آنحضرتﷺ نے ذاتی صلاحیتیں دیکھ کر مختلف نوجوانوں کو فنی تخصیص کا موقع دیا۔ جب نوجوان یہ بات ذہن نشین کرلیں گے کہ سیرتِ نبوی ؐ ہی میں ان کی فلاح ہے تو معاشرہ تنزّل سے نکل کر کامیابی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔
EPAPER
Updated: August 09, 2024, 4:52 PM IST | Dr. Muhammad Hamidullah | Mumbai
آنحضرتﷺ نے ذاتی صلاحیتیں دیکھ کر مختلف نوجوانوں کو فنی تخصیص کا موقع دیا۔ جب نوجوان یہ بات ذہن نشین کرلیں گے کہ سیرتِ نبوی ؐ ہی میں ان کی فلاح ہے تو معاشرہ تنزّل سے نکل کر کامیابی کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔
سیرت النبیؐ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ذمہ داری کا کام اکثر نوجوانوں ہی کے سپرد کیا جاتا تھا۔ اس کی متعدد نظیریں تاریخ نے صراحت سے مہیا کی ہیں۔ چنانچہ جب کسی قبیلے نے اسلام قبول کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ذہین و فطین نوجوان کو اس کا سردار مقرر کیا۔ اصل میں معیار یہ تھا کہ اسلامی اصول و شریعت سے کون زیادہ واقف ہے؟ نماز پڑھانے کے لئے قرآن کی سورتیں کس کو زیادہ یاد ہیں ؟ کون اپنے نئے دین سے زیادہ جوش اور دلچسپی کا اظہار کرتا ہے؟ یہ صفتیں عموماً نوجوانوں میں پائی جاتی ہیں۔ عموماً نوجوان مدینہ آکر زیادہ تیزی سے قرآنی سورتیں حفظ کرلیتے تھے۔ دیگر اُمور، مثلاً مال و دولت، وجاہت و تجربہ زیادہ پیش نظر نہیں رہتا تھا۔
ایک صحابی عمرو بن سلمہ الجرمی کا بیان ہے کہ ان کے والد سلمہ الجرمی اور ان کے قبیلے کے کچھ لوگ نبی پاکؐ کے پاس آئے، اسلام قبول کیا اور قرآنِ کریم کی تعلیم حاصل کی۔ تب انھوں نے کہا: ’’یارسولؐ اللہ! ہمیں نماز کون پڑھائے گا؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’جس نے سب سے زیادہ قرآن یاد کیا ہو، وہ نماز پڑھائے۔ ‘‘ جب سارے لوگ واپس آئے تو انہیں مجھ سے زیادہ قرآن یاد کرنے والا نہیں ملا، چنانچہ مَیں نے نماز پڑھانی شروع کر دی۔ ‘‘ (ابوداؤد، نسائی، ترمذی)
یہ بھی پڑھئے:یہ کتنی بڑی خوشخبری ہے کہ ہمارے گھر والے بھی جنت میں اکٹھے ہوں گے!
باصلاحیت افراد کی حوصلہ افزائی
مدینہ ہجرت کرکے آتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کے سامنے ایک چبوترہ بنا دیا، جس پر سائبان بھی تھا، اُسے صفہ کہتے تھے۔ دن کو یہ مدرسہ (بلکہ جامعہ) بن جاتا تھا اور رات کو دارالاقامہ اور بورڈنگ۔ یہاں اعلیٰ تعلیم تو خود رسولِ کریم ﷺ دیا کرتے تھے، لیکن ابتدائی تعلیم اور لکھنا پڑھنا، سکھانا، یہ کام نوجوان رضاکاروں کے سپرد تھا۔ ہجرت کے ڈیڑھ ہی سال بعد بدر کی جنگ پیش آئی اور مکہ کے قیدیوں کا فدیہ آنحضرت ﷺ نے یہ مقرر فرمایا کہ ہرشخص مدینے کے دس دس مسلمان بچوں کو پڑھنا سکھائے۔
حضرت زید بن ثابتؓ نے اسی طرح لکھنا سیکھا، اور ان کی ذہانت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ فارسی، حبشی، یونانی اور عبرانی زبانیں بھی اپنے شوق سے مدینے آنے والے مسافروں سے کچھ ہی عرصہ میں سیکھ لیں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عبرانی سیکھنے کا حکم دیا تو ۱۵؍ دن میں اس میں مہارت پیدا کرلی، تاکہ یہودیوں سے خط و کتابت میں اسلامی محکمۂ خارجہ کسی غیرمسلم یہودی کا محتاج نہ رہے۔ حضرت زید بن ثابتؓ کے علاوہ دیگر کاتب بھی اکثر نوعمر تھے۔ حضرت علیؓ، حضرت معاویہؓ، حضرت ابن مسعودؓ وغیرہ اُس وقت سب عمر میں بہت کم اور سب کے سب نوجوان تھے۔
اس سے بڑھ کر، اہم اور ذمہ داری کے کام بھی کثرت سے نوجوانوں کے سپرد کیے جاتے تھے۔ حضرت اسامہؓ بن زید کو بارہا فوج کا سپہ سالار مقرر کیا گیا۔ جنگ ِ خیبر میں حضرت علیؓ کی عمر مشکل سے ۲۵؍ سال کی رہی ہوگی۔ آپؓکو ایک بہت بڑے معرکے کا افسر بنایا گیا۔ اس کے بعد کے برسوں میں آپؓ گورنر اور قاضی جیسے عہدے بھی دئیے گئے۔
حضرت عمروؓ بن حزم اور حضرت معاذؓ بن جبل بھی بہت نوعمر صحابہؓ تھے۔ انہیں ایک اہم صوبے کا علی الترتیب گورنر اور انسپکٹر جنرل تعلیم بنایا گیا۔ حضرت معاذؓ کے متعلق مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ ’’ان کا یہ کام تھا کہ گائوں گائوں اور ضلع ضلع دورہ کریں اور وہاں جاری تعلیم کی نگرانی کریں اور اگر نظم نہیں ہوا ہے تو اس کا نظم کریں۔ ‘‘
یہ بھی پڑھئے:آپؐ کے اخلاق نے عدی کو ایسا متاثر کیا کہ وہ اسلام قبول کئے بنا رہ نہ سکے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ذاتی صلاحیتیں دیکھ کر مختلف نوجوانوں کو ایک فنی تخصیص کا موقع دیا۔ چنانچہ حضرت زید بن ثابتؓ حساب کے بھی ماہر تھے۔ اس لئے انہیں تقسیم ترکہ کے ریاضیاتی فن کا امام قرار دیا۔ کسی کو فن ِ تجوید اور قرأت کا ماہر، کسی کو عام مسائل اور فقہ کا مستند عالم قرار دیا اور حکم جاری فرمایا کہ جس کسی کو ان فنون کے متعلق پوچھنا ہو تو ان ماہرین سے پوچھ لے۔
مشیروں کا تقرر اور مشاورت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشیرانِ خاص بھی اکثر نوجوان تھے۔ ایک حضرت ابوبکرؓ کو چھوڑ کر، جو آنحضرتؐ کے تقریباً ہم عمر تھے، باقی تمام اکابر صحابہ حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت ابن مسعودؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت ابن الجراحؓ سب ہجرت کے وقت نوعمر تھے۔ حضرت ابن عمرؓ، حضرت ابن عباسؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ وغیرہ کی عمر تو اُس وقت اور بھی کم تھی۔
آنحضرت ﷺ حسب ِ احکامِ قرآن ہر امر میں مشورہ فرمایا کرتے تھے، جس کا منشا نوجوانوں کی تربیت تھا۔ وہ واقعات اور گتھیوں سے واقف ہوتے اور آنحضرت ﷺ کے فیصلے کو آخر میں سنتے اور اس طرح آئندہ اہم کاموں کے لئے تیار ہوتے جاتے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی شخص کو اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرتے نہیں پایا۔ ‘‘ (امام شافعیؒ نے حسن بصریؒ کا قول نقل کیا ہے) اور یہ بھی کہا ہے کہ آنحضرت ﷺ مشورے سے مستغنی تھے لیکن حضوؐر کا منشا یہ تھا کہ اپنے بعد آنے والے حاکموں کے لئے ایک سنت چھوڑ جائیں۔
انتظامِ مملکت اور سیاست ِ مدن کیلئے جہاں بہت سے عام ادارے (گورنری، عدالت، تحصیل مال گزاری وغیرہ) قائم ہوئے، وہیں شہروں اور قبیلوں کا اندرونی نظام بھی درست کیا گیا۔ ہر گائوں یا بڑے شہر کے محلے میں ہر دس دس آدمیوں پر ایک ’عریف‘ مقرر ہوا تھا اور جملہ مقامی ’عریفوں ‘ کا ایک نقیب ہوتا جو براہِ راست عامل (گورنر) کے پاس جوابدہ ہوتا۔ عریف کا کام عموماً نوجوانوں کو دیا جاتا اور وہ بڑی مستعدی اور پھرتی سے اپنے فرائض بجالاتے۔ ہوازن کے قیدیوں کی رہائی کے متعلق ہزاروں ہی آدمیوں سے رائے لینی تھی۔ یہ کام عریفوں نے دیکھتے ہی دیکھتے انجام دے دیا اور نتیجہ آکر آنحضرتؐ کو سنا دیا۔
قیادت کی تیاری
حوصلہ افزائی کے لئے نوجوانوں کو شاباشی اور انعام و اِکرام کی بھی کمی نہ تھی۔ اور نوجوانوں کی تربیت پر توجہ کرنا ہی وہ راز معلوم ہوتا ہے کہ وہ قوم جس نے ابتدائے آفرینش سے کبھی حکومت کا نام نہ سنا تھا، وہ ۱۵۔ ۲۰؍ سال ہی میں جب تین براعظموں کی مالک بن گئی تو ایسے اچھے مدبر اور سپہ سالار اور منتظم افسر بھی مہیا کرنے کے قابل ہوگئی جن پر تاریخِ انسانیت فخر کرسکتی ہے۔
آج تہذیب و تمدن کے دعویداروں اور کمالاتِ انسانی کے مالکوں میں سے کون سی گوری سے گوری قوم ہے جو اس اسلامی نظریے کا جواب پیش کرسکتی ہو کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں جب ایک شہر پر قبضہ ہوا اور حسب ِ معمول شہریوں سے حفاظتی ٹیکس وصول کیا گیا لیکن جلد ہی جنگی ضرورت سے شہر کا تخلیہ کرکے اسلامی فوج کو وہاں سے ہٹ کر آنا پڑا، تو جملہ حفاظتی ٹیکس شہریوں کو یہ کہہ کر واپس کر دیا گیا کہ اب ہم تمہاری حفاظت کے قابل نہیں ہیں اور ہمیں یہ رقم رکھنے کا کوئی حق نہیں۔
آج مہذب سے مہذب قوموں میں سے کون اس نظیر کا جواب پیش کرسکتی ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں ایک محصور شہر کے لوگوں نے بعض سابقہ تعلقات کی بناپر محاضر کنندہ فوج کے ایک غلام سے امن نامہ حاصل کرلیا اورفوج کا سپہ سالار مجبور ہوگیا کہ اس مسلمان کی بات کا پاس لحاظ کرے جو چاہے کتنا ہی کم حیثیت اور ادنیٰ مرتبے کا غلام ہی کیوں نہ ہو۔
اصل میں اعلیٰ تعلیم اتنی اہمیت نہیں رکھتی جتنی اعلیٰ تعمیل۔ اسلام نے کبھی دکھاوے کی خوش نما مگر ناقابلِ عمل تعلیم نہیں دی بلکہ اوسط انسانوں کی قابلیت کا لحاظ کرکے قواعد بنائے اور ان کی انتہائی تعمیل ادنیٰ اور اعلیٰ سب سے کرائی۔ ان احکام کا بادشاہِ وقت بھی اتنا ہی پابند ہے جتنا کوئی غلام۔ ایثار اور فرشتہ سیرت اعمال کی تعریف تو کی گئی، مگر ویسا کرنا کسی پر واجب نہیں کر دیا۔ یہ اصول اسلامی تعلیم کے ہرجز میں نظر آئے گا۔
جسمانی کھیلوں کی حوصلہ افزائی
چستی اور پھرتی پیدا کرنے کیلئے جہاں ذہنی تربیت کی ضرورت پڑتی ہے، وہیں جسمانی ریاضت بھی ناگزیر ہوتی ہے۔ اسی لئے یہ سوال دلچسپ ہے کہ عہد نبویؐ میں اسپورٹس کی کس حد تک سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی جاتی تھی؟
عرب میں خاص کر حجاز میں تیرنے کی ضرورت کم پڑتی ہے اس کے باوجود خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کم عمری میں اپنی ننھیال کے کنویں میں تیرنا سیکھا تھا اور بعد کے دور میں اوروں کو اس کی ترغیب بھی دیتے رہے۔
کشتی کا فن بھی اس ضمن میں بیان ہوسکتا ہے۔ رُکانہ نامی ایک پہلوان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مسلسل تین بار کشتی میں پٹخنا تاریخ کا ایک مشہور واقعہ ہے۔ مدینہ میں بھی آپؐ اس کی اکثر سرپرستی فرماتے تھے۔ جنگ ِ اُحد کے موقعے پر چند نوعمر رضاکاروں کو کشتی لڑنے میں ماہر ہونے کے باعث، باوجود کم عمر کے فوج میں بھرتی ہونے کی اجازت دی گئی تھی۔
دوڑ کے سلسلے میں آدمیوں کی، گھوڑوں ، گدھوں اور اُونٹوں کی دوڑ سب سے زیادہ مقبول تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خود انعام دیا کرتے تھے۔ تربیت یافتہ اور غیرتربیت یافتہ گھوڑوں کے لئے الگ الگ مسافتیں مقرر تھیں۔ وہ مقام اب تک مدینہ منورہ میں محفوظ ہیں جہاں سے شرط کے گھوڑے وغیرہ روانہ ہوتے تھے، اور وہ مقام بھی جہاں کھڑے ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیتنے والے کا تعین فرماتے تھے۔ اس آخر الذکر مقام پر اب ایک مسجد ہے جو مسجدالسبق (دوڑ کی مسجد) سے موسوم ہے۔ دوڑ میں انعام اوّل، دوم، سوم، چہارم متعدد افراد کو ملتے تھے۔ کبھی یہ انعام کچھ کھانے کی چیزیں ، مثلاً کھجور اور کبھی کوئی چیز جن کی تفصیل سیرتِ شامی میں ملتی ہے۔
نشانہ اندازی کے انعامات اور اس کی ترغیب و تحریص کا ذکر کثرت سے احادیث میں آیا ہے۔ ابن القیم نے اپنی کتاب الفروسیہ میں ذکر کیا ہے کہ علاوہ اور چیزوں میں مسابقت کے، عہدِ نبویؐ میں وزنی پتھر اُٹھانے کے بھی مقابلے ہوا کرتے تھے اور رسولِ اکرم ؐ اسے روا رکھتے تھے۔ نیزہ بازی (وِرکُلہ) کے علاوہ عہد ِ نبویؐ میں کجّہ اور کُرک کھیلوں کا بھی نوعمروں میں رواج نظر آتا تھا۔