Inquilab Logo

قرض کے مسائل اور احکام سے واقف ہونا ضروری ہے

Updated: February 16, 2024, 3:22 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

موجودہ دَور میں بڑھتی ہوئی مادی خواہشات پورا کرنے کے لئے اکثر لوگ قرض لینے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ اس سلسلے میں ہمیں محتاط رہنا اور قرض کے تعلق سے اسلامی رہنمائی حاصل کرنا چاہئے۔

Lending institutions and individuals offer loans with attractive and impressive discounts in what is essentially a lucrative transaction. Photo: INN
قرض دینے والے ادارے اور افراد خوشنما اور متاثر کن رعایتوں کے ساتھ قرض دینے کی پیشکش کرتے ہیں جو اصل میں سودی لین دین ہوتا ہے۔ تصویر : آئی این این

 اللہ تعالیٰ نے رزق کی تقسیم میں اپنے بندوں کے درمیان فرق کیا ہے اور یکسانیت نہیں برتی ہے۔ یہی نابرابری ہے جس سے کائنات کا نظام جاری و ساری ہے۔ اگر یہ نابرابری نہ ہوتی تو نہ کوئی شخص دوسرے کے یہاں ملازمت کا محتاج ہوتا اور نہ کسی سرمایہ دار کو کوئی مزدور اور کارکن ہاتھ آتا۔ یہی احتیاج اور ضرورت بعض اوقات انسان کو قرض کے لین دین پر مجبور کرتی ہے۔ اگر جائز طریقے پر اہل ثروت اپنے غریب بھائیوں کو قرض دے دیں تو خودبخود سود کا راستہ بند ہوجائے۔ افسوس کہ ایک تو مسلمانوں میں یہ برادرانہ اسپرٹ باقی نہیں رہی کہ وہ اپنے زائد از ضرورت مال میں دوسرے غریب بھائیوں کا حق محسوس کریں اور ان کو غیرسودی قرضے فراہم کریں، اور نہ ہی لوگ قرض کے احکام و مسائل سے واقف ہیں۔ 
  قرض کے لین دین کا ثبوت قرآن سے بھی ہے اور حدیث سے بھی، اور اس پر اجماع و اتفاق بھی ہے اور مصلحت انسانی کا تقاضا بھی ہے۔ قرآن نے اللہ کے راستہ میں انفاق کو ’’قرض حسنہ‘‘ قرار دیا ہے۔ (البقرہ:۲۴۵) اس میں قرض کے جائز، بلکہ مستحب اور مطلوب ہونے کی طرف واضح اشارہ ہے۔ ایک جگہ ’’دین‘‘ کے ساتھ مدت لکھنے کی تاکید فرمائی گئی ہے (البقرہ:۲۸۲) 
  دَین کا لفظ عام ہے اور قرض بھی اس کے دائرہ میں آتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ارشاد نبویؐ نقل کرتے ہیں کہ کسی مسلمان کو دوبار قرض دینا ایک بار صدقہ کرنے کے برابر ہے۔ (سنن بیہقی، ۳۵۳/۵، ابن ماجہ ۶۰/۲ مع تحقیق الاعظمی)۔ اور بھی متعدد روایتیں ہیں جن میں قرض دینے کی فضیلت وارد ہوئی ہے، اسی لئے اس کے جائزہ ہونے پر امت کا اجماع ہے۔ (المغنی: ۲۰۷/۴) پھر قرض ایک ایسی مصلحت ہے کہ بہت سے مواقع پر اس سے مفر نہیں ہوتا، اس لئے اگر اس کی گنجائش نہ رکھی جائے تو تنگی اور دشواری کا باعث ہوگا اور ناقابل برداشت حرج و تنگی کو دور کرنا شریعت کا ایک اہم ترین مقصد ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے۔ ‘‘  (المائدہ:۶) یہ بھی فرمایا کہ: ’’اﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے دشواری نہیں چاہتا۔ ‘‘ (البقرہ: ۱۸۵)۔ قرض لینا گو مباح ہے لیکن قرض دینا مستحب ہے، کیونکہ یہ نیکی اور بھلائی میں تعاون ہے۔ (الشرح الصغیر)

یہ بھی پڑھئے:افراط و تفریط آخرت میں اللہ کی پکڑ اور دُنیا میں قوموں کی رسوائی کا سامان ہے

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے قرض دین کی فضیلت اوپر مذکور ہوچکی ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: میں نے شب اسراء جنت کے دروازہ پر لکھا ہوا دیکھا کہ صدقہ کا ثواب ۱۰؍گنا ہے اور قرض کا ۱۸؍گنا۔ میں نے حضرت جبریل ؑ سے استفسار کیا کہ قرض صدقہ سے افضل کیوں ہے؟ جبریل ؑ نے کہا کہ سائل مال رہنے کے باوجود دست سوال دراز کرتا ہے اور اس پر صدقہ کیا جاتا ہے اور قرض کا خواستگار ضرورت ہی پرطلبگار قرض ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، ۲۔ ۵۶) نیز حضرت ابودرداءؓ سے مروی ہے کہ یہ بات کہ میں دو دینار قرض دوں پھر وہ واپس آجائیں اور میں ان کو کسی اور کو قرض دے دوں مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں ان کو صدقہ کردوں۔ (المغنی : ۴۔ ۲۰۷) حضرت انسؓ کی ایک روایت میں آپ سے منقول ہے کہ کسی چیز کو قرض دینا اس کے صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ (سنن بیہقی: ۵۔ ۳۵۴)
 ان روایات سے نہ صرف قرض کی فضیلت اور اس کا استحباب ظاہر ہوتا ہے بلکہ مواقع و احوال کے لحاظ سے قرض کا بعض اوقات صدقہ سے بھی زیادہ باعث ِ ثواب ہونا معلوم ہوتا ہے۔ اگر محتاج کی حاجت مندی کا یقین کرکے اُسے دیا جائے تو ظاہر ہے کہ صدقہ افضل ہے، لیکن اگر یقینی طور پر اس کا علم نہیں تو قرض کی فضیلت زیادہ ہے، اس لئے کہ جو لوگ خوددار طبیعت کے مالک ہوں وہ مجبوراً ہی قرض کے طالب ہوتے ہیں۔ 
 قرض کے مستحب ہونے کا حکم ظاہر ہے اس وقت ہے جب قرض دہندہ کے علم یا اندازہ کے مطابق قرض کسی جائز ضرورت کیلئے لیا جارہا ہو، اگر کسی مکروہ یا حرام و معصیت کے ارتکاب کے لئے قرض لے تو دانستہ اس مقصد کیلئے قرض دینا درست نہیں۔ مکروہ میں تعاون بھی مکروہ اور حرام کا تعاون بھی حرام ہے، کیونکہ جو حکم مقصد کا ہوتا ہے وہی حکم ’’ذریعہ‘’ کا بھی ہوتا ہے۔ 
 قرض لینا مباح ہے۔ (المغنی: ۴۔ ۲۰۷) خود آپﷺ سے قرض لینا ثابت ہے، البتہ یہ ضروری ہے کہ جائز مقصد کیلئے قرض لیا جائے۔ ابن ماجہ میں روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ قرض لینے والے کے ساتھ ہوتا ہے، جب تک وہ ادا نہ کرلے، سوائے اس کے کہ کسی ایسے مقصد کے لئے دَین حاصل کرے جو اللہ کو ناپسند ہو۔ (حدیث نمبر ۲۴۳۳) یا اس ارادہ سے قرض کرلے کہ ادا نہیں کرنا ہے، یہ بھی گناہ کی بات ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے یہاں چور شمار کیا جائے گا (حوالۂ سابق)۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جو محض دوسروں کا پیسہ ڈبونے کیلئے قرض کرلے، اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کردیں گے۔ (ایضاً)۔ حضرت میمونہؓ راوی ہیں کہ جو شخص اس ارادہ سے دَین لے کہ اسے ادا کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کا دَین ادا کرادیں گے۔ (ایضاً) غرض شدید ضرورت کے بغیر اور غیرشرعی ضرورت کیلئے نیز عدم ادائیگی کی نیت سے قرض لینا گناہ ہے، جائز مقصد کیلئے، ضرورت کی وجہ سے اور حسب ِ وعدہ ادا کرنے کی نیت سے قرض لینا مباح اور جائزہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اکثر مسلمان نہیں جانتے۔ 
  اگر مقرو ض تنگدستی میں مبتلا ہو تو اس کو مزید مہلت دینی چاہئے اور ممکن ہو تو کچھ معاف بھی کردینا چاہئے۔ آپؐ نے اشاد فرمایا: جو اللہ کے سایہ میں رہنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ تنگ دست کو مہلت دے، یا اس کا کچھ حصہ معاف کردے۔ (ابن ماجہ، حدیث نمبر : ۲۴۴۴) پھر آپؐ نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ قرض کی ادائیگی کا مطالبہ مناسب طریقے پر کرنا چاہئے۔ 
 جہاں ایک طرف آپؐ نے قرض دہندہ کو حسن سلوک کی ہدایت دی وہیں مقروض کو بھی تلقین فرمائی کہ وہ قرض خواہ کے ساتھ زیادتی نہ کرے اور بہتر معاملہ رکھے، باوجود استطاعت کے، قرض کی ادائیگی میں کوتاہی اور ٹال مٹول کو آپؐ نے بہت ناپسند فرمایا ہے اور یہ فرمایا کہ یہ چیز اس کی بےعزتی اور سزا کا جواز پیدا کردیتی ہے۔ (ابن ماجہ، حدیث نمبر : ۲۴۵۲) یہاں تک کہ آپؐ نے متوفی کے مال میں سے پہلے اس کا دَین ادا کرنے کا حکم فرمایا۔ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو دَین کی ادائیگی میں بہتر ہو۔ (ابن ماجہ) ایک حدیث میں ہے کہ مومن کی روح اس کے دَین کے ساتھ معلق رہتی ہے، تاآنکہ اس کی طرف سے ادا کردیا جائے۔ (ابن ماجہ)
  حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے آپؐ کا ارشاد منقول ہے کہ جس کا انتقال ہو اس پر ایک دینار یا درہم بھی باقی ہو تو اسے اس کی نیکیوں میں سے وصول کیا جائے گا۔ (ابن ماجہ، حدیث نمبر ۲۴۳۹)۔ قرض دہندہ کو قرض پر نفع حاصل کرنا اور شرط لگانا کہ مقروض اسے اضافہ کے ساتھ واپس کرے، حرام ہے اور سود میں داخل ہے، کیونکہ آپؐ نے قرض پر نفع حاصل کرنے سے منع فرمایا اور بعض روایتوں میں اسے سود قرار دیا گیا۔ اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔ 
  مقدار میں اضافہ تو حرام ہے ہی، کیفیت میں عمدگی کی شرط لگانا بھی جائز نہیں، مثلاً معمولی چیز دی اور شرط لگائی کہ اس کے بدلے بہتر چیز واپس کرے، یہ بھی درست نہیں۔ (ہندیہ)
 سودخوار کی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اورسود کے چور دروازوں کو بند کرنے کی غرض سے آپؐ نے مقروض کی طرف سے تحائف کے قبول کرنے میں بھی احتیاط برتنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت انسؓ سے آپؐ کا ارشاد مروی ہے کہ جب کوئی قرض دے اور مقروض کوئی تحفہ دے یا اپنی سواری پر بٹھائے تو اسے قبول نہ کرنا چاہئے، سوائے اس کے کہ پہلے سے ان کے درمیان تحائف کا لین دین رہا ہو۔ (ابن ماجہ، ۲۔ ۸۱۳)۔  حضرت ابی ابن کعب ؓ جہاد کی غرض سے عراق کی طرف جارہے تھے تو زربن جیش نے آپؓ سے کہا کہ آپ ایسی جگہ جارہے ہیں جہاں سود کا عام رواج ہے، اس لئے اگر آپ کسی کو قرض دیں اور وہ آپ کو قرض کے ساتھ کچھ تحفہ بھی دے تو قبول نہ کریں۔ 
 اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ’’قرض‘‘ کے فلسفے کو سمجھنے کے بعد ضروری ہوجاتا ہے کہ مسلمان تب ہی قرض لے جب بہت ضروری ہو۔ بعض لوگ قرض لے کر شادی بیاہ پر شاہانہ خرچ کرتے ہیں۔ یہ کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے۔ قرض کا بوجھ نہایت پریشان کن ہوتا ہے اور آج کل بہت سے مالیاتی ادارے قرض کی وصولی کیلئے غیر قانونی طریقے استعمال کرتے ہیں اسلئے بہتر ہے کہ قرض سے بچنے کی ہر ممکن کوشش ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK