت وجہنم کے حالات بھی تفصیل سے بیان کرتا ہے، ایسی تفاصیل جن کا جان پانا کسی انسان کے لئے ممکن نہیں، یہی کتاب اہل کتاب کی غلطیوں اور تنازعات کا بھی فیصلہ کرتی ہے، یہود ونصاریٰ دونوں حضرت ابراہیم کو اپنے اپنے مذہب کا بتاتے تھے، قرآن نے اتنا بہترین فیصلہ دیا کہ تورات وانجیل کا وجود ہی حضرت ابراہیمؑ کے کافی عرصے بعد ہوا، لہٰذا فریقین کی بات غلط ہے۔ 
  حفاظت قرآن مجید کے ضمن میں یہ بات خاص طور سے لکھے جانے کے قابل ہے کہ تورات میں حضرت موسیٰؑ کے بعد تقریباً چھ صدیوں کا وقفہ ہے، ان میں کس نے اس کتاب کو نقل کیا، دوسروں تک پہنچایا بالکل نامعلوم ہے۔ عیسائی مذہب کی کتاب انجیل کے اس وقت چار نسخے سب سے زیادہ پھیلے ہوئے ہیں، اور ان میں ۴۰۔۵۰؍ مزید نسخے ہیں۔ ان میں سے انسان کس کو سچ مانے، اس کے پاس کوئی معیار نہیں ہے۔ اب آپ نبی آخر الزماں  ﷺ پر نازل ہونے والے قرآن  مقدس کو دیکھئے، اس کتاب کا ایک حافظ آپ دنیا کے ایک کونے سے منتخب کیجئے، دوسرے کونے سے دوسرے کو منتخب کیجئے، دونوں سے پورا قرآن کریم سنئے، آپ ایک لفظ کیا، ایک حرکت: ایک زیر وزبر اورپیش کا فرق نہیں پاسکیں گے۔ کروڑوں کی تعداد میں مسلمان ہیں، قرآن کریم کے نسخوں کی چھپائی لا تعداد ہوتی ہے، مگر آپ کہیں بھی ایک معمولی فرق نہیں تلاش کرپائینگے، یہ ہوتا ہے حفاظت الٰہی کا انداز اورمعیار۔ 
 اس کتاب کی ۱۲؍ہزار سے زیادہ تفسیریں لکھی گئی ہیں، قرآن کی اشاعت کے سب سے بڑے ادارے مجمع الملک فہد مدینہ منورہ نے اس بارے میں ریسرچ کی تو پتہ چلا کہ فقط عربی زبان میں ۷؍ہزار سے زائد تفسیریں لکھی گئی ہیں، دیگر زبانوں کا حال اس کے علاوہ ہے۔ 
 ان معلومات اور دلائل کو بار بار پڑھئے، پھر اس آیت کو پڑھئے جس میں قرآن کی حفاظت کا الٰہی وعدہ ہے، آپ جان لیں گے کہ سورہ فاتحہ سے سورہ ناس تک جو کچھ ہے وہ اللہ رب العالمین کا کلام ہے، اور اس کی حفاظت کا بے نظیر نظام بھی اسی کا قائم کردہ ہے، جس کی مثال کسی دوسری کتاب  کے تعلق سے  نہیں ملتی۔ پس اگر یہ کتاب اتنی اہمیتوں کی حامل ہے، تو کیا اس کے کسی جزء سے منہ موڑا جاسکتا ہے، کسی آیت کا انکار کیا جاسکتا ہے،کسی آیت کریمہ کو قرآن سے نکالنے کی بات کہی جاسکتی ہے؟ اور ایسا دعویٰ کرنے والا کیا مسلمان ہوسکتا ہے؟ یہاں بات کسی فرقے یا مسلک کے مفاد کی نہیں، پوری امت کے مفاد کی ہے، تو آئیے بلاتفریق مسلک ہم ایسے تمام لوگوں کا بائیکاٹ کریں اور انہیں اپنا ہم مذہب ماننے سے سراسر انکار کردیں جو اس مقدس کتاب پر اپنی غلیظ انگلی اٹھانے کی جرأت کرتے ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK