Inquilab Logo Happiest Places to Work

گھر، اسکول اور معاشرہ: بچوں کی صحیح تربیت کا منبع ہیں

Updated: April 11, 2025, 12:19 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

سرپرست کی حیثیت سے ہمیں چاہئے کہ گھر میں ہم صرف ظاہری آسائشوں پر توجہ نہ دیں بلکہ بچوں کے دل و دماغ کو روحانی غذا بھی فراہم کریں۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

اسلامی فلسفے کے مطابق، تعلیم اور تربیت ایک گاڑی کے دوپہیے ہیں، ان میں سے ایک بھی اگرکمزور ہو تو مطلوبہ اور عقلی طور پر پسندیدہ منزل تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی لئے اچھی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت کی بنیاد پر ہی صالح فرد، مہذب معاشرہ اور پرامن دنیا کی تشکیل ممکن ہے۔ 
ہمیں یہ ضرور سمجھنا چاہئے کہ انسان صرف ایک علمی مخلوق نہیں، بلکہ اس کی ساخت دہری ہے: عقل اور قلب، علم اور عمل، ظاہری اور باطنی۔ تعلیم عقل کو جلا بخشتی ہے، لیکن تربیت دل کو سنوارتی ہے۔ اگر انسان کو صرف علم دیا جائے مگر اس کے دل کو اخلاقی و روحانی اقدار سے محروم رکھا جائے، تو وہ ایک چالاک درندہ بن سکتا ہے، ایسا درندہ جو جدید علم کے ہتھیار سے لیس ہو مگر رحم، انصاف اور تقویٰ سے عاری ہو۔ جیسے ایک تیز دھار تلوار اگر کسی ظالم کے ہاتھ میں ہو تو وہ بربادی لاتی ہے، اسی طرح علم اگر بغیر تربیت کے ہو تو وہ انسانیت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے بڑے فتنوں، جنگوں اور فسادات کے پیچھے اکثر ایسے اذہان تھے جو بسا اوقات علمی لحاظ سے تو بلند تھے، مگر اخلاقی لحاظ سے پست۔ 
تربیت کے بغیر تعلیم کے مذکورہ نقصاندہ اور انسانیت سوز پہلوؤں کی وجہ سے ہی اسلام میں تعلیم کا مقصد صرف معلومات کا انبار جمع کرنا نہیں، بلکہ انسان کو انسان بنانا ہے۔ چنانچہ جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’معلم‘‘ بنا کر بھیجا گیا، جس کے بارے میں خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا‘‘ (ابن ماجہ)، وہیں آپ ؐ کو ’’مربی‘‘بھی بنا کر بھیجایا گیا جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ نے یقیناً مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان میں ان ہی میں سے رسول بھیجا جو ان کو آیات الٰہی پڑھ کر سنائیں، ان کو پاک صاف کریں (تربیت کریں ) اورانہیں کتاب اور عقل کی باتیں سکھائیں حالانکہ یہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔ ‘‘ (آل عمران:۱۶۴)۔ اس آیت میں تعلیم سے پہلے تربیت کا ذکر بذاتِ خود ہمارے لئے ایک گہرا پیغام رکھتا ہے۔ 
یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے بچے تربیت کہاں سے حاصل کریں ؛ کیونکہ تربیت کتابوں سے حاصل ہونے والی معلومات کا نام نہیں، بلکہ عمل، مشاہدہ، صحبت اور ماحول سے حاصل ہونے والے تجربات کا مجموعہ ہے۔ اس سوال کا مرحلہ وار جواب یہ ہے کہ سب سے پہلی تربیت گھر سے ملتی ہے، جہاں والدین کا طرزِ عمل، ان کی باتیں اور ان کا رویہ بچے کی ابتدائی شخصیت کی بنیاد بنتا ہے۔ اس کے بعد مدرسہ یا اسکول کی تربیت آتی ہے، جہاں اساتذہ علم کے ساتھ ساتھ ادب، اخلاق اور سلیقے کی تعلیم دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشرہ بھی ایک اہم تربیتی ذریعہ ہے۔ اچھے دوست، نیک صحبت، دینی اجتماعات اور بزرگوں کی صحبت اور نصیحت سے بھی انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ میڈیا، کتابیں، اور سوشل نیٹ ورکس بھی آج کے دور میں تربیت کے اہم اور مؤثر ذرائع بن چکے ہیں، مگر ان کے اثرات مثبت اور منفی دونوں ہو سکتے ہیں، اس لئے ان کا محتاط استعمال ضروری ہے۔ مختصراً، تربیت ہر اُس جگہ سے حاصل کی جا سکتی ہے جہاں علم، اخلاق اور کردار سازی کی بات ہو رہی ہو۔ 
مذکورہ تفصیلات کے مطابق بچوں کی صحیح تربیت کا انحصار بنیادی طور پر تین اداروں گھر، اسکول اور معاشرہ پر ہوتا ہے، لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ آج اکثر جگہوں میں یہ تینوں مقامات اپنی اصل معنویت کھو چکے ہیں۔ ان میں اسلامی اقدار اور روحانی افکار کی جگہ مادّی سوچ، مغربی تہذیب، اور سطحی معیاروں نے لے لی ہے۔ تربیت کے نام پر جو کچھ بھی سکھایا جا رہا ہے، وہ محض معلومات یا وقتی مہارتیں ہیں، جن کا بچوں کے باطن، کردار اور روح پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑتا۔ نتیجتاً، شخصیت کا توازن بگڑ رہا ہے اور نئی نسل ایک ایسی فکری الجھن کا شکار ہو رہی ہے جہاں نیکی اور بدی کے درمیان فرق مٹتا جا رہا ہے۔ جب گھر محبت و حکمت کی جگہ نہ رہے، اسکول علم و حکمت کے بجائے محض مادی ترقی کے زینے بن جائیں اور معاشرہ اخلاقی اقدار کے بجائے شہرت، دولت اور خود غرضی کو معیار بنائے تو تربیت کا تصور ہی مسخ ہو جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بچوں کو جو کچھ سکھایا جا رہا ہے، وہ دراصل تربیت نہیں بلکہ ایک فریب ہے، جسے ترقی کا نام دیا جا رہا ہے۔ حقیقی تربیت تو وہ ہے جو انسان کو اس کے رب سے جوڑتی ہے، اس کے اندر مقصدِ زندگی، احساسِ ذمہ داری اور اخلاقی بصیرت پیدا کرتی ہےاور جب یہ عناصر مفقود ہو جائیں، تو تربیت کا عمل ایک بے جان رسمی عمل بن کر رہ جاتا ہے۔ 
اسی لئے سرپرست کی حیثیت سے ہمیں چاہئے کہ گھر میں ہم صرف ظاہری آسائشوں پر توجہ نہ دیں، بلکہ بچوں کے دل و دماغ کو روحانی غذا بھی فراہم کریں، تاکہ ان کی شخصیت اندر سے مضبوط اور متوازن ہو۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں ان کے لئے تعلیم گاہوں کے انتخاب میں بھی انتہائی بصیرت سے کام لینا ہوگا۔ مزید یہ کہ بچوں کو نیک، باکردار اور صاحبِ بصیرت لوگوں کی صحبت میں رکھنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ اگر بچوں کی اس طرح تربیت ہوگی تو ان کی سوچ، عادتیں اور کردار خود بخود سنورتے جائیں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK