اسلام کے آنےسے پہلے دنیا نے عورت کو ایک غیرمفید بلکہ مخل ِ تمدن عنصر سمجھ کر میدانِ عمل سے ہٹا دیا تھا اور اسے پستی کے ایک ایسے غار میں پھینک دیا تھا جس کے بعد اس کے ارتقاء کی کوئی توقع نہیں تھی۔ اسلام نے دنیا کی اس روش کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور بتایا کہ جس طرح مرد اپنا وجود رکھتا ہے اسی طرح عورت کی تخلیق کی بھی ایک غایت ہے اور قدرت ان دونوں اصناف کے ذریعہ مطلوبہ مقاصد کی تکمیل کرارہی ہے
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تہذیب و تمدن کے انقلابات عورت اور مرد کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہیں.تصویر:آئی این این
قرآن مجید ہمیں یہ بتاتا ہے کہ زندگی کی گہماگہمی اور نشیب و فراز میں ہمیشہ مرد اور عورت میں سے ہر ایک، دوسرے کا مددگار اور معاون رہا ہے، زندگی کے بارِ گراں کو دونوں نے سنبھالا ہے، تمدن کا ارتقاء دونوں کے اتحاد سے عمل میں آیا ہے۔ دنیا کی کوئی قوم اور کوئی تحریک ان میں سے کسی بھی طبقہ کو نظرانداز نہیں کرسکتی ۔ جس طرح حق کے فروغ اور اس کے غلبۂ اقتدار میں مرد اور عورت دونوں شانہ بشانہ مصروفِ عمل نظر آتے ہیں اسی طرح باطل کی ترقی و استحکام میں بھی دونوں حصہ دار اور شریکِ کار ہیں :
’’منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے (کی جنس) سے ہیں ۔ یہ لوگ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھ (اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے) بند رکھتے ہیں ، انہوں نے اللہ کو فراموش کر دیا تو اللہ نے انہیں فراموش کر دیا، بے شک منافقین بڑے ہی نافرمان ہیں ۔‘‘ (سورہ التوبہ:۶۷)
’’اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں ۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں ، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بےشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔‘‘ (سورہ التوبہ:۷۱)
اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد کہ تہذیب و تمدن کے انقلابات عورت اور مرد کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہیں ، عقل و انصاف کی وہ کون سی دلیل ہے جو ایک کو توقیر و احترام کے قابل اور دوسرے کو ذلت و حقارت کا مستحق ثابت کرسکتی ہے؟ اور جب زمانہ کی صلاح اور بگاڑ میں دونوں کا ہاتھ ہے تو کیا یہ حماقت نہ ہوگی کہ ایک کو کارگاہِ تمدن سے خارج کرکے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا جائے؟ کیا دنیا کا کوئی شخص اپنے جسم کے ایک حصہ کو بے کار اور مفلوج کرنے کے بعد بھی زندگی کے میدان میں اپنا پارٹ ادا کرسکتا ہے؟
(۴) عورت کے متعلق اسلام کا نظریہ
اسلام کے آنےسے پہلے دنیا نے عورت کو ایک غیرمفید بلکہ مخل ِ تمدن عنصر سمجھ کر میدانِ عمل سے ہٹا دیا تھا اور اسے پستی کے ایک ایسے غار میں پھینک دیا تھا جس کے بعد اس کے ارتقاء کی کوئی توقع نہیں تھی۔ اسلام نے دنیا کی اس روش کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور بتایا کہ زندگی، مرد اور عورت دونوں ہی کی محتاج ہے۔ عورت اس لئے نہیں پیدا کی گئی ہے کہ اسے دھتکارا جائے اور شاہراہِ حیات سے کانٹے کی طرح ہٹا دیا جائے۔ کیونکہ جس طرح مرد اپنا وجود رکھتا ہے اسی طرح عورت کی تخلیق کی بھی ایک غایت ہے اور قدرت ان دونوں اصناف کے ذریعہ مطلوبہ مقاصد کی تکمیل کرارہی ہے:
’’اللہ ہی کیلئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے بخشتا ہے، یا انہیں بیٹے اور بیٹیاں (دونوں ) جمع فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ ہی بنا دیتا ہے، بیشک وہ خوب جاننے والا بڑی قدرت والا ہے۔‘‘ (الشوریٰ : ۴۹۔۵۰)
اسلام نے عورت کو ذلت و رسوائی کے مقام سے اتنی تیزی سے اٹھایا اور حقوق و مراعات سے نوازا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں :
’’نبی ﷺ کے زمانہ میں ہم اپنی عورتوں سے گفتگو کرتے اور بے تکلفی برتتے ہوئے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں ہمارے متعلق کوئی حکم نہ نازل ہوجائے۔ ‘‘
(بخاری، کتاب النکاح، باب الوصاۃ بالنساء)
اس مظلوم صنف کو حق زیست تک حاصل نہ تھا۔ قرآن نے کہا:نہیں ! وہ زندہ رہے گی اور اس کے حق پر جو شخص بھی دست درازی کرے گا خدا کی طرف سے اس سے بازپرس ہوگی :’’اور جب زندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا، کہ وہ کس گناہ کے باعث قتل کی گئی تھی۔‘‘ (التکویر:۸۔۹)
نبی کریم ﷺ نے اس مظلوم صنف کی حمایت میں جو ہدایات اور تعلیمات دی ہیں آج تک کوئی بھی مدعی ٔ حقوقِ نسواں ان سے زیادہ صحیح اور حقیقی تعلیمات نہیں پیش کرسکا۔ آپؐ نے فرمایا:
’’اللہ نے حرام کی ہے تم پر ماؤں کی نافرمانی ، ادائیگی ٔ حقوق سے ہاتھ روکنا اور ہر طرف سے مال بٹورنا اور لڑکیوں کا زندہ دفن کرنا۔‘‘ (بخاری، کتاب الادب)
حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’جس شخص کے لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا ۔‘‘
حضرت ابوسعید خدری ؓ رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو اس کے لئے جنت ہے۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ؐ سے روایت کرتی ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ جس شخص کو ان لڑکیوں کے ذریعے کچھ بھی آزمائش میں ڈالے اور وہ ان کے ساتھ بہتر سلوک کرے تو وہ اس کے لئے جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی۔‘‘(بخاری ، کتاب الادب، مسلم ، کتاب البر والصلہ)
حضور ﷺ نے کتنے پرسوز اور مؤثر انداز میں ارشاد فرمایا ہے:
’’کیا میں تمہیں بتاؤں کہ بڑی فضیلت والا صدقہ کون سا ہے؟ اپنی اس بچی پر احسان کرنا جو (بیوہ ہوجانے یا طلاق دے دیئے جانے کی وجہ سے) تمہاری طرف لوٹا دی گئی ہو اور جس کا تمہارے سوا کوئی کفیل اور بار اٹھانے والا نہ رہا ہو۔‘‘ (ابن ماجہ ، باب برالوالدوالاحسان الی البنات)
ایک مرتبہ ازواجِ مطہرات اونٹوں پر سفر کررہی تھی، آپؐ نے شتربان سے فرمایا: ’’آبگینوں کو ذرا سنبھال کے لے چلو۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا:
’’میری بچی میرا گوشت پوست ہے۔ جو چیز اس کے لئے باعث تشویش ہوگی وہ میرے لئے بھی پریشانی کا سبب ہوگی، اور جو بات اس کے لئے باعث ِ اذیت ہوگی یقیناً اس سے مجھے بھی تکلیف پہنچے گی۔‘‘ (بخاری، کتاب المناقب، مسلم کتاب الفضائل)
حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا گیا کہ حضور ﷺ سب سے زیادہ محبوب کسے رکھتے تھے؟ جواب دیا : فاطمہ ؓ کو۔ (ترمذی ، ابواب المناقب)
ایک مرتبہ آپﷺ سے دریافت کیا گیا کہ آپؐ کی محبوب ترین شخصیت کون ہے؟ فرمایا: عائشہ ؓ۔ یہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ صحیح ۔ ازواج میں حضرت عائشہؓ اور اولاد میں حضرت فاطمہ ؓ آپ کی منظور نظر تھیں ۔ ان احادیث سے آپ صنف نسواں کے بارے میں اسلام کے رجحان اور مزاج کو سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے متبعین کے اندر اس صنف کے حق میں کس قسم کے جذبات کی پرورش کرتا ہے۔
اس تعلیم نے فکر و عمل میں ایسا انقلاب پیدا کیا کہ وہ لوگ جنہیں ایک معصوم جان کو زندہ درگور کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا تھا اور جن کی پیشانی کبھی اس سنگ دلی پر عرق آلود نہیں ہوتی تھی،وہ اس کی چارہ گری اور پرورش کو اپنے لئے سرمایہ ٔ حیات تصور کرنے لگے ۔ جن کے ہاں اپنے ہی جگرگوشوں کو اماں نہیں ملتی تھی وہ دوسروں کی اولاد کے محافظ و نگران بن گئے اور جو عورت کے ساتھ مہر و الفت کی پرورش سے ناواقف تھے انہیں اپنے آخری لمحات ِ حیات میں اس مظلوم طبقہ کی فکر دامن گیر رہنے لگی۔
جنگ ِ احد کے موقع پر حضرت جابر ؓ کے والد نے حضرت جابر ؓ سے کہا : صاحب زادے ! شاید پیش آنے والے
اسلامی تعلیمات نے واضح کردیا کہ زندگی، مرد اَور عورت دونوں ہی کی محتاج ہے
اسلام کے آنےسے پہلے دنیا نے عورت کو ایک غیرمفید بلکہ مخل ِ تمدن عنصر سمجھ کر میدانِ عمل سے ہٹا دیا تھا اور اسے پستی کے ایک ایسے غار میں پھینک دیا تھا جس کے بعد اس کے ارتقاء کی کوئی توقع نہیں تھی۔ اسلام نے دنیا کی اس روش کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور بتایا کہ جس طرح مرد اپنا وجود رکھتا ہے اسی طرح عورت کی تخلیق کی بھی ایک غایت ہے اور قدرت ان دونوں اصناف کے ذریعہ مطلوبہ مقاصد کی تکمیل کرارہی ہے
سیدجلال الدین عمری
(۳) مرد اور عورت تہذیب کے معمار ہیں
قرآن مجید ہمیں یہ بتاتا ہے کہ زندگی کی گہماگہمی اور نشیب و فراز میں ہمیشہ مرد اور عورت میں سے ہر ایک، دوسرے کا مددگار اور معاون رہا ہے، زندگی کے بارِ گراں کو دونوں نے سنبھالا ہے، تمدن کا ارتقاء دونوں کے اتحاد سے عمل میں آیا ہے۔ دنیا کی کوئی قوم اور کوئی تحریک ان میں سے کسی بھی طبقہ کو نظرانداز نہیں کرسکتی ۔ جس طرح حق کے فروغ اور اس کے غلبۂ اقتدار میں مرد اور عورت دونوں شانہ بشانہ مصروفِ عمل نظر آتے ہیں اسی طرح باطل کی ترقی و استحکام میں بھی دونوں حصہ دار اور شریکِ کار ہیں :
’’منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے (کی جنس) سے ہیں ۔ یہ لوگ بری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھ (اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے) بند رکھتے ہیں ، انہوں نے اللہ کو فراموش کر دیا تو اللہ نے انہیں فراموش کر دیا، بے شک منافقین بڑے ہی نافرمان ہیں ۔‘‘ (سورہ التوبہ:۶۷)
’’اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں ۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں ، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بےشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔‘‘ (سورہ التوبہ:۷۱)
اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد کہ تہذیب و تمدن کے انقلابات عورت اور مرد کی مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہیں ، عقل و انصاف کی وہ کون سی دلیل ہے جو ایک کو توقیر و احترام کے قابل اور دوسرے کو ذلت و حقارت کا مستحق ثابت کرسکتی ہے؟ اور جب زمانہ کی صلاح اور بگاڑ میں دونوں کا ہاتھ ہے تو کیا یہ حماقت نہ ہوگی کہ ایک کو کارگاہِ تمدن سے خارج کرکے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا جائے؟ کیا دنیا کا کوئی شخص اپنے جسم کے ایک حصہ کو بے کار اور مفلوج کرنے کے بعد بھی زندگی کے میدان میں اپنا پارٹ ادا کرسکتا ہے؟
(۴) عورت کے متعلق اسلام کا نظریہ
اسلام کے آنےسے پہلے دنیا نے عورت کو ایک غیرمفید بلکہ مخل ِ تمدن عنصر سمجھ کر میدانِ عمل سے ہٹا دیا تھا اور اسے پستی کے ایک ایسے غار میں پھینک دیا تھا جس کے بعد اس کے ارتقاء کی کوئی توقع نہیں تھی۔ اسلام نے دنیا کی اس روش کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی اور بتایا کہ زندگی، مرد اور عورت دونوں ہی کی محتاج ہے۔ عورت اس لئے نہیں پیدا کی گئی ہے کہ اسے دھتکارا جائے اور شاہراہِ حیات سے کانٹے کی طرح ہٹا دیا جائے۔ کیونکہ جس طرح مرد اپنا وجود رکھتا ہے اسی طرح عورت کی تخلیق کی بھی ایک غایت ہے اور قدرت ان دونوں اصناف کے ذریعہ مطلوبہ مقاصد کی تکمیل کرارہی ہے:
’’اللہ ہی کیلئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے بخشتا ہے، یا انہیں بیٹے اور بیٹیاں (دونوں ) جمع فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ ہی بنا دیتا ہے، بیشک وہ خوب جاننے والا بڑی قدرت والا ہے۔‘‘ (الشوریٰ : ۴۹۔۵۰)
اسلام نے عورت کو ذلت و رسوائی کے مقام سے اتنی تیزی سے اٹھایا اور حقوق و مراعات سے نوازا کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں :
’’نبی ﷺ کے زمانہ میں ہم اپنی عورتوں سے گفتگو کرتے اور بے تکلفی برتتے ہوئے بھی ڈرتے تھے کہ کہیں ہمارے متعلق کوئی حکم نہ نازل ہوجائے۔ ‘‘
(بخاری، کتاب النکاح، باب الوصاۃ بالنساء)
اس مظلوم صنف کو حق زیست تک حاصل نہ تھا۔ قرآن نے کہا:نہیں ! وہ زندہ رہے گی اور اس کے حق پر جو شخص بھی دست درازی کرے گا خدا کی طرف سے اس سے بازپرس ہوگی :’’اور جب زندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا، کہ وہ کس گناہ کے باعث قتل کی گئی تھی۔‘‘ (التکویر:۸۔۹)
نبی کریم ﷺ نے اس مظلوم صنف کی حمایت میں جو ہدایات اور تعلیمات دی ہیں آج تک کوئی بھی مدعی ٔ حقوقِ نسواں ان سے زیادہ صحیح اور حقیقی تعلیمات نہیں پیش کرسکا۔ آپؐ نے فرمایا:
’’اللہ نے حرام کی ہے تم پر ماؤں کی نافرمانی ، ادائیگی ٔ حقوق سے ہاتھ روکنا اور ہر طرف سے مال بٹورنا اور لڑکیوں کا زندہ دفن کرنا۔‘‘ (بخاری، کتاب الادب)
حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’جس شخص کے لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا ۔‘‘
حضرت ابوسعید خدری ؓ رسول کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو اس کے لئے جنت ہے۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ؐ سے روایت کرتی ہیں کہ آپؐ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ جس شخص کو ان لڑکیوں کے ذریعے کچھ بھی آزمائش میں ڈالے اور وہ ان کے ساتھ بہتر سلوک کرے تو وہ اس کے لئے جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی۔‘‘(بخاری ، کتاب الادب، مسلم ، کتاب البر والصلہ)
حضور ﷺ نے کتنے پرسوز اور مؤثر انداز میں ارشاد فرمایا ہے:
’’کیا میں تمہیں بتاؤں کہ بڑی فضیلت والا صدقہ کون سا ہے؟ اپنی اس بچی پر احسان کرنا جو (بیوہ ہوجانے یا طلاق دے دیئے جانے کی وجہ سے) تمہاری طرف لوٹا دی گئی ہو اور جس کا تمہارے سوا کوئی کفیل اور بار اٹھانے والا نہ رہا ہو۔‘‘ (ابن ماجہ ، باب برالوالدوالاحسان الی البنات)
ایک مرتبہ ازواجِ مطہرات اونٹوں پر سفر کررہی تھی، آپؐ نے شتربان سے فرمایا: ’’آبگینوں کو ذرا سنبھال کے لے چلو۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا:
’’میری بچی میرا گوشت پوست ہے۔ جو چیز اس کے لئے باعث تشویش ہوگی وہ میرے لئے بھی پریشانی کا سبب ہوگی، اور جو بات اس کے لئے باعث ِ اذیت ہوگی یقیناً اس سے مجھے بھی تکلیف پہنچے گی۔‘‘ (بخاری، کتاب المناقب، مسلم کتاب الفضائل)
حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا گیا کہ حضور ﷺ سب سے زیادہ محبوب کسے رکھتے تھے؟ جواب دیا : فاطمہ ؓ کو۔ (ترمذی ، ابواب المناقب)
ایک مرتبہ آپﷺ سے دریافت کیا گیا کہ آپؐ کی محبوب ترین شخصیت کون ہے؟ فرمایا: عائشہ ؓ۔ یہ دونوں باتیں اپنی اپنی جگہ صحیح ۔ ازواج میں حضرت عائشہؓ اور اولاد میں حضرت فاطمہ ؓ آپ کی منظور نظر تھیں ۔ ان احادیث سے آپ صنف نسواں کے بارے میں اسلام کے رجحان اور مزاج کو سمجھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے متبعین کے اندر اس صنف کے حق میں کس قسم کے جذبات کی پرورش کرتا ہے۔
اس تعلیم نے فکر و عمل میں ایسا انقلاب پیدا کیا کہ وہ لوگ جنہیں ایک معصوم جان کو زندہ درگور کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا تھا اور جن کی پیشانی کبھی اس سنگ دلی پر عرق آلود نہیں ہوتی تھی،وہ اس کی چارہ گری اور پرورش کو اپنے لئے سرمایہ ٔ حیات تصور کرنے لگے ۔ جن کے ہاں اپنے ہی جگرگوشوں کو اماں نہیں ملتی تھی وہ دوسروں کی اولاد کے محافظ و نگران بن گئے اور جو عورت کے ساتھ مہر و الفت کی پرورش سے ناواقف تھے انہیں اپنے آخری لمحات ِ حیات میں اس مظلوم طبقہ کی فکر دامن گیر رہنے لگی۔
جنگ ِ احد کے موقع پر حضرت جابر ؓ کے والد نے حضرت جابر ؓ سے کہا : صاحب زادے ! شاید پیش آنے والے معرکہ میں مجھے اس دنیا سے کوچ کرنا پڑے۔ اس آخری وقت میں ، مَیں تمہیں اپنی لڑکیوں کے بارے میں خیراندیشی کی وصیت کرتا ہوں ۔ (مستدرک حاکم، ج۴)
چنانچہ باوجودیکہ حضرت جابرؓ عہد ِ شباب سے گزر رہے تھے، لیکن انہوں نے اپنی بہنوں کی نگہداشت کے خیال سے ایک بیوہ کو اپنے لئے منتخب کیا۔ آپؐ نے جب ان سے دریافت فرمایا کہ کسی دوشیزہ سے کیوں نہیں شادی کی، تو جواب دیا:
’’یا رسولؐ اللہ ! میرے والد احد کے معرکے میں شہید کردیئے گئے اور اپنے پیچھے نو لڑکیاں چھوڑ گئے ہیں ۔ ان کی نگہداشت کے پیش نظر میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ ان کے ساتھ ان ہی جیسی ایک ناتجربہ کار لڑکی کو جمع کردوں اس لئے ایک ایسی عورت کا انتخاب کیا جو ان کی کنگھی چوٹی اور دیکھ بھال کرسکتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ٹھیک کیا تم نے۔‘‘
بخاری، مسلم اور ابوداؤد وغیرہ کی روایت ہے کہ حضرت حمزہؓ کی شہادت کے بعد ان کی بیٹی کی کفالت کے تین دعویدار پیدا ہوگئے۔ ایک طرف سے حضرت علیؓ حاضر ہوئے کہ یہ میری چچا زاد بہن ہے لہٰذا میں اس کی پرورش کا حق دار ہوں ۔ دوسری طرف حضرت جعفر ؓ نے دعویٰ کیا کہ میں علیؓ سے زیادہ اس کی نگہداشت کا مستحق ہوں کیونکہ یہی نہیں کہ وہ میرے چچا کی لڑکی ہے بلکہ اس کی خالہ بھی میرے نکاح میں ہے ، اس طرح دو دو جہت سے مجھے اس کی پرورش کی سعادت ملنی چاہئے۔ تیسری طرف حضرت زیدؓ چلے آئے کہ وہ تو میرے بھائی (حضرت زیدؓ انصاری تھے اور حضرت حمزہؓ مہاجر، آپؐ نے ان کے درمیان مواخات قائم فرمائی تھی) کی بچی ہے اور چچا سے زیادہ بھتیجی کی تربیت کا حق کسے پہنچتا ہے؟ غور فرمائیےفکر و نظر کے اس عظیم انقلاب کی مثال کیا تاریخ کے کسی دوسرے دَور میں بھی ملتی ہے؟
ان تعلیمات میں اتنا زور اور قوت ہے کہ وہ پنجہ ٔ جور و ستم کو توڑ کر رکھ دیتی ہیں ۔ جو شخص ان پر کامل یقین رکھتا ہو اس کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ حدود عدل و انصاف سے باہر قدم رکھے اور عورت کو بے بس و کمزور پا کر اس پر ظلم کے تیر برسانے لگے۔n
(تیسرا اور آخری حصہ آئندہ جمعہ کو پڑھئے)