Inquilab Logo

آزمائشوں میں حضرت ایوبؑ جیسا طرزِ عمل اپنائیے

Updated: February 09, 2024, 2:27 PM IST | Nazia Abdul Sattar | Mumbai

حضرت ایوب ؑ کو شفایاب ہونے کے بعد یہ غم رہا کہ اب رب العالمین کی طرف سے ان کا حال جاننے کے لئے ندا نہیں آتی!

Examination has always been an undesirable trait in human nature. Photo: INN
انسان کی طبیعت میں امتحان ہمیشہ سے ہی ایک ناپسندیدہ شےرہا ہے۔ تصویر : آئی این این

’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔ ‘‘
(البقرة:۱۵۵)
اہل اللہ پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور ہمیں اس کی طرف ہی پلٹ کر جانا ہے۔ انہی افراد کے لئے اللہ کی طرف سے صلوۃ اور رحمت ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔ مالی اور جانی نقصان ہوتا ہے تو فرمایا فوراً انا للہ .....کہا کرو کیونکہ اس نقصان کے بدلے رحمت اور صلوات کا وعدہ فرمایا ہے تاکہ انسان ہر مادی نقصان اور خسارہ کیلئے آمادہ رہے اور یہ محسوس کرے کہ یہ مادی نقصان اور خسارہ نہیں بلکہ رحمت اور صلوات کا ذریعہ ہے۔ جب انسان میں یہ شعور بیدار ہو جائے تو اس میں قوت تحمل پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ عظیم قوت ہے جو اخلاق حسنہ کو جنم دیتی ہے جس سے ہر انسان آنے والی پریشانی اور مصیبت کو فراخ دلی سے قبول کرتا ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات کا بنیادی مقصد انسان میں قوت تحمل و برداشت پیدا کرنا ہے۔ 
انسان کی طبیعت میں امتحان ہمیشہ سے ہی ایک ناپسندیدہ شے رہا ہے۔ انسان کی اس ناگواری کا سبب یہ ہے کہ اس کو دوران امتحان، چستی، باہمی ہوشیاری، محنت اور ذمہ داری سے متصف ہونا پڑتا ہے جبکہ انسان اپنی زندگی لاپروائی اور غیر ذمہ دارانہ طور پر گزارنا چاہتا ہے لیکن اگر وہ جان لے کہ امتحان کے بعد اس کو کیا کچھ حاصل ہونے والا ہے تو پھر وہ امتحان سے نفرت نہیں بلکہ محبت کرنے لگے۔ دیکھا جائے تو امتحان بہت بڑی نعمت ہے۔ جس کو امتحان سے گزارا نہیں جاتا درحقیقت قدرت اس کو کوئی نعمت عطا کرنے کے لئے راضی نہیں ہوتی۔ 
حضور اقدس محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سب سے زیادہ سخت امتحان نبیوں کا ہوتا ہے، پھر صالح لوگوں کا، پھر اس کے بعد کے درجے والوں کا۔ روایت میں ہے ہر شخص کا ایمان اس کے دین کے اندازے سے ہوتا ہے اگر کوئی دین میں مضبوط ہو تو امتحان بھی سخت تر ہوتا ہے۔ 
یزید بن سیرہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ایوبؑ کی آزمائش شروع ہوئی تو گھر والے سب داغ مفارقت دے گئے، مال فنا ہوگیا، کوئی چیز نہ رہی۔ آپ اللہ کے ذکر میں اور بڑھ گئے۔ فرماتے: اے اللہ تو نے مجھ پر بڑے احسان کئے، مال دیا، اولادیں دیں اس وقت میرا دل ان کی طرف مشغول تھا، وہ سب کچھ چھوٹ گیا ہے اب میں فکر سے آزاد ہوں، میرے دل میں اور تیرے درمیان کوئی چیز حائل نہیں رہی۔ لہٰذا اللہ کا ذکر کیوں نہ کروں۔ راوی کہتے ہیں کہ جسم میں کیڑے پڑگئے تھے صرف آپ کی ایک بیوی صاحبہ تھیں جو ہر وقت آپ کے پاس رہتی تھیں۔ آپ کو کھلاتی پلاتی تھیں۔ ایک دن شیطان بصورت طبیب مل گیا۔ اس نے آپ سے کہا کہ آپ کا شوہر سخت بیمار ہے فلاں بت کے نام خیرات کرو یا مکھی ہی مارو تو شفا ہوجائے گی۔ جب آپ کی بیوی نے آپ کے پاس یہ واقعہ بیان کیا تو کہنے لگے کہ شیطان کس کس انداز سے گمراہ کرتا ہے۔ ایک دن دُعا کی مولا! تو نے مجھے اس آزمائش میں ڈالا ہے تو ہی مجھے اس آزمائش سے نکال اور بلاشبہ تو رحم فرمانے والا ہے۔ 
روایت ہے کہ ایک روز بنی اسرائیل کے چند لوگ آپ کے پاس سے گزرے اور آپ کو دیکھ کر کہنے لگے کہ ضرور اس آدمی نے کچھ بڑے گناہ کئے ہیں جو اتنی بڑی بیماری لگی۔ آپ نے یہ سنا تو خدا کی بارگاہ میں التجا کی کہ اے مولا! تو سب کچھ جانتا ہے۔ یہ کہہ کر سجدے میں گر پڑے، آخر اللہ کی طرف سے ندا آئی کہ اپنی ایڑی زمین پر مارو، وہاں سے پانی نکلے گا، وہی پی لو اور اس سے نہا بھی لو۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے ایسا ہی کیا۔ آپؑ تندرست ہوگئے اور جنت سے لباس آیا جس کو آپ نے زیب تن فرمایا۔ جب بیوی نے انہیں دیکھا تو نہیں پہچانا۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے کافی مال و اسباب بھی عطا کردیا۔ 
حضرت ایوب علیہ السلام نے صبرو ہمت سے کام لیا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کا اجر یہ دیا کہ صحت یابی کے بعد ایک روز حضرت ایوب سے پوچھا: اے ایوب! بتائو، حالت بیماری کے دن اچھے تھے یا اب کے دن۔ تو حضرت ایوبؑ نے بتایا کہ بیماری میں دوبار تیری ندا آتی تھی کہ اے ایوب تیرا کیا حال ہے؟ میرا سارا دن اس خوشی میں گزر جاتا تھا کہ مولا نے مجھ سے میرا حال پوچھا ہے۔ مجھے تکلیف کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا۔ ایک بار رات کو پوچھا جاتا اے میرے بندے تیرا کیا حال ہے؟ تو رات اس خوشی میں گزر جاتی کہ میرے مولا نے میرا حال پوچھا ہے لیکن اب وہ ندا آنا بند ہوگئی ہے تو مغموم رہتا ہوں۔ 
اس واقعہ سے ثابت ہوا کہ جب مولا کسی کو مصیبت میں مبتلاکرتا ہے تو اس کا مقصد اس بندہ کو نوازنا ہوتا ہے، تکلیف دینا نہیں۔ اس بندے کو کندن بناکر تیار کرکے ایک عظیم کام سونپنا ہوتا ہے۔ امیرالمومنین سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں :
’’انسان پر پڑنے والی یہ مصیبتیں ظالم کے لئے سزا، مومنین کے لئے امتحان اور پیامبروں کے لئے درجات کی بلندی اور اولیاء اللہ کے لئے کرامت و بزرگی ہوتی ہیں۔ ‘‘ 
 لیکن وہ لوگ جن کا ظرف کم ہے، ان کا امتحان بھی ان کے ظرف کے مطابق ہوتا ہے اور اگر وہ اس امتحان میں کامیابی کے ساتھ نکل جائیں تو بعد والے امتحانوں کی باری آتی ہے۔ تمام امتحان ایک طرح کے نہیں ہوتے کسی کا امتحان فقر سے لیا جاتا ہے، کسی کا صحت و سلامتی بخش کر امتحان لیاجاتا ہے۔ کسی کا امتحان بیماری سے، کسی کا علمی کامیابیوں سے، کسی کا عبادت و ریاضت کی توفیق عطا کرکے۔ ہر انسان کسی نہ کسی امتحان سے دوچار کیا جاتا ہے وہ اس سے فرار حاصل نہیں کرسکتا۔ 
  گو کہ امتحان ایک نعمت ہے جو انسان کو محنت، ریاضت اور مستعدی کا خوگر بناتی ہے، آخرت کی یاد پیدا کرتی ہے اور اللہ کی یاد میں اضافہ کرتی ہے لیکن ہمیں اللہ رب العزت سے اس کی محبت اور عنایت، بھلائی اور نیکی کی توفیق طلب کرتے رہنا چاہئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK