جس وقت اور جس قدر یہ آرزو بلند اور پاکیزہ تھی، اس وقت یہ امت مسلمہ اور اس کا ایک ایک فرد بہمہ تن رضائے خداوندی، پیرویٔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورتبلیغ اسلام میں منہمک تھا، مگر ان کی تبلیغ وسعی محض زبا ن کی شرینی اورقلم کی روشنائی ہی کی رہین منت نہ تھی بلکہ اس میں خون جگر کی سرخی اوردل کی سوزش بھی شامل تھی۔
قرآن مجید اور احادیث میں مسلمانوں کو اجتماعیت کی تاکید کی گئی ہے۔ تصویر : آئی این این
بلاشک وشبہ مذہب اسلام نے جماعتی زندگی پر بڑا زور دیاہے اور جماعتی زندگی کے ترک کو اسلامی زندگی کے ترک سے تعبیر کیاہے جس کا نتیجہ سوائے خسران اور عذاب جہنم کے اور کیا ہو سکتا ہے؟ (معاذ اللہ)۔ حدیث ’من شذ شذ فی النار‘ (ترمذی، ۲/۲۹ ومشکوۃ ۱/۳۰) کا یہی مطلب ہے اور دوسری حدیث میں واشگاف الفاظ میں رسول برحق حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ :
’’جو شخض بھی جماعت سے ایک بالشت بھر الگ ہوا اوراسی حالت میں اس کی وفات ہوگئی تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔ ‘‘(متفق علیہ)
ظاہر ہے کہ ایسی زندگی اسلامی زندگی کے سراسر مخالف ہے کیونکہ اسلامی زندگی کی روح ہی یہ ہے کہ مومن کی حیات وموت، اس کی عبادت اورعمل صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا جوئی کیلئے ہو اور بس۔ اس کا جو قدم بھی اٹھتاہو، اپنے ذوالمنن کے شوق دیدار کیلئے اٹھے، اوراس کے لبوں سے جب بھی کوئی بات نکلے توصرف حق تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کیلئے۔ اورکیوں نہ ہو، اس کو تو سبق ہی یہ ملاہے: ’قل ان صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للّٰہ رب العلمین‘۔
یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہے کہ اسلام کی نگاہ میں جماعتی زندگی کا معنی اور مطلب کیا ہے اور اسلام جماعتی زندگی کس زندگی کو کہتا ہے؟ اسلامی تعلیم کی رو سے جماعتی زندگی یہ نہیں کہ باہم مل کر تفریح طبع کیلئے کوئی کلب بنا لیا جائے اور فرصت کے اوقات میں وہاں جمع ہوکر خوش گپیاں کی جائیں اوردل کی امنگیں نکالی جائیں یا اتفاق کرکے کوئی اکھاڑا اور ورزش گاہ تجویز کرلی جائے جہاں صبح و شا م اکٹھے ہوکر ورزش کی جائے یا کشتی لڑی جائے یا اصلاحی نام پر کوئی ادارہ یا انجمن بنالی جائے اور صلاح مشورہ سے اپنے مزعومہ اور مفروضہ دُنیوی اغراض ومقاصد کو بروئے کار لایا جائے، یا کوئی کمیٹی ترتیب دی جائے جس کے ذریعے ووٹوں کی دُنیا میں اپنے مقصد پنہاں کو عملی جامہ پہنایا جائے، یا قرآن و سنت اور فقہ اسلامی سے مستغنی ہوکر اپنے خود تراشیدہ اور خانہ ساز اصول کے تحت کوئی سوسائٹی وضع اور اختراع کرلی جائے جس میں ملکی، قومی، سیاسی، اقتصادی، معاشی اور معاشرتی مفاد کو انجام دینے کی سعی اور کوشش کی جائے یا اسی قسم کی کوئی اوراجتماعی صورت اختیار کرلی جائے جس میں ز ندگی کے لائحہ عمل پر غور و خوض کیا جائے۔ اگرچہ ان تمام صورتوں میں بہ ظاہر اجتماعی زندگی تو موجودہے لیکن اسلامی نقطہ ٔ نظر سے یہ اس اجتماعی زندگی کی مصداق ہرگز نہیں جو اسلام کو مقصود و مطلوب ہے۔ اسلام یہ چاہتاہے کہ امت مسلمہ کی یکجہتی واجتماع، اس کا اتفاق واتحاد، اوراس کانظم و ضبط صرف اور صرف خداتعالیٰ کی رضاجوئی اوراس کی خوشنودی کیلئے اورجناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کیلئے ہو، قرآن وحدیث کی سربلندی، سلف صالحین کے طرز زندگی کے احیاء کیلئے ہو اور ملت کے ایک ایک فردکی کوشش و کاوش، سعی و عمل، تپش وخلش اور سوز وگداز جو ان کے قلب عشق آمیز کی گہرائیوں سے اُبھر کر لب آتش نوا تک آپہنچا ہو اور جس کی بدولت جذب و اثر کی دنیا رقص کرتی دکھائی دے، صرف اور صرف اطاعت ِ خدا اور اطاعت ِ رسولؐ کے لئے ہو، کتاب وسنت کے لئے ہو، اسلا م کی رفعت اور کامیابی کے لئے ہو۔
جس وقت اور جس قدر یہ آرزو بلند اور پاکیزہ تھی، اس وقت یہ ا مت مسلمہ اور اس کا ایک ایک فرد بہمہ تن رضائے خداوندی، پیرویٔ رسولؐ اورتبلیغ اسلام میں منہمک تھا، مگر ان کی تبلیغ و سعی محض زبا ن کی شرینی اور قلم کی روشنائی ہی کی رہین منت نہ تھی بلکہ اس میں خون جگر کی سرخی اوردل کی سوز ش بھی شامل تھی۔
وہ باوجود اختلاف استعداد کے اسلام کے صاف و شفاف چشمہ سے مستفید ہوکر سب عالم کومنور کرنے کے درپے تھے۔ ایک بجلی تھی جو سب میں کوند رہی تھی، ایک بے قرار روح تھی جو سب میں تڑپ رہی تھی، سیماب کی طرح نہ ٹھہرنے والا دل تھاجس نے سب کو بے قرار کر دیا تھا۔ وہ بے سروسامان تھے مگر منظم حکومتیں ان سے لرزتی تھیں، تاج وتخت کے مالک ان سے تھراتے تھے۔ وہ تھوڑے تھے مگر غالب و منصورتھے۔ وہ پیدل تھے مگربرق رفتار تھے۔ وہ بعض دفعہ تنہا اور اکیلے ہوتے مگرہزاروں پر بھاری رہتے تھے۔ نور توحید کاجذبہ، مخلوق خدا کی ہدایت اوراصلاح کاولولہ اور کائنات کی رہنمائی کی فکر ہر ایک قلب میں پیوستہ تھی جس کے سبب خداتعالیٰ کے نام کی سربلندی، اطاعت رسول کاجذبہ، مخلوق کی صحیح ہمدردی اورہر کام میں خداتعالیٰ کی رضا طلبی کا جوش ان میں کام کر رہا تھا۔ وہ جو کچھ بھی تھے، جہاں بھی تھے اورجیسا کچھ بھی کیا کرتے تھے، ان کے ہر کام سے مقصود اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور دنیا کی درستی تھی اور بس۔ ان کی دوستی اور مودت بھی محض خداتعالیٰ کیلئے ہوتی تھی اور ان کی عداوت و دشمنی بھی صرف خداکیلئے ہوتی تھی۔ وہ الحب فی اللہ والبغض فی اللہ (محبت ہو تو اللہ کیلئے اور کسی سے بغض ہو تو وہ بھی اللہ کیلئے ہو) کا مجسم پیکر تھے۔ اسلام میں جس اتفاق واتحاد اور جماعتی زندگی کو ملحوظ رکھا گیاہے، وہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیا ن فرمائی ہے: ’’اورتم اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوط پکڑواور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو۔ ‘‘ (آل عمران:۱۰۳)
یعنی اللہ تعالیٰ کی اس مضبوط اور متین رسی کو جو قرآن مجید اور دین قیم سے موسوم ہے، پوری قوت اور طاقت کے ساتھ پکڑو۔ یہ عروہ وثقیٰ اورمحکم رسی ٹوٹ تو سکتی نہیں، لا انفصام لھا، ہاں حرماں نصیبوں کے ہاتھوں سے چھوٹ سکتی ہے۔ اگر مسلمان سب مل کر اجتماعی قوت اور امکانی طاقت سے اس کو پکڑ لیں گے تو کبھی کسی باطل اور طاغوتی طاقت سے بفضلہ تعالیٰ ان کو کوئی گزند اور تکلیف نہیں پہنچے گی اور نہ کوئی شیطان صفت اپنی شیطنت اور شرانگیزی میں کبھی کامیاب ہوسکے گا۔ انفرادی زندگی صالح ہونے کے علاوہ امت مسلمہ کی اجتماعی اور قومی قوت بھی بڑی مضبوط اور ناقابل اختلا ل ہوجائے گی اورقرآن وسنت سے تمسک کرنے کی برکت سے تمام بکھری ہوئی قوتیں جمع ہو جائیں گی اور مردہ قوموں کو ابدی زندگی اور حیات تازہ حاصل ہوگی۔ آہستہ آہستہ جو اس کیف سے معمور اور شراب حق کے نشہ سے مخمور ہوگا، اس کے دل سے اسلام کی اجنبیت دور اوربے گانگی کافور ہو جائے گی۔ صدائے حق کی کشش اور نوائے صدق کی سریلی بانسری ضرور منیب دلوں پر اثر کرے گی۔ کان والے اسے سنیں گے اورجو سنیں گے سر دھنیں گے۔ اسلام کی رفعت اور سر بلندی کیلئے وہ اپنے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہن کر اور اپنے پاؤں میں زنجیروں کے بوجھل حلقے ڈال کر اوراپنے نرم ونازک جسم کو چور چور کروا کر بلکہ اکثر اوقات دار ورسن کے نیچے کھڑے ہوکر بھی وہ ایسی لذت محسوس کرتے ہیں جو شاہ ہفت اقلیم کو سلطنت کا سنہری تاج پہن کر بھی کبھی حاصل نہیں ہوسکتی، کیونکہ وہ اپنی بقاکا راز اسی میں سمجھتے ہیں کہ :
فنافی اللہ کی تہہ میں بقا کا راز مضمر ہے =جسے جینا نہیں آتا، اُسے مرنا نہیں آتا