مخالف حالات سے گھبرا کر خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا کمزور اور بزدل لوگوں کی علامت ہے، کیونکہ بہادر انسان وہ ہوتے ہیں جو مشکلات کا سامنا ہمت، حوصلے اور ثابت قدمی سے کرتے ہیں۔ اصل بہادری یہ ہے کہ انسان طوفان کے سامنے دیوار بن جائے اور ناموافق حالات میں بھی عزم و حوصلے کے ساتھ اپنے راستے پر گامزن رہے۔
اگر قوم کو حقیقی معنوں میں بےباک، آزاد اور باوقار بنانا ہے تو محض جسمانی قوت نہیں بلکہ فکری و عملی ترقی بھی ناگزیر ہے۔ تصویر: آئی این این
اسلام انسان کو ایک بلند و مضبوط مقام پر فائز دیکھنا چاہتا ہے، اس لئے اس کی تعلیمات میں بزدلی، مایوسی اور کمزوری سے بچنے کی بار بار تلقین کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور تم ہمت نہ ہارو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب آؤ گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘ (سورہ آلِ عمران:۱۳۹) یہ آیت ہمیں یقین، حوصلے اور عزم کی تعلیم دیتی اور سکھاتی ہے کہ وقتی ناکامیاں اور مشکل حالات مؤمن کے قدم نہیں ڈگمگا سکتے۔
اس پس منظر میں جب ہم اپنے معاشرے اور خود اپنے کردار کا جائزہ لیتے ہیں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگ نہ صرف خود کمزوری، مایوسی اور بزدلی کا شکار ہو چکے ہیں بلکہ ہماریہ رویہ اور عمل دوسروں کو بھی یہی پیغام دیتے ہیں کہ مشکل وقت میں پیچھے ہٹ جانا ہی عقلمندی ہے۔ مثلاً جب دو افراد یا جماعتوں کے درمیان جھگڑا ہوتا ہے اور ہمارا بچہ اصلاح کے جذبے سے آگے بڑھ کر لڑائی کو ختم کرانے کی کوشش کرتا ہے، تو بجائے اس کے کہ ہم اس کی حوصلہ افزائی کریں، ہم فوراً اسے یہ کہہ کر روک دیتے ہیں کہ’’خاموش رہو، دور رہو، یہ تمہارا معاملہ نہیں ہے۔ ‘‘ اس طرح ہم اس کے دل سے اصلاح، جرأت اور قیادت کی روح کو نکال دیتے ہیں۔ اسی رویے کا نتیجہ ہے کہ ہم نہ صرف خود بزدلی کی زندگی گزار رہے ہیں بلکہ اپنی نئی نسل کو بھی بے عملی، بےجامصلحت پسندی اور خوف کی تعلیم دے رہے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عملاً یہ سکھایا ہے کہ حالات سے گھبرانے کے بجائے ان کا بہادری سے سامنا کرنا چاہئے۔ ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں رات کے وقت کسی جانب سے ایک خوفناک آواز آئی، جس سے لوگ گھبرا گئے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی کو اطلاع دیئے خود اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر اس سمت روانہ ہوئے تاکہ حقیقت کا پتا لگائیں۔ تھوڑی دیر بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو لوگوں سے فرمایا: ’’گھبراؤ نہیں، گھبراؤ نہیں، کوئی خوف کی بات نہیں ہے۔ ‘‘ (صحیح بخاری) یہ واقعہ اس بات کی روشن مثال ہے کہ رسول اکرم ؐ خود سب سے پہلے میدان میں اترتے تھے اور ہمیں بھی یہی تعلیم دی ہے کہ مؤمن حالات سے نہیں ڈرتا بلکہ ان کا حوصلے اور تدبر سے مقابلہ کرتا ہے۔
اس واقعے سے ایک نہایت اہم منطقی نکتہ ہمارے سامنے یہ آتا ہے کہ کسی بھی قوم کے اندر جرأت، خوداعتمادی اور بے خوفی پیدا کرنے میں اس کے رہنما کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ قوم اپنے لیڈر کے کردار سے اثر لیتی ہے؛ اگر قائد بہادر، بروقت فیصلہ لینے والا اور عملی میدان میں پیش پیش ہو تو اس کی قوم بھی بہادری، حرکت اور عمل کی راہ اختیار کرتی ہے، اور اگر قائد خود خوف، مصلحت یا کمزوری کا شکار ہو، تو قوم بھی بےحسی، سستی اور بزدلی میں ڈوب جاتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رہنما کی حیثیت سے نہ صرف اپنی قوم کو بہادری کا درس دیا، بلکہ عملاً ثابت کیا کہ رہنما کو سب سے پہلے خطرے میں قدم رکھنا ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کی یہ عملی تربیت آج بھی ہر قائد کے لئے رہنمائی کا روشن مینار ہے کہ قوم کو بیدار کرنا ہو تو پہلے خود بیدار ہونا پڑے گا، قوم کو بےباک بنانا ہو تو پہلے خود بےباک بننا پڑے گا۔
زیر ِ بحث موضوع کا ایک نہایت اہم اور قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ کسی بھی قوم کو جائز حدود میں بےباک اور خوداعتماد بنانے کے لئے صرف جسمانی طاقت کافی نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لئے زندگی کے مختلف شعبوں میں ہمہ جہت ترقی اور مہارت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی قوم جسمانی طور پر تو طاقتور ہو، لیکن علمی، فکری، تعلیمی، معاشی اور سیاسی میدان میں پسماندہ ہو، تو اس کی طاقت عارضی اور غیر مؤثر بن جاتی ہے۔ ایک غیر تعلیم یافتہ اور بے ہنر قوم نہ صرف دوسروں کی محتاج رہتی ہے بلکہ اپنی خودمختاری اور عزت نفس بھی برقرار نہیں رکھ سکتی۔ تعلیم انسان کو سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت دیتی ہے، حرفت اور مہارت اسے خودکفیل بناتی ہے جبکہ سیاست اور معیشت میں مضبوطی اسے عالمی سطح پر مؤثر بناتی ہے۔ اسی لئے اگر قوم کو حقیقی معنوں میں بےباک، آزاد اور باوقار بنانا ہے تو محض جسمانی قوت نہیں بلکہ فکری و عملی ترقی بھی ناگزیر ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی یاد رکھیں کہ بے باکی کے مفہوم میں صرف جسمانی طاقت کا مظاہرہ شامل نہیں ہے بلکہ بعض اوقات بے باکی اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب انسان طاقتوروں کے سامنے حق بات کہنے کی ہمت کرتا ہے، یا ایسی بات لکھتا ہے جو معاشرتی دباؤ یا ذاتی نقصان کے باوجود عدل و انصاف کا علم بلند کرے۔ کبھی یہ جرأت اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب کوئی شخص سچی گواہی دے کر باطل نظام کو چیلنج کرتا ہے یا مظلوم و کمزور کے ساتھ کھڑے ہو کر ظالم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔ یہی وہ بے باکی ہے جو دلوں کو جیتتی ہے، معاشروں کو جگاتی ہے، اور اقوام کو عزت و وقار عطا کرتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ نے اپنے قول ’’سب سے عظیم جہاد ظالم حکمران کے سامنے عدل کی بات کہنا ہے‘‘ (ابوداؤد) کے ذریعہ یہی پیغام دیا ہے۔ ایک اہم بات جو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ جرأت کے ساتھ ساتھ حکمت کو بھی پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے، کیونکہ بے محل یا غیر دانشمندانہ جرأت بعض اوقات فائدے کے بجائے نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔ اسلام کا مزاج توازن کا ہے، جہاں حق بات کہنا مطلوب ہے، وہیں موقع، محل، انداز اور اثر کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ اگر بے باکی جذبات میں ڈوب کر حکمت سے خالی ہو جائے تو وہ نادانی بن جاتی ہے جو نہ صرف خود انسان کے لئے وبالِ جان بن سکتی ہے بلکہ دوسروں کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم سچ بولیں، حق پر قائم رہیں، مگر انداز اور وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے حکمت اور بصیرت کے ساتھ بات کریں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اگر ہم دنیا میں عزت، وقار اور خودمختاری کے ساتھ جینا چاہتے ہیں تو ہمیں زندگی کے تمام شعبوں، تعلیم، معیشت، سیاست، ٹیکنالوجی اور فن و حرفت میں مہارت حاصل کرنے کے ساتھ بوقت ضرورت اپنی حقانیت ثابت کرنے اور قومی و ملی مفادات کے تحفظ کے لئے جرأت و بے باکی کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ یہی وہ راستہ ہے جو قوموں کو محکومی سے نکال کر عزت و قیادت کے مقام تک پہنچاتا ہے اوراسلام نے ہمیں اسی فکر و شعور کی تعلیم دی ہے۔